پی ٹی ایم: حقائق چھپانے سے مسائل حل نہیں ہوتے


اٹلی کے فلاسفر نیکولو میکاؤلی نے اپنی مشہور عالم کتاب ”دی پرنس“ میں محکوم ریاستوں کو اپنے قبضے میں رکھنے کے لئے بادشاہ کو تین اہم مشورے دیے ہیں۔ اوّل جب آپ کسی ملک کو فتح کریں تو بہترین راستہ یہ ہے کہ پوری آبادی کو نیست و نابود کر دیں۔ دوم اگریہ ممکن نہ ہو تو اس میں جگہ جگہ فوجی چھاؤنیاں قائم کریں، سوم اگر معاشی طور پر ایسا کرنا مشکل ہو تو پھر اس کے کچھ اہم لوگوں کو شرکت اقتدار کا جھانسا دے کر انھیں رام کریں۔

وطن عزیز کے موجودہ حالات دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے نیکولو میکاؤلی کے ان ہدایات پر پورے شد و مد سے عمل کیا جا رہا ہو اور یہ عمل بھی مخصوص علاقوں اور مخصوص قوموں کو نشانہ بنا کر جاری ہے۔

سوات میں فوجی آپریشنوں کے دوران بے گناہ لوگوں کی ہلاکت، بعد میں سرچ آپریشنوں کے ذریعے چادر اور چاردیواری کی حرمت کی بری طرح پامالی، چیک پوسٹوں پر بچوں، بڑوں، بزرگوں اور خواتین تک کو ذلت آمیز تلاشی سے گزارنے کا عمل اور آخری حربے کے طور پر علاقے کے لوگوں کو آئی ڈی پیز بناکر دربدر کردینا اور اس کے بعد سوات میں ایک بڑی فوجی چھاؤنی کا قیام، یہ سب کچھ کیا ظاہر کرتا ہے۔ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

سوات میں فوجی آپریشنوں کے ذریعے جو ماورائے آئین و قانون بے قاعدگیاں کی گئی ہیں، اس کی فہرست کافی طویل ہے لیکن اس وقت میڈیا پر پابندی عائد تھی اور وہ اصل صورت حال سے لوگوں کو باخبر نہیں رکھ رہا تھا لیکن اہل سوات کے ذہنوں میں سکیورٹی اداروں کی بد تدبیری اور غیرانسانی سلوک کی وجہ سے جو بدگمانی اور ذہنی دوری پیدا ہوئی ہے، وہ ختم نہیں ہوئی ہے۔ تاہم یہ ایسے حالات تھے جو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں اور خود بھی ان جاں گسل مراحل سے گزرتے رہے ہیں لیکن وزیرستان کے حالات سوات کے مقابلے میں زیادہ سنگین تھے۔

سوات میں تو جعلی طالبان تخلیق کیے گئے تھے لیکن وزیرستان کے مختلف علاقوں میں غیر ملکی جنگجوؤں کو پناہ دی گئی تھی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا تھا کہ حکومت کی طرف سے ان کی باقاعدہ مردم شماری کی گئی تھی اور انھیں وہاں خود کو رجسٹر کرانے کا کہا گیا تھا۔ جب نائن الیون کے بعد امریکی سرکار سے انھیں ختم کرنے کا حکم آیا تو وزیرستان کے لوگوں کی اصل آزمائش شروع ہوگئی۔ ان متذکرہ غیر ملکی جنگجوؤں اور برے طالبان کو ختم کرنے کے لئے فوجی آپریشوں کا آغاز کردیا گیا جن میں مقامی آبادی کو بری طرح تکلیفوں اور اذیتوں سے گزرنا پڑا۔ انھیں آئی ڈی پیز بننے پر مجبور کردیا گیا اور پناہ گزیں کیمپوں میں بھی ان کے احترام اور روایات کا خیال نہیں رکھا گیا۔

وزیرستان میں فوجی آپریشنوں کے دوران ایک ایک گھر سے کئی کئی جنازے اٹھتے تھے۔ علی وزیر جن پر غداری کا الزام لگایا جاتا ہے اور اس وقت زیر حراست ہیں، ان کے گھر سے دس جنازے اٹھے تھے جن میں ان کے والد اور بھائی سمیت قریبی رشتے دار شامل ہیں۔ ان کے گھر اور تجارتی مرکز کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا تھا۔ عام لوگوں کو سکیورٹی چیک پوسٹوں پر جس طرح ذلیل اور خوار کیا جاتا تھا، اس نے لوگوں کے ذہنوں میں سکیورٹی اداروں کے خلاف شدید نفرت بھر دی ہے۔

اس جبر سے بھری ہوئی صورت حال میں سکیورٹی ادارے کیا یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ ملک اور اس کے پرچم کے لئے احترام کا جذبہ پیدا کرسکیں گے؟ نہ کسی کو زبردستی محب الوطن بنایا جاسکتا ہے اور نہ ہی غدار۔ آپ کے اچھے یا برے عمل کے نتیجے میں اچھا یا برا ردِ عمل سامنے آتا ہے۔ وزیرستان کے معصوم عوام تو سچے پاکستانی ہیں اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ 1948 ء میں ان پختونوں ہی نے موجودہ آزاد کشمیر کی آزادی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

یہ تفصیل اس لئے لکھنی پڑ رہی ہے کہ مین سٹریم اور سوشل میڈیا پہ پی ٹی ایم کے خلاف غیر معمولی طور پر منفی پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف ملک بھر میں مقیم پشتونوں بلکہ بیرون ملک رہائش پذیر پشتونوں میں شدید منفی ردِ عمل ابھر رہا ہے۔ حالیہ فوجی تصادم کے نتیجے میں مزید پختون پی ٹی ایم کے موقف کے حامی ہو رہے ہیں۔ انھیں احساس ہو رہا ہے کہ پختونوں پر ظلم بھی ڈھایا جا رہا ہے، انھیں دہشت گرد اور غدار بھی قرار دیا جا رہا ہے اور جب وہ پرامن احتجاج کا راستہ اختیار کرتے ہیں تو ان پر گولیاں بھی برسائی جاتی ہیں۔

ستم بالائے ستم یہ کہ ملک کی رائے عامہ کے ذہنوں کی اس قدر برین واشنگ کی گئی ہے کہ سوشل میڈیا پہ ان کی طرف سے پی ٹی ایم کے کارکنوں کو غدار اور بیرون ملک ایجنٹ جیسے گھناؤنے الزامات کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ بعض تو ان کے خلاف دشنام طرازی پر بھی اتر آتے ہیں لیکن انھیں معلوم نہیں کہ مسئلہ پی ٹی ایم کا نہیں، وہاں کے عام لوگوں کا ہے۔ پی ٹی ایم تو ان کے لئے ایک پلیٹ فارم ہے جس میں وہ اپنے مسائل، مشکلات اور مطالبات بیان کرنے کے لئے جمع ہوجاتے ہیں۔ دوسری طرف قومی میڈیا کا کردار تو سب کے سامنے ہے۔ اس نے مظلوم کی بجائے ظالم کا ساتھ دے کر پختونوں کے ذہنوں میں مزید نفرتیں کاشت کی ہیں جن کے اثرات تا دیر قائم رہیں گے۔

اس وقت مسئلہ دو فریقین کے درمیان ہے۔ ایک طاقت ور ہے اور دوسرا کمزور۔ کمزور فریق پر ظلم ہوا ہے اور اس کے ساتھ ماورائے قانون سلوک روا رکھا گیا ہے لیکن اسے اس ظلم اور زیادتی پر پرامن احتجاج کا حق نہیں دیا جا رہا ہے اور نہ ہی اس کے جائز مسائل حل کرنے اور مشکلات ختم کرنے کے لئے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں بلکہ مظلوم کی آواز دبانے کے لئے جبر کے مختلف حربے استعمال میں لائے جا رہے ہیں۔ طاقت ور نے اپنے جرائم چھپانے کے لئے میڈیا پر سخت ترین پابندیاں عائد کر رکھی ہیں تاکہ مظلوم کا موقف کسی بھی صورت میں عوام کے سامنے نہ آسکے اور اس کی بے قاعدگیوں پر پردہ پڑا رہے۔

مظلوم عوام کی رسائی منتخب جمہوری حکومت تک بھی ممکن نہیں۔ وزیر اعظم عوام اور سکیورٹی فورسز کے درمیان حالیہ تصادم پر مہر بہ لب ہیں اور صوبے کے وزیر اعلیٰ اور وزیر اطلاعات نے جو بیانات جاری کیے ہیں، وہ بھی مظلوموں کے خلاف ہیں۔ ایسے میں وزیرستان ہی کے نہیں بلکہ جہاں جہاں پختون بستے ہیں، ان کے دلوں میں کس قسم کے جذبات اور احساسات سر اٹھا رہے ہوں گے؟ ان کو سمجھنے کے لئے کسی افلاطونی قابلیت کی ضرورت نہیں۔

منتخب جمہوری حکومت جب جمہور کے مسائل سے اغماز برتے اور اہم قومی معاملات غیر جمہوری قوتوں کے حوالے کریں تو اسے کیسے عوام کی نمائندہ جمہوری حکومت قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ عوام کی منتخب جمہوری حکومت بدترین آمریت کی گود میں پل رہی ہے اور اسے جو احکامات موصول ہوتے ہیں، وہ ان پر من و عن عمل پیرا ہوتی ہے۔

وزیرستان کے عوام کے مسائل حقیقی ہیں، ان کا اعتراف حکومتی اور عسکری دونوں سطحوں پر کیا جاچکا ہے۔ اس سلسلے میں مذاکرات بھی ہوئے ہیں، چند ہفتے قبل پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے ساتھ بات چیت میں بھی شریک ہوئے تھے جس میں تمام سیاسی جماعتوں کے اہم سینیٹرز موجود تھے جنھوں نے اعتراف کیا کہ منظور پشتین کو سننے کے بعد ہم نے محسوس کیا ہے کہ کئی چیزیں حل طلب ہیں اور امید ہے کہ اصلاح احوال کے لئے مثبت اقدامات اٹھائے جائیں گے لیکن اصلاح احوال کے لئے مثبت قدم اٹھانے کی بجائے مظلوموں کی آواز گولی سے دبانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

اس وقت ملک کے معاشی اور سیاسی حالات نہایت نازک ہیں۔ عالمی سطح پر بھی وطن عزیز کے لئے صورت حال تسلی بخش نہیں، ایسے میں فوج اور عوام کے مابین تصادم بہت خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ سلگتا ہوا بلوچستان پہلے سے ہی دردِ سر بنا ہوا ہے، کیا خیبر پختون خوا میں بھی بغاوت کی آگ بھڑکانا مقصود ہے؟ ملک کے بعض صاحب فہم صحافیوں، دانش وروں اور قومی سیاست دانوں نے حکومت اور سکیورٹی اداروں پر اس خطرناک صورت حال کی سنگینی واضح کرنے کی کوشش کی ہے اور اس سلسلے میں بار بار سقوط ڈھاکہ کی مثال بھی دی جاتی رہی ہے کہ ہمیں ماضی سے سبق سیکھنا چاہیے اور کسی ایسے اقدام سے گریز کرنا چاہیے جس کے نتیجے میں وطن عزیز کسی سانحہ سے دوچار ہوجائے۔

عمران خان سے تو کسی مدبر سیاست دان کی توقع نہیں کی جاسکتی کیوں کہ اس سنگین صورت حال میں مثبت کردار ادا کرنے کی بجائے وہ مسلسل خاموشی کی رِدا اوڑھے ہوئے ہیں لیکن فوجی زعماء کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور پختونوں کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لئے علاقے کے عمائدین کی مدد سے ایک لویہ جرگہ تشکیل دینا چاہیے جو اس تمام صورت حال کا جائزہ لیں اور پی ٹی ایم کے ذریعے عوام نے جو مطالبات پیش کیے ہیں، ان پر سنجیدگی سے غور کیا جائے اور مسائل کے حل کے لئے فوری عملی اقدامات کئے جائیں۔ قبائلی علاقہ جات کو چوں کہ صوبہ خیبر پختون خوا میں ضم کیا جا چکا ہے، اس لئے ان علاقوں میں فوج کا عمل دخل کم سے کم کرنا چاہیے اور چیک پوسٹوں پر ایف سی یا ریگولر پولیس کے اہل کار تعینات کیے جائیں۔

حقائق چھپانے سے مسائل حل نہیں ہوتے اور سوشل میڈیا کے اس دور میں انھیں چھپانا ممکن بھی نہیں۔ میڈیا پر پابندیاں عائد کر کے اس کے ذریعے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنے کی کوشش حالات کو مزید خرابی کی طرف لے جائے گی۔ اپنی غلطیاں تسلیم کرنے سے سبکی نہیں ہوتی بلکہ مزید غلطیوں کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔ اپنی کوتاہیوں اور بے قاعدگیوں پر اڑنا یا انھیں اَنا کا مسئلہ بنانا بد ترین حماقت ہے۔ ملک کی سلامتی اور قومی یک جہتی کے لئے ضروری ہے کہ پختونوں کے گِلے شکوؤں کو سنجیدہ لیا جائے اور انھیں دھتکارنے کی بجائے گلے لگایا جائے۔ ان کی آواز پوری ہمدردی سے سنی جائے اور فراست و تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے مسائل حل کرنے کے لئے سنجیدہ اور عملی اقدامات اٹھائے جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).