کنویں میں ٹراتے مینڈکوں سے کچھ سوال


تیزی سے اپنے اختتام کو بڑھتا یہ ماہ صیام جس کے سحر و افطار کی پرنور ساعتوں کی رونق ہی کچھ عجب ہے، ان ساعتوں کو جو خاموشی و سکوت سے سنیں تو وجدان پہ عجب پھڑپھڑاہٹیں دستک دیتی ہیں، کبھی کبھی الجھن بھی ہونے لگتی ہے کہ توبہ ہے جو ان ساعتوں میں کہ جس کے لیے فرمایا گیا ”اور جب رات رخصت ہونے لگتی ہے اور صبح سانس لیتی ہے“ تو جی چاہنے لگتا ہے کسی سکوت لمحے میں صبح کی اس سانس کا لمس اپنے چہرے پہ محسوس کروں مگر کبھی اتفاق ہوا بلکہ بچے جب چھوٹے تھے تو بہت بار ہوا کہ روزہ رکھتے ہوے بالکل اکیلی تھی تو لگا کہ ان ساعتوں کی رونق ہی یہ ہے کہ آپ کے نوالہ و رزق میں آپ کے ساتھ آپ کے اپنے ہی نہیں غیر بھی شریک ہوں اور اس ہنگامے میں ہی ان ساعتوں کی برکت و رونق پنہاں ہے۔

آج کل سوشل میڈیا پہ بڑے طمطراق اور تمکنت بھرے غرور سے ہم مسلمان ایسی ویڈیوز شیر کرتے ہیں جہاں تذکرہ و چرچا ہے بوسٹن کے چرچ کا جہاں گزشتہ بیس سال سے نماز جمعہ کے اہتمام کے لیے چرچ کا فقید المثال تعاون قابل ستائش ہی نہیں قابل تقلید بھی ہے۔ ان ویڈیوز میں سکھ برادری کے گوردواروں میں افطاری کے اہتمام بھی دکھائے جاتے ہیں، دبئی میں موجود گوردوارے میں افطار کا کیا شاندار اہتمام کیا جاتا ہے کہ دیکھ کر آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔

اس دستر خوان پہ بے شمار مسلمان وہاں کا نمک کھا کر اٹھتے ہوں گے مگر میں سوچتی ہوں کہ اس نمک کو کھا کر بھی ہماری ٹیڑھی گردنوں کے سریے میں کوئی افاقہ ہوتا ہے یا نہیں کہ ہم جو بنی اسرائیل کی مانند اس زعم و خرافات میں مبتلا ہیں کہ ہم کلمہ گو ہیں سو ہر حال میں بہتر اور جنت کے اصلی وارث ہم ہی ہیں اور باقی سب جہنم میں جائیں گے اور ہم اور ہماری مسجدیں ہی پاک استھان ہیں جن پہ کسی غیر مسلم کا قدم دھرا تو یہ نجس ہوجائیں گی۔

یہ ویڈیوز دیکھ کر بھی شیئر کرکے بھی ہمارے بھس کھائے دماغوں سے یہ خرافات نہیں نکلتی تو یقینا اس سوچ کو اکیس توپوں کی سلامی جب کہ ان توپوں کے ساتھ ایسی سوچ کے حاملین کو بھی باندھ دیا جاناچاہیے۔

غیر مسلم تو چھوڑئیے، ہماری مسجدیں مسلم فرقہ واریت کے فروغ کے اڈے بن چکے ہیں جہاں دوسرے فرقے کی مداخلت مسجد کو نجس کرنے کا باعث بن جاتی ہے۔

ہماری مسجدیں، ہماری امام بارگاہیں ہمارے کنویں ہیں اور ہم اپنے اپنے کنوؤں میں پوری قوت سے ٹرا کر سمجھ رہے ہیں کہ کائنات کا یہ ہنگام و شور بس ہمیں سے ہے، سوچتی ہوں ان کنویں کے مینڈکوں کا کیا حال ہو جو نماز جمعہ چرچ میں ادا کرکے لوٹیں اور افطار کے وقت گوردوارے کا دستر خوان مہمان نوازی کو موجود ہو، کیا پھر بھی یہ یونہی ٹراتے رہیں گے ”بس میں ہوں، میں ہی ہوں سب سے افضل، سب سے بہتر۔ “ اور کیا ایسے لوگوں کے سامنے یہ سوال کرنے کی جرات کرنی چاہیے کہ آپ جو اِن ویڈیوز کو دیکھ کر کسی اصیل مرغ کی طرح گردن اکڑاتے ہیں اور اپنے دین اپنے مذہب اور اپنی مسجد و عبادت گاہ کو ہی سب سے افضل سمجھتے ہیں، کیا آپ اپنے ملک میں بسنے والے غیر مسلموں کے لیے ایسی وسیع القلبی کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔

اگر آپ ایسا کر سکتے تو یقین کرلیجیے کہ آپ مساوات کے جھوٹے منافقانہ دعوے نہ کرتے۔ آپ کے اندر بھی ایک کٹڑ برہمن موجود ہے جو غیر مسلم کو شودر سمجھتا ہے۔

جبکہ نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم نے نجران سے آے عیسائی وفد کو ان کی عبادت کے وقت مسجد نبوی میں عبادت کرنے کی اجازت دی اور انہوں نے مشرق کی جانب منہ کرکے اپنی عبادت کی۔ نہ تو اس مسجد سے پاکیزہ کوئی اور مسجد موجود ہے اور نہ پاکی میں مرے آقا سے بڑھ کر کوئی دعویدار ہو سکتا ہے جبکہ یہ وہ موقع تھا جب مباہلہ جیسی سخت آیات اتریں موقع تلخی و سختی کا تھا مگر سنت جو قائم کی گئی وہ عدیم المثال تھی۔ حیرت و تاسف کا مقام ہے کہ ہم ایسی چیزوں کو کیوں چھپا لیتے ہیں، شاید اس لیے کہ ہم سب کے پاس اپنا اپنا من پسند اسلام ہے۔

دکھ اور مقام افسوس تو یہ بھی ہے کہ ہم نے کیا صورت بگاڑی ہے دین کی جس کو آفاقی مذہب کہتے کہتے ہماری زبان نہیں تھکتی اور ہم نے اسے بس بستی کا وہ کنواں بنادیا جہاں صرف مینڈک ٹرا تے ہیں کہ بس میں ہی ہوں۔

سوال آپ کے سامنے پھر بھی رکھنے کی جسارت کی ہے کہ کیا ایسا روشن چہرہ ہم بھی اقوام عالم کو دکھا سکتے ہیں؟ کیا ہم بھی انسان دوستی کی ایسی کوئی مثال قائم کرسکتے ہیں؟

جاتے جاتے اک آخری سوال کیا ہر مصلح، پیغمبر، مبلغ، صوفی اورولی نے انسان سے اتنی نفرت اور گھن کھائی تھی جو ہمارے دلوں کی سیاہی میں چھلک چھلک جاتی ہے؟ جواب یقینا نفی میں ہوگا کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو دنیا میں کسی نظریے کا فروغ ممکن نہیں تھا۔ محبت ہر نظریے سے بڑی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).