اور سندھ کے دوسرے پہاڑ (The Mount of Pub) کوہِ پب


ایک بار، سندھ میں ضلع جامشورو میں سہون شریف کے قریب ’لکی‘ اور ’کِھیرتھر‘ کے پہاڑی سلسلے کے دامن سے براستہ سڑک گاڑی میں گزرتے ہوئے، تخلیقی رو میں بہتے ہوئے ایسے ہی یہ بات ذہن میں آئی تھی، کہ اگر پہاڑوں اور پہاڑی سلسلوں کی زبان ہوتی، اور اُن سے اِس زمین پر گُزرنے والے موسمی، ماحولیاتی، سیاسی، سماجی و دیگر انقلابوں کے بارے میں پُوچھا جاتا، اور اگر یہ دیو قامت وجُود جواباً لب کُشائی کرتے تو کیا کہتے!  ایسا میں نے نہ صرف سوچا تھا، بلکہ بعد میں بچّوں کے لئے اپنی ایک تحریر میں ’بولتے کوہسار‘ کے عنوان سے ہلکے پُھلکے تاریخی حقائق کچھ پہاڑوں سے کہلوائے بھے تھے، تاکہ بچّوں کی سمجھ میں بات با آسانی آجائے۔

میں ایسا اس لئے سوچنے پر مجبُور ہوا تھا، کہ مختلف زلزلوں سے آنے والی معمولی (اور کہیں کہیں پر غیر معمُولی)  تبدیلیوں کے باوجُود، کُرّہء ارض پر قدیم ترین وجُود، بہرحال پہاڑوں اور کوہساروں ہی کا ہے، کیونکہ سمندر، دریا، جھیلیں اور دیگر آبی ذخائر تو اپنا رُخ اور انداز بدلتے رہے ہیں، گویا اُن کی شکلیں اور ہئیّت تبدیل ہوتی رہی ہے، مگر بیشتر پہاڑ اپنے جُغرافیائی جائے وقوعہ سے کم ہی ہلے جُلے ہیں، لہٰذا قوموں اور خطّوں کی تاریخ میں ان پہاڑوں اور کوہساروں کے وجُود کا بہت بڑا کردار رہا ہوگا۔

سندھ کے عظیم صوفی شاعر، حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ نے بھی اپنے کلام میں کئی پہاڑوں کا ذکر کیا ہے۔  یہ ذکر اُن کے کلام میں بالخصُوص ہمیں اُن پانچ  ( 5 )  سُروں  (ابواب)  میں کثرت سے ملتا ہے، جو اُنہوں نے اپنی بہادر ’سُورمی‘   (ہیروئن)  اور مُسلسل جدّوجہد کی علامت بنے ہوئے کردار ’سسی‘ کے نام منسُوب کیے ہیں۔  اُن میں سے ایک سُر  (باب)  کا تو نام ہی ’کوہیاریِ‘ ہے۔  یہ لفظ شاہ سائیں نے سسی ہی کے لئے استعمال کیا ہے، جس کا مطلب اُس کے اشتقاق ہی سے واضع ہو جاتا ہے۔

 ’کوہ‘ یعنی ’پہاڑ‘ اور ’یاری‘ یعنی ’دوستی‘ ۔  جس کا مطلب ہُوا: ’وہ، جس کی پہاڑ سے دوستی ہو‘ ۔  یعنی پنہُوں کے لئے جانبِ کوہ بھٹکنے والے جُراءت اور ثابت قدمی کی علامت بنے ہوئے کردار ’سسی‘ کو شاہ سائیں ؒ نے ’پہاڑ کا دوست‘ یا ساتھی کہہ کر پُکارا۔ شاہ لطیفؒ نے اپنے کلام  (بالخصُوص سسی کے ابواب میں )  جن پہاڑوں کا ذکر کیا ہے، اُن میں ’پَب‘ نامی پہاڑ بھی سرِفہرست ہے، جو اِس قصّے میں اہم ترین پہاڑ سمجھا جاتا ہے۔

دراصل ’ہالار‘ نامی پہاڑی سلسلے کی جنوبی قطار کو ’پب‘ پہاڑ کہا جاتا ہے۔  اگر ہم اس کی جُغرافیائی جائے وقوعہ سمجھنا چاہیں، تو کراچی میں ہاکس بے بِیچ سے اندازاً 11 میل کے فاصلے پر، بلوچستان کی حدُود میں، کم و بیش 7 پہاڑوں کی ایک طویل قطار واقع ہے، جس کی ظاہری صورت کچھ عجیب سی ہے۔  کہا جاتا ہے کہ اس پہاڑ کی صُورت انسانی پاؤں کے پنجے جیسی ہے اور چونکہ پاؤں کے پَنجے  (اگلے حصّے )  کو سندھی میں ’پَب‘ کہا جاتا ہے، اسی لئے اس پہاڑ کا نام بھی ’پَب پہاڑ‘ ہی پڑ گیا۔

اس پہاڑ کی چوٹیاں 4 سے 5 ہزار فٹ کے درمیان تک اُونچی ہیں، البتہ اس کی بناوت، اس میں سے نکلنے والے راستے اور مخروطی پہلو دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔  پَب پہاڑ کے کچھ حصّے آباد اور سرسبز ہیں، جہاں جنگلی جڑی بوُٹیوں کے علاوہ مختلف میواجات، مثلاً: انجیر، فالسے، انار وغیرہ کثرت سے پائے جاتے ہیں۔  یہ پہاڑ چھوٹے بڑے سات درّوں پر مُشتمل ہے، جن میں ’درّہء پبُونی‘ ،  ’درّہء آمری‘ ،  ’درّہء راہِیگ‘ ،  ’درّہء شاہ بلاول‘ ،  ’درّہء گَند بُو‘ ،  ’درّہء ویرا حب‘ اور ’درّہء لُونڈنکی‘ شامل ہیں، مگر ان میں سے صرف تین درّے اہم ترین اور بڑے ہیں، جو درّہء پبُونی، درّہء شاہ بلاول اور درّہء گَند بُو ہیں۔

 ”درّہء شاہ بلاول“، یہاں موجود نامور بزرگ، حضرت شاہ بلاول نورانیؒ کی درگاہ کی وجہ سے اس نام سے منسُوب ہے، جبکہ ”درّہء پَبُونی“ بلندی کے لحاظ سے سب سے پست ہے، مگر تاریخی اعتبار سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ کسی زمانے میں بلوچستان سے سندھ پر ہونے والے حملے اسی درّے کے راستے ہوا کرتے تھے اور دیبل سے تجارت کے لئے بھی یہی راستہ استعمال ہُوا کرتا تھا۔ نیم تاریخی حوالوں کے مُطابق بھی پنہوں کو سسی سے چھین کر اُس کے بھائی اِسی درّے سے گزرتے ہوئے کیچ مکران لے گئے تھے اور اُس کے بعد پنہُوں کی تلاش میں سسی بھی اُسے ڈُھونڈھتی ہوئی اسی راستے سے گُذری تھی۔

سکندر یُونانی بھی 356 ق۔ م۔ تا 323 ق۔ م۔ ہندوستان پر حملہ کرنے کے بعد اسی کوہِ پب سے گزر کر واپس ہُوا تھا اور روایت ہے کہ راستے میں اُس کے جو سپاہی مَرے تھے، اُنہیں بھی اسی پہاڑ میں دفن کر کے اُن کی قبروں کے اوپر نشانی کے طور پر گول پتھروں کے منارے بنائے گئے تھے۔  عربوں کے سندھ پر قبضے کے وقت بھی دیبل پر حملے  ( 1689 ء تا 1752 ء)  کے بعد ان کی پیدل حملہ کرنے والی فوج کا راستہ یہی پہاڑ رہا۔ بذاتِ خود، حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ، جب ہنگلاج جاتے ہوئے پَب پہاڑ سے گُذرے، تو کہا جاتا ہے کہ اُسے عبُور کرتے ہوئے، اُن کے پاؤں بھی زخمی ہوئے تھے، جس سے اُنہیں سسی کی اذیّت کا صحیح معنوں میں اندازھ ہُوا، جس کا ذکر پھر انہوں نے اپنے کلام میں کیا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے علمی و ادبی ادارے، اس اور اس جیسے پہاڑوں اور کوہساروں کی تاریخی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے اس سے متعلق تاریخی معلومات کے سب تک پہنچانے کا اہتمام کریں اورسیّاحتی ادارے ایسے تاریخی نشانات کو سیّاحت کا مرکز بناکر نئی نسلوں کو اُن کی اہمیت سے رُوشناس کرائیں، تاکہ ہمارا ماضی ہر دور میں زندہ رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).