بلوچستان کا مخصوص و انوکھا کھیل: ٹوک بازی


ہر ملک کا کوئی نہ کوئی مخصوص کھیلا ہوتا ہے سوائے چند استثنائی ممالک کے۔ اسی طرح ہر قوم و قبیلہ اور علاقے کا مخصوص قومی کھیل ہوتا ہے۔ جیسے پنجاب میں کبڈی پنجابی کھیل ہے۔ اسی طرح کہیں پہ گلی ڈنڈا وغیرہ مخصوص علاقی کھیل ہوا کرتے ہیں۔ بلوچستان میں تقریبا سب کھیل کھیلے جاتے ہیں اس کے باوجود ہمیشہ ایک کمی محسوس ہوتی تھی کہ بلوچستان کا ایک ایسا مخصوص کھیل ہو جسے صرف قومی سطح پر ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر متعارف کرایا جائے۔

کچھ عرصہ پہلے بلوچستان کے مختلف اضلاع مکران، کچھی وغیرہ میں ایک کھیل کا حکومتی سطح پر انعقاد کیا گیا۔ وہ غلیل بازی تھا جس کے لئے باقاعدہ اشتہارات چھپائے گئے۔ ضلع کے کمشنر و ڈپٹی کمنشر کی سرپرستی میں غلیل بازی کے ٹورنامنٹ کرائے گئے۔ جسے مختلف حلقوں میں بہت سراہا گیا اور کچھ حلقوں نے تنقید بھی کی۔ جن حلقوں نے سراہا ان کا مؤقف تھا لوگوں میں کھیلوں کا رجحان بڑھایا جائے تاکہ جرائم اور منشیات سے نوجوانوں کو دور کیا جائے۔

دیگر کھیلوں کے ٹورنامنٹ کا انعقاد بھی تو ہوتا رہتا ہے مگر غلیل بازی ایک ایسا کھیل ہے جس پر اخراجات بہت کم آتے ہیں۔ جس میں ہر امیر و غریب شخص آسانی سے حصہ لے سکتا ہے۔ دوسری جانب غلیل بازی سے نشانہ بھی سیدھا ہوتا ہے۔ جبکہ تنقیدی حلقوں کا مؤقف تھا کہ بلوچستان میں دیگر مسائل بہت ہیں پینے کے لئے صاف پانی تو درکنار بہت سے دیہاتوں میں پانی ہی میسر نہیں۔ جس کی واضح مثال بھاگ ناڑی ہے۔ اس کے علاوہ بلوچستان میں بنیادی سہولیات جیسے تعلیم، صحت، غربت وغیرہ جیسے مسائل اتنے ہیں کہ انسان مایوس ہوجائے۔

ایسی صورتحال میں غلیل بازی جیسے کھیلوں کا انعقاد اپنے کمزوری اور نا اہلی پر پردہ ڈالنا ہے۔ اس تمام تر صورتحال کے باوجود میرا دل مطمئن نہ تھا کیونکہ غلیل بازی کو قومی سطح تو کیا بلوچستان میں بھی وہ مقام نہیں ملنا تھا اور یہی ہوا۔ کچھ اضلاع میں اس غلیل بازی کے ٹورنامنٹ کرائے مگر اس کو پزیرائی نہ مل سکی جو ملنا چاہیے تھی۔

مگر آج سحری کے وقت جو کھیل کھیلا گیا وہ قابلِ حیرت تو ضرور تھا مگر انتہائی دلچسپ بھی تھا۔ اس کھیل کو بلوچی میں ٹوک بازی کہتے ہیں۔ اس کھیل کو کافی حد تک پزیرائی بھی حاصل ہے اور بلوچستان کے لوگ بہت شوق سے حصہ لیتے ہیں۔ بلوچ نوجوانوں میں یہ کھیل بہت عام ہے۔ کہیں بھی چند بلوچ دوست اکٹھے ہوتے ہیں تو ٹوک بازی کا سلسلہ چل پڑتا ہے۔ اس کھیل پر باقاعدہ ویڈیو بھی موجود ہیں آپ یوٹیوب ٹوک بازی لکھ کر سرچ کریں گے تو بہت سی ویڈیو دستیاب ہیں۔

اس کھیل میں مستونگ اور قلات کے لوگ اپنی مثال آپ ہیں۔ مستونگ کے لوگ ٹوک بازی میں سب سے آگے ہیں۔ چارلی کی فلموں پر ڈبنگ کرکے وہ ٹوک بازی کی ہے اگر جس کو براہوئی سمجھ آتی ہے تو وہ بہت لطف اندوز ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ٹوک بازی میں مستونگ کا کوئی ثانی نہیں۔ مستونگ کے لوگ ٹوک بازی میں پہلے نمبر پر ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے کوئٹہ کینٹ میں مستونگ اور قلات کے لوگوں کے مابین ٹوک بازی کا باقاعدہ میچ کرایا گیا جس میں انعامات بھی تقسیم کیے گئے۔ اگر یہ براہوئی و بلوچی زبان میں ہو تو اس کھیل کی اپنی ہی تاثیر ہے مگر اردو میں بھی اس کا لطف کم نہیں ہوتا۔

آج جب سحری کا وقت تھا ٹوئٹر پر کچھ پر نظر دوڑائی تو حیرت میں پڑگیا کہ یہ کھیل ٹوئٹر پر بھی شروع ہوچکا ہے۔ اب کی بار یہ کھیل سردار اختر مینگل اور سرفزار بگٹی کے مابین وہ بھی ٹوئٹر پر کھیلا جارہا تھا۔ ایک ٹویٹ سرفراز بگٹی صاحب کرتے تو اس کے جواب میں دوسری ٹویٹ سردار مینگل کی آجاتی۔ کوئی تقریبا ایک گھنٹے سے بھی زیادہ ٹوئٹر پر ٹوک بازی کا کھیل جاری رہا۔ تماشائی بھی بہت تھے جو بیچ میں مدد فراہم کر رہے تھے۔

کچھ سرفراز بگٹی صاحب کو نئے نئے جملے بتا رہے تھے اور اس کی حمایت میں کھڑے تھے تو کچھ لوگ سردار مینگل کو نئے نئے جملے بتا رہے تھے۔ جب سرفراز بگٹی صاحب کی طرف سے ٹویٹ آتی تو اس کے تماشائی وا ا اہ وا ا اہ کرتے تھے اور سردار مینگل کے تماشائی خاموش ہوجاتے اور جب سردار مینگل کی طرف ٹویٹ آتی تو اس کے تماشائی وا ا اہ وا ا ا اہ کرتے اور سرفراز بگٹی کے تماشائی خاموش ہوجاتے۔ ٹوک بازی کا کھیل سحری سے ایک گھنٹہ پہلے شروع ہوا اور صبح تک جاری رہا۔

آخر میں وزیراعلی بلوچستان جام کمال سے میں نے ٹوئٹر پر بھی درخواست کی تھی کہ ٹوک بازی کے ٹورنامنٹ کرائے جائیں۔ ایک ٹورنامنٹ سیاستدانوں کے مابین ہونا چاہیے دوسرا بیوروکریٹس اور تیسرا عوام کے مابین ہونا چاہیے۔ کیونکہ ٹوک بازی کو علاقائی سطح کے ساتھ ساتھ قومی و بین الاقوامی سطح پر بھی بہت پزیرائی مل سکتی ہے۔ نوجوانوں کو بھی تھوڑا بہت لطف اندوز ہونے کا موقع ملے گا۔ اگر میری یہ تحریر وزیراعلی جام کمال صاحب تک پہنچ جائے تو امید ہے وہ ٹوک بازی کے کھیل پر سنجیدگی سے سوچیں گے اور عید کے بعد ٹوک بازی کے ضلعی و صوبائی سطح پر ٹورنامنٹ کا انعقاد ضرور کرائینگے۔ یہ بہت ہی دلچسپ کھیل ہے اور اس پر اتنے اخراجات بھی نہیں لگتے۔ سب سے بڑی وجہ بلوچستان کی رونقیں بحال ہوں گی وہی چرچے ہوں گے وہی بیٹھک ماحول پروان چڑھے گا لوگ ٹیکنالوجی کے دور سے نکل کر تھوڑا لطف اندوز ہوا کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).