ریپ کی نفسیات اور ذہنی غلام


جب بھی ہم جیسے لوگ معاشرے میں رائج پسماندہ رویوں اور روایات کی نشاندہی کرتے ہیں تو ہمیں ہمیشہ رجعت پسند عناصر کی جانب سے ایک مخصوص نفرت انگیز ردعمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر اختلافات کی بنیاد عقل، دلیل اور سماج کی بہتری کے لئے ہوں تو یہ اختلافات سر آنکھوں پر۔ لیکن رونا اسی بات کا تو ہے کہ قوم کا یہ حصہ عقل و دلیل کی انسانی خصوصیت سے محروم ہے۔ قوم کے اس مخصوص حصے کو کسی بھی سنجیدہ بات سے جنم جنم کی عداوت ہے۔

بس ان لوگوں میں ایک سے ایک مسخرہ اور اداکار (جو نعرے بازی میں پی ایچ ڈی ہو) پیدا ہوتا ہے۔ یوں تو ہر تحریر کے بعد اس مخصوص گروہ کی طرف سے وہی پرانے گھسے پٹے عقل و دلیل سے عاری اعتراضات کیے جاتے ہیں مگر میں کم ازکم میری تحریر ”ریپ کی نفسیات“ پر ان لوگوں کے بے سروپا، افسوس ناک اور بد نیتی پر مبنی الزامات کا جواب دینا اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ میرے آرٹیکل پر اعتراض کرتے ہوئے ( حالانکہ لفظ اعتراض کافی مہذب ہے ) کچھ اصحاب نے یہ ماننے سے انکار کردیا کہ معاشرے میں جنسی جرائم کی یہ شرح نہیں ہے بلکہ یہ ملک کے خلاف ایک پروپیگنڈا ہے۔

میں نہیں جانتا کہ یہ حضرات پیراشوٹ کے ذریعے ہماری پاک سرزمین پر اتارے جاتے ہیں یا انہیں اس ملک میں پلانٹ کرنے کا کوئی اور عقل سے ماوراء طریقہ کار ہے۔ ورنہ فطری طریقے سے اس معاشرے میں پیدا ہونے اور پرورش پانے والے حضرات کی اس قدر لاعلمی حیرت انگیز ہے۔ صاحب اگر آپ یا آپ کے پڑوسی مست و خرام ہیں تو خدا آپ کو خوش رکھے مگر یہاں بات ہورہی ہے پوری قوم کی اور اس قوم کے ملک میں ایک صوبہ ہے پنجاب اور اس صوبے کے ایک اہم ترین سرکاری افسر جنہیں آئی جی پنجاب کہا جاتا تھا انہوں نے 2017 میں میڈیا پرجرائم کے حوالے سے بریفنگ دی جو دی نیوز نامی ایک معتبر اخبار میں شائع ہوئی اوراس رپورٹ کے مطابق تین سال کے عرصے میں صوبہ پنجاب میں عورتوں کے حوالے سے ریپ اور گینگ ریپ کے دس ہزار سے زائد کیسز درج کیے گئے۔

یہ بات تھی خواتین کی اور وہ بھی صرف پنجاب کی خواتین کی۔ یعنی سوا تین ہزار سالانہ ریپ کیسز رجسٹرڈ ہوئے۔ اگر اب بھی کوئی غلط فہمی ہے تو آپ حضرات سے پوری رپورٹ شئیرکرلیتا ہوں۔ جس میں آئی جی صاحب نے ضلع وار اعداد و شمار دیے ہیں۔ اب آتے ہیں ساحل جیسے معتبر ادارے کی میڈیا سے شیئر کی گئی رپورٹ 2017 کی طرف جو بچوں سے متعلق ہے اور اس رپورٹ کے مطابق 2017 میں تین ہزار بچوں پر جنسی حملے کیے گئے۔ وکی پیڈیا کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں جنسی تشدد کے 100 میں سے 92 کیسز رپورٹ ہی نہیں کیے جاتے۔ اور کن سماجی و معاشی اور ریاستی اداروں کی کمزوری کے باعث نہیں کیے جاتے یہ بھی واضح ہے۔

فرشتہ صفت لوگوں کی تو 40 منٹ کے ذکر پر ہی چیخ نکل گئی۔ اب ان مستند رپورٹس کے لحاظ سے تو ہر چھ منٹ بعد۔ خیر چھوڑیں جانے دیں۔ آپ چین کی بنسی بجائیں اور ہاں انسانی حقوق کے کچھ بے چین کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس سال بچوں کے خلاف جنسی حملوں میں گیارہ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ ہبیومن راٹٹس کمیشن والے بھی ناں۔ مگر آپ پریشان نہ ہوں۔ اب تم کو ہے قرار تو سب کو قرار ہے۔۔۔

قوم سے چندے بٹور کر مذہب کو کاروبار بنانے والے مذہب فروش اور ان کے پیروکار معاشرتی بہتری کے لئے کام کرنے والی این جی اوز کے خلاف بلاتکان واویلا کرتے ہیں اور انہیں غیر ملکی فنڈڈ اور ایجنٹ ہونے کے طعنے دیتے ہیں۔ ”دامن کو ذرا دیکھ ذرا بندِ قبا دیکھ“ بات زیادہ پرانی بھی نہیں لیذاٰ تاریخ کے چند اوراق پلٹنے سے ہی مولوی، مدرسہ اور غیر ملکی ڈالر کا بدنامِ زمانہ رومانس سامنے آجائے گا۔ اس بات میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ دو نمبر این جی اوز کی ایک بڑی تعداد ہمارے معاشرے میں موجود ہے۔ لیکن اس ملک میں اب بھی سماج کی بہتری کے لئے کام کرنے والی این جی اوز اپنا کام پوری ایمانداری سے کررہی ہیں۔

میں نے ایسے ہی معتبر اداروں کا حوالہ دیا۔ جن اصحاب کو شک ہے کچھ عرصہ اِن این جی اوز میں رضاکارانہ وقت دیں، دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے گا۔ ذہنی غلامی کے سائے میں تیار کردہ کچھ آٹو میٹک رٹو طوطے ایسے ہیں کہ جن کے سامنے جب بھی بات کرو جمہوریت کی تو نعرے لگاتے ہیں غدار، غدار۔ جب بھی بچوں کے استحصال کا ذکر کرو تو نعرہ لگاتے ہیں غیر ملکی ایجنٹ۔ عورتوں کے حقوق کی بات کرو تو آواز آتی ہے۔ کافر بے راہ روی پھیلانے والے۔ طبقاتی معاشرے کی ذلالتوں کا ذکر کرو تو گویا دم ہر پیر ہی پڑ جاتا ہے اور چیخیں بلند کرتے ہیں۔ دہریے، کمیونسٹ۔ وہ لوگ جن کے ضمیر پاکستان میں بیس لاکھ غلام افراد کی موجودگی کی خبر سن کر بھی سوئے رہتے ہیں۔ مساجد اور مدارس جیسے محترم مقامات میں سب سے زیادہ بچوں سے جنسی ہراسمنٹ کے واقعات سامنے آنے کے بعد بھی جن کے لبوں پر خاموشی چھائی رہتی ہے۔

یہ داعش کے جہادی دلہنوں کے فلسفے کو  سینے سے لگانے والے لوگ ہیں۔ داعش کی طرف سے عورتوں کو غلام اور لونڈیاں بنا کر ان کے جسم ٹٹول ٹٹول کر خریدنے، بیچنے اور جنسی استعمال و استحصال کو جائز سمجھتے ہیں۔ بوکوحرام کے ہزاروں عورتوں کے اغوا اور کنیزیں بنانے کو برحق سمجھتے ہیں۔ یہ ذہنی بونے جنت کا رال ٹپکا دینے والا تصور اچھل اچھل کر پیش کرتے ہیں۔ مذہب کے انسان دوست رویے کے منکر یہ لوگ جنسی زبردستی، جبر، بچوں اور عورتوں کے ریپ، اغوا، ہراسمنٹ کے خلاف آواز اٹھانے والے انسانی حقوق کے کارکنوں پر بے راہ روی پھیلانے کی تہمت لگاتے ہیں۔

میں نے لکھا تھا کہ ”بے حسی و بے ضمیری، جھوٹی و جعلی حب الوطنی اور سب سے بڑھ کر موقع پرستی اور منافقت ہماری قوم کی رگوں میں خون کی طرح دوڑ رہی ہے“ اگر آپ جناب بھی قوم کے اِسی ذہنی بیمار حصے سے تعلق رکھتے ہیں تو سچ سے منہ موڑنے کی فحاشی کرتے رہیے، کرتے رہیں مسخرے پن کا مظاہرہ، گزاریں منافقت اور دوغلے پن کی زندگی، کھڑی کرتے رہیں جھوٹ اور ڈھٹائی کی دیواریں سچ اور علم کے سامنے۔

مگر افسوس کہ میں تو آپ کی کسی کاوش کے جواب میں آپ کی تذلیل نہیں کرسکتا۔ انسانیت تو وقار، عزت اور احترام سے تعلق رکھتی ہے۔ کولہو کے بیل اور  بھیڑوں کے ریوڑ سے شرف انسانی کی توقع محال ہے، تمہاری ہار بھی غلام اور تمہاری جیت بھی غلام، کیونکہ تم ذہنی غلام ہو۔

”ریپ کی نفسیات“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).