کوئی ہے جو کوئٹہ کے اس اچھے ادارے کو تباہی سے بچا لے؟


بلوچستان انسٹیٹیوٹ آف نیفرو یورالوجی کوئٹہ، گردوں کے امراض کے لیے کوئٹہ میں فاطمید فاؤنڈیشن کا قائم کر دہ ایک بہت اچھا ادارہ ہے۔ فاطمید اپنے مالک کی وفات کے بعد اس ادارے کو چلانے اور سنبھالنے میں مشکلات کا شکار تھی۔ دو ہزار پندرہ میں اس ادارے کا چارج بلوچستان ہائی کورٹ نے ایک حکم کے ذریعے ہیلتھ ڈپارٹمنٹ کو دے دیا۔ اس سے پہلے فاطمید فاؤنڈیشن اس ادارے کا انتظام چلاتی تھی۔ ہیلتھ ڈپارٹمنٹ کے پاس اس کا چارج آیا تو اس ادارے کو خودمختار حیثیت دینے کے لیے صوبائی اسمبلی نے ایک ایکٹ منظور کیا۔

ڈاکٹر کریم زرکون اس کے پہلے سی ای او مقرر کیے گئے۔ ان کی نگرانی میں اس ہسپتال نے مثالی ترقی کی۔ ڈاکٹر کریم اور ان کی ٹیم نے اس کو دن رات محنت سے ایک مثالی ادارے میں تبدیل کر دیا۔ یہاں او پی ڈی شروع کی گئی۔ اس کے بعد ڈائلاسز کی سہولت بھی فراہم کر دی گئی۔ اس دوران مریضوں کو داخلے کی سہولت بھی فراہم کر دی گئی۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ یہاں گردوں کی پیوند کاری کے آپریشن بھی شروع ہو گئے۔

مریضوں کو ہسپتال کی جانب سے مفت ادویات کے ساتھ تین وقت کا کھانا بھی فراہم کیا جانے لگا۔ ہسپتال میں درجہ حرارت کو کنٹرول کرنے کا ضروری انتظام بھی قائم کیا گیا۔ چوبیس گھنٹے بیمار مریضوں کے لیے ماہر ڈاکٹر کی دستیابی یقینی بنائی گئی۔ اک جدید مینیجمنٹ سسٹم اختیار کیا گیا۔ ہسپتال میں مانیٹرنگ کے لیے کیمرے نصب کیے گئے۔

سٹاف کی حاضری کے لیے بائیو میٹرک سسٹم نافذ کیا گیا۔ حاضری کو جب تنخواہ کے ساتھ جوڑا گیا تو مسائل پیدا ہونا شروع ہوئے۔ وہ سٹاف جو گھر بیٹھے تنخواہ لینا چاہتا تھا۔ ان کی جب تنخواہیں کاٹی گئیں۔ تو سٹاف نے آپریشن تھیٹر بند کرا کے ہڑتال کر دی۔ اس ہڑتال کو اعلی افسران کی تائید بھی حاصل بتائی جاتی ہے۔ ایک کامیاب ادارے اور اس کو حاصل نیک نامی اور دستیاب فنڈ پر صحت کے شعبے میں موجود کالی بھیڑوں کی مستقل نظر تھی۔

تین مہینے تک آپریشن تھیٹر بند رکھا گیا۔ پھر یہ بہانے بنائے گئے کہ مشینیں نہیں۔ آپریشن نہیں ہو سکتے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس بہانے مریضوں کو بے شرمی کے ساتھ پرائیویٹ ہسپتالوں میں سرجری کرا کے وہیں انہیں اس ادارے کی مفت ادویات بھی فراہم کی جاتی رہیں۔ ڈاکٹر کریم کے جانے کے بعد پروفیسر ڈاکٹر حق نواز کو نیا سی ای او تعینات کیا گیا۔ یہ یورالوجسٹ ہیں۔

نئے سی ای او کے آنے کے بعد ہسپتال میں بہت کچھ تبدیل ہوا۔ جہاں پہلے سب کچھ مفت فراہم کیا جاتا تھا۔ ان تمام سروسز پر اب فیس رکھ دی گئی۔ مریضوں کو مفت کھانا دینا بند کر دیا گیا۔ ٹرانسپلانٹ ہونے بند ہو گئے۔ ہسپتال کے لیے کافی قیمتی مشینری منگوائی گئی۔ جو آ تو گئی ہے لیکن ڈبوں میں کئی مہینوں سے بند پڑی ہے۔ اسے انسٹال نہیں کیا جا رہا۔ سٹاف میں افواہیں پھیل رہی ہیں کہ انسٹالیشن سے پہلے کنٹریکٹر سے ہسپتال کے کچھ لوگ کمیشن کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

صوبائی اسمبلی نے جو ایکٹ پاس کیا تھا۔ ہسپتال کو خودمختاری دی گئی تھی۔ اس میں بھی کئی تبدیلیاں کر دی گئی ہیں۔ اب کسی کو بھی ہسپتال کا سی ای او بنایا جا سکتا ہے۔ حالات سے لگ رہا ہے کہ بلوچستان کا یہ اہم ادارہ، جو معیاری سہولیات مفت فراہم کرتا تھا۔ اپنی کارکردگی برقرار نہیں رکھ پائے گا۔ جلد ہی اس کا حال بھی سول ہسپتال کوئٹہ سا ہی ہو جائے گا۔ سٹاف کی تنخواہیں بھی اب تسلس سے ادا نہیں کی جا رہی ہیں۔ نرسنگ سٹاف رل رہا ہے تنخواہوں کے لیے۔

ہم سب کے نمائندے نے صورتحال جاننے کے لیے ہسپتال کا دورہ کیا۔ وہاں انتظامیہ سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اسے بتایا گیا کہ آپریشن تھیٹر آلات کی کمی کی وجہ سے کچھ عرصہ بند رہنے کے بعد مکمل بحال کر دیا گیا ہے۔ آپریشن تھیٹر بحالی کا جائزہ لینے کے لیے ایس یو آئی ٹی سندھ کے وفد نے ہسپتال کا دورہ کیا تھا۔ ان کی مشاورت سے آپریشن تھیٹر بحال کر کے فعال کر دیا گیا ہے۔

مشینری کے بارے میں انتظامیہ کے اہلکاروں کا موقف تھا کہ جاپان سے منگوائی گئی مشینری کی کھلے آسمان تلے رکھنے کی باتیں ٹھیک نہیں ہیں۔ مشینری صحیح سلامت پڑی ہے، مشینری کوایڈجسٹ کیا جارہا ہے، ایڈجسٹ ہوتے ہی مشینری کوفعال کردیں گے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ ہسپتال میں فاطمید والوں کے فراہم کردہ پرانے آلات کو تبدیل کیا جا رہا ہے۔ جو قابل استعمال حالت میں ہیں انہیں استعمال کیا جا رہا ہے۔

انتظامیہ کا بتانا تھا کہ سٹاف کو نہیں نکالا جائے گا۔ ان کے مسائل پر بات کرنے کے لیے بورڈ آف گورنر کے اجلاس کا انتظار کیا جا رہا تھا۔ اجلاس طلب کیا گیا تو کورم کی نشاندہی ہونے پر ملتوی کر دیا گیا۔ اب ہم نے سیکرٹری ہیلتھ کو خط لکھا ہے کہ انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر مسئلہ حل کیا جائے۔ ہسپتال کا فنکشنل رہنا بہت ضروری ہے کہ یہاں بلوچستان، سندھ اور افغانستان تک سے مریض آتے ہیں۔

انتظامیہ کے موقف کے برعکس تازہ بھرتی کیے گئے نرسنگ سٹاف کی بتائی کہانی حالات کی سنگینی ظاہر کرتی ہے۔ نرسنگ سٹاف کو چار ماہ پہلے این ٹی ایس کے امتحانی سسٹم سے گزار کر چالیس افراد کو بھرتی کیا گیا تھا۔ ان چالیس میں سے چھبیس افراد نے ہسپتال میں رپورٹ کر کے جائیننگ دے دی تھی۔ انہیں بھرتی ہونے کے بعد اب تک ایک بھی تنخواہ نہیں دی گئی۔ سابق سی ای او کے استعفے کے بعد ان سے کہا جا رہا ہے کہ آپ نہ آئیں۔ ہمیں آپ کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی لیے تنخواہ بھی نہیں دی جا رہی ہے۔ لگتا یہ ہے کہ پرانی بھرتیاں منسوخ کر کے من پسند افراد کی بھرتی کا پروگرام سوچا جا رہا ہے۔

ہسپتال میں جب مختلف مریضوں سے بات کی گئی تو ان کا ماننا تھا کہ اس ہسپتال میں سہولیات معیاری ہیں۔ البتہ سب کا کہنا تھا کہ پہلے سب سہولیات مفت دستیاب تھیں۔ اب پیسے چارج کیے جاتے ہیں۔ مفت کھانا دیا جاتا تھا جو اب بند کر دیا گیا ہے۔ یہ سب دیکھ کر لگتا ہے کہ ہسپتال خرابی کی طرف جا رہا ہے۔
کوئی ہے جو سنے اور اس اہم ادارے کو تباہی کی طرف جانے سے بچائے جو مریضوں کی خدمت کر کے نیک نامی کماتا رہا ہے۔

۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).