ایران میں حجاب کا انقلاب


آج سے تین ہفتے پہلے مہسا امینی نامی کرد لڑکی کو ایران کی پولیس نے گرفتار کیا، بائیس سال کی اس لڑکی پر الزام تھا کہ اس نے حجاب ’صحیح طریقے سے نہیں اوڑھا‘ ۔ پولیس حراست کے دوران تشدد سے اس لڑکی کی موت واقع ہو گئی جس کے بعد ایران میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے شروع گئے، ان مظاہروں میں ایرانی خواتین نے بعض مقامات پر اپنے حجاب بھی اتار کر پھینک دیے، یہ ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرس کی طرح پھیلیں اور پوری دنیا نے دیکھیں، ان مظاہروں کے نتیجے میں اب تک 185 افراد مارے جا چکے ہیں جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔

ایرانی حکومت کے ماڈل میں اس قسم کے احتجاج کی کوئی گنجایش نہیں، اس ماڈل کی بنیاد دو باتوں پر ہے۔ پہلی، ایران کی سخت گیر خارجہ پالیسی۔ ایرانی حکومت نے عوام کے سامنے ایک دلیرانہ تاثر قائم کر رکھا ہے کہ یہ دنیا کی واحد حکومت ہے جو امریکہ سے خوف نہیں کھاتی، اسرائیل کے خلاف ڈٹ کے کھڑی ہے اور مغربی یورپ کو جس نے تگنی کا ناچ نچا رکھا ہے۔ ایرانی عوام بڑی حد تک ان باتوں پر یقین رکھتے ہیں سو یہ حکمت عملی ایرانی حکومت کو قانونی جواز فراہم کرتی ہے۔ ایرانی ماڈل کی دوسری بنیاد اندرون ملک ایک جابرانہ نظام پر ہے جس نے جمہوریت کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے، جمہوریت چونکہ مغربی تصور ہے اس لیے ایران نے اسے مذہب کا چوغہ پہنا کر عوام کے لیے قابل قبول بنانے کی کوشش کی ہے اور جو شخص بھی اس چوغے پر لگے داغوں کی نشاندہی کرتا ہے، پاسداران انقلاب اسے انقلاب کا دشمن قرار دے کر نشان عبرت بنا دیتے ہیں۔ مہسا امینی نے دراصل یہی جرم کیا تھا۔

ویسے تو پاسداران انقلاب ایک اعلیٰ قسم کی پولیس یا خصوصی فورس ہے جس کا کام انقلاب دشمنوں کو بے نقاب کر کے سزا دینا ہے مگر اس کے علاوہ پاسداران انقلاب ’ملکی مفاد‘ میں بڑے بڑے ٹھیکے بھی حاصل کرتی ہے، اس کا ایک انجینئرنگ ونگ ہے جو ایران کے تمام میگا پراجیکٹس پر کام کرتا ہے، ایران کی ایک تہائی معیشت اس کے زیر اثر ہے، شعبہ تعمیرات سے لے کر ڈیم بنانے تک، معدنیات نکالنے سے لے کر مواصلات کا نظام بنانے تک، کوئی ایسا بڑا کاروبار نہیں جو پاسداران انقلاب نہ کرتے ہوں۔ یہی نہیں بلکہ میڈیا میں پروپیگنڈا کرنا ہویا تعلیمی اداروں میں ثقافتی سرگرمیاں، انقلاب کے تحفظ کے نام پر سب پاسداران کے زیر سایہ ہوتا ہے۔ یہاں سے فراغت پانے والے بھی گھر بیٹھ کر مکھیاں نہیں مارتے بلکہ فوراً انہیں حکومت میں اعلیٰ ذمہ داریاں سونپ دی جاتی ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ سب ملکی مفاد میں ہوتا ہے۔ (پاسداران انقلاب کے سرگرمیوں کے ساتھ کسی بھی دوسری تنظیم کی مماثلت محض اتفاقیہ ہے، لکھاری ہذا اس کا ذمہ دار نہیں ) ۔

اس ماڈل کا فائدہ اٹھانے والا ایک گروہ اور ہے، اور وہ ہے مذہبی طبقہ، ایران کی ایک تہائی زرعی زمین اس طبقے کے ہاتھ میں ہے۔ اوقاف کے زیر انتظام مختلف ٹرسٹ قائم ہیں جن پر اس طبقے کا مکمل اختیار ہے۔ ایرانی معیشت کا تیسرا بڑا ستون جدید ریاست کے معاشی ادارے اور کاروبار ہیں جیسے بینک، بیمہ کمپنیاں، جہاز رانی کی صنعت، وغیرہ۔ یہ تمام ادارے ایک فاؤنڈیشن کے تحت چلتے ہیں جس کے سربراہ آیت اللہ ہیں، عملاً تمام فیصلے انہی کی مرضی سے ہوتے ہیں، اس پر پارلیمان کا کوئی اختیار نہیں، عدلیہ کی اہم تقرریاں بھی آیت اللہ کی مرضی کے خلاف نہیں ہو سکتیں۔

اس کے بعد وہ لوگ آتے ہیں جو اہم سیاسی عہدوں پر فائز ہیں جیسے سپیکر، مئیر وغیرہ، ان کے لیے ایرانی ماڈل میں یہ سہولت دی گئی ہے کہ وہ کاروبار جو پاسداران انقلاب سے بچ جاتے ہیں، ان سے یہ لوگ فائدہ اٹھا لیں، مثلاً حکومت انہیں کوئی پرمٹ دے دیتی ہے جیسے کبھی ہمارے ہاں ہوتا تھا کہ اگر کوئی شوگر مل کا پرمٹ لے آتا تو اس کی لاٹری نکل آتی تھی، سو ایران میں یہ پرمٹ سسٹم کام کرتا ہے جس کا مقصد اہم لوگوں کو نوازنا ہے۔

یہ ایک ایسا نظام ہے جس میں پوری معیشت چند طاقتور گروہوں کے ہاتھ میں ہے، دولت کا ارتکاز مخصوص بالائی طبقے میں ہے اور پارلیمان کے امیدواروں کی تطہیر، ان کی ’شق 62 / 63‘ کے تحت، علما اور فقہا پر مشتمل ایک کونسل آف گارڈین کرتی ہے، یہ کونسل پارلیمان کے فیصلوں کو رد کرنے کا اختیار بھی رکھتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کا نظام اس وقت تک نہیں چل سکتا جب تک اندرون ملک عوام کی مکمل زبان بندی نہ کردی جائے لہذا جو شخص اس نظام پر تنقید کرتا ہے اسے انقلاب کا دشمن بنا دیا جاتا ہے، اس کے بعد کسی مقدمے وغیرہ کی عیاشی کی ضرورت نہیں رہتی اور قانون ’انصاف‘ کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتا، اس ضمن میں مختلف قسم کے فتوے بھی مدد کرتے ہیں اور عدلیہ بھی انقلاب دشمنوں سے ہمدردی نہیں رکھتی اور یوں سب ہنسی خوشی رہتے ہیں۔

اشرافیہ کے ہنسی خوشی رہنے کے لیے ضروری ہے کہ اس ایرانی ماڈل کو ہر صورت میں تحفظ فراہم کیا جائے، مہسا امینی کا حجاب اوڑھنے کے قانون کی خلاف ورزی کرنا بظاہر ایک معمولی جرم تھا مگر ایران کی ’رہنما پولیس‘ کی نظروں میں وہ ایک باغی تھی اور بغاوت کی اس ماڈل میں کوئی گنجایش نہیں۔ لیکن پولیس حراست میں ماشا امینی کی ہلاکت نے ایرانی ماڈل کو ہلا کر رکھ دیا ہے، ایرانی خواتین جس دلیری کے ساتھ احتجاجی مظاہرے کر رہی ہیں، اسے پوری دنیا میں دیکھا جا رہا ہے، اور تو اور بھارت اور اسرائیل کے لوگ بھی ایرانی خواتین کی حمایت میں سامنے آ گئے ہیں۔

ویسے یہ ایک علیحدہ لطیفہ ہے۔ ان دونوں ممالک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں عروج پر ہیں، اسرائیل تو فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کر کے وہاں اپنی بستیاں قائم کر رہا ہے اور بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ویسا ہی سلوک شروع ہو چکا ہے جیسا ہٹلر کے دور میں یہودیوں کے ساتھ ہوا تھا، بھارت میں مسلمان اب ’ghettos‘ میں رہتے ہیں۔ زیادہ بہتر یہ تھا کہ ان دونوں ممالک کے لوگ ایرانی خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے کی بجائے اپنے ملکوں میں ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھاتے اور فرشتہ بننے کی بجائے انسان ہی بن جاتے ’مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ!‘

(یہ کالم 13 اکتوبر 2022 کو انڈیپینڈنٹ اردو میں شائع ہوا)

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 496 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments