قاضی فائز عیسی اور عوامی ہیجان


جسٹس قاضی فائز عیسی کے ایشو پر کچھ ایسی دلیلیں سامنے آرہی ہیں جنہیں عقل سے عاری لوگ پیش کرسکتے ہیں جس کا ذکر اس کالم کے آخر میں ہوگا۔ مجھے ان لوگوں پر حیرت نہیں ہوتی جو پہلے کچھ پڑھتے ہیں پھر سوچتے ہیں اس کے بعد اپنی رائے قائم کرتے ہیں اگرچہ ان کی رائے غلط بھی ہو۔ حیرت ان لوگوں پر ہوتی ہے جنہیں معاملہ کا فہم ہی نہیں ہوتا جنہیں چیزوں کا ادراک ہی نہیں ہوتا صرف دیکھا دیکھی میں حمایت یا مخالفت میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی ذہنیت کا خاکہ کچھ طرح پیش کیا جاسکتا ہے۔

پہلے نمبر پر تو وہ لوگ ہیں جو حمایت و مخالفت اپنی ذاتی حمایت و مخالفت پر کرتے ہیں۔ اسی قاضی فائز عیسی کے معاملے کو ہی لے لیجیے۔ جو لوگ اداروں سے نالاں ہیں ان کے لئے یہی بہت ہے کہ قاضی صاحب نے تو اداروں پر تنقید کی ہے اس لئے قاضی صاحب کے خلاف ریفرنس دائر کیے جارہے ہیں۔ دوسرا گروپ وہ ہے جو اداروں کے ساتھ کھڑا ہے وہ سمجھتا ہے کہ قاضی صاحب نے جان بوجھ کر اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے جس سے اداروں کی ساکھ کمزور ہوئی ہے۔ اس تنقید سے وہ اپنا راستہ صاف کرنا چاہتے تھے لہذا تنقید بیجا کا جواب تو دینا ہوگا۔

دوسرے نمبر پر وہ لوگ ہیں جو اسی پروفیشن کے ہوتے ہیں یعنی وکلاء و ججز برادری۔ جو صرف اس لئے قاضی کے حق میں احتجاج کر رہے ہیں کیونکہ وہ ان کی برادری کا ہے۔ اگرچہ کئی بار ججز اور وکلاء شہریوں کے ساتھ نا انصافی کر جاتے ہیں مگر پھر بھی یہی وکلاء اپنے وکلاء اور ججز کے خلاف بات تک نہیں کرتے انہیں سانپ سونگھ جاتا ہے۔ حالانکہ قانون کے ٹھیکہ دار صرف آئین و قانون کی بات کرتے۔ قانون کی بالادستی کو مقدم رکھتے، قانون کے خلاف ججز ہوں یا وکلاء ان کا احتساب ہوتا مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔

آج تک کسی جج کو سزا نہیں ہوئی حالانکہ ججز بھی قانون کے پابند ہیں۔ زیادہ سے زیادہ انہیں معطل کردیا جاتا ہے۔ شہری لاکھ بھی اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کا رونا روتے رہیں اگر بات جج یا وکیل کے خلاف ہوگی تو کوئی وکیل دوسرے وکیل کے خلاف بات نہیں کرے گا نہ ہی کوئی جج کے خلاف کیس اٹھائے گا۔ ہاں جب بار اور بیچ کا آپس میں ٹکراؤ ہو تو پھر سالوں ہڑتال چلتی رہتی ہے۔ احتجاج ہوتے رہتے ہیں عدالتیں بند پڑی رہتی ہیں کیونکہ وہاں ذاتی مفادات حائل ہوجاتا ہے مگر اس سب کے باوجود ججز اور وکلاء کی اکثریت دیگر شعبوں سے بہتر ہے۔

تیسرے نمبر پر بچارے سادہ لوح عوام ہیں جنہیں تین کا پتا ہوتا ہے نہ 13 کا۔ بس جو دیکھتے ہیں اچھا لگا وہی کرلیتے ہیں۔ ویسے تو ہماری سوسائٹی کے بہت سے درجات ہیں مگر یہ وہ درجات بیان کیے ہیں جو عوامی رائے پر مشتمل ہوتے ہیں۔

اب بات کرتے ہیں قاضی فائز عیسی کے ایشو پر کہ یہ ایشو ہے کیا؟ سب سے پہلی بات ریفرنس دائر کرنا کوئی بڑی بات نہیں سابق چیف جسٹس کے خلاف بھی بہت سے ریفرنسز دائر کیے گئے۔ جنہیں ابھی تک نہیں سنا گیا اور آج کل وہ ڈیم کے لئے چندہ اکٹھا کرنے میں مصروف ہیں۔ دوسری بات سوال یہ ہے ریفرنسز کیوں دائر نہ ہوں؟ کیا جج آسمانی مخلوق ہے جن سے غلطیاں نہیں ہوسکتی یا وہ کھاتے پیتے نہیں ہیں یا ان کے بیوی بچے نہیں ہیں یا ججز کی خواہشات نہیں ہوتیں یا ان کا دل نہیں کرتا کہ ہمارے پاس بھی بڑی کوٹھی ہو، بیرون ملک گھومنے پھرنے کے لئے بھاری بینک بیلنس ہو، ہمارے بچے بھی اپنی گاڑیوں میں سفر کریں۔ بالکل ان کا بھی دل کرتا ہے ججز سے بھی غلطیاں ہوجاتی ہیں کئی بار ججز بھی کرپشن میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ کئی مرتبہ اپنے ذاتی تعلقات کی بنیاد پر جانبدار فیصلے کر جاتے ہیں۔ ججز بھی انسان غلطیاں ان سے بھی ہوسکتی ہیں اور کئی بار غلطیاں کرجاتے ہیں لہذا انہیں فری چٹ نہیں ملنا چاہیے۔

جہاں تک بات ہے قاضی فائز عیسی کی تو ریفرنسز ہی تو دائر ہوئے ہیں سننے کے لئے تو عدلیہ کے اپنے ججز ہی تو ہوتے ہیں۔ پہلے تو یہ دیکھنا چاہیے کہ ریفرنسز سنتا کون ہے؟ ظاہر سی بات ہے سپریم جوڈیشل کونسل ہی سنے گی۔ اس کونسل کے ممبران کون ہوتے ہیں؟ وہی عدالتوں کے ججز صاحبان۔ جب کسی جج کے خلاف ججز ہی ریفرنسز سنتے ہیں تو کسی جج کے خلاف کیوں جائیں گے؟ اگر وہ جان بوجھ کر ایک ایماندار جج کے خلاف جارہے ہیں پھر تو پورے عدالتی نظام پر سوالیہ نشان ہے۔

پھر تو سارے ججز کے خلاف انکوائری ہونی چاہیے کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اور سوال کہ ریفرنسز ہوتے کیا ہیں؟ اکثر لوگوں نے تو یہ جاننے کی زحمت ہی نہیں کی کہ ریفرنسز کس بلا کا نام ہے۔ ریفرنسز کسی جج کے خلاف شکایت ہی ہوتی ہے جسے سپریم جوڈیشل کونسل میں سماعت و تحقیقات کے لئے دائر کیا جاتا ہے۔ اگر قاضی فائز عیسی کا قصور نہیں تو پھر اسے گھبرانے کی ضرورت ہی کیا ہے وہ ریفرنسز کا سامنا کرے خود کو سچا ثابت کرے بات ختم اور جس نے بلاوجہ ریفرنسز دائر کیے ہیں انہیں کھل کر عوام کے سامنے لانا چاہیے۔

آخر میں ایک دلیل کی بات کرتے ہیں ایک تصویر گردش کر رہی ہے جس پر قاضی فائز عیسی صاحب کے والد قاضی عیسی صاحب کی قائداعظم کے ساتھ تصویر ہے۔ جس پر لکھا ہے ”قاضی عیسی صاحب پاکستانی قوم آپ سے بہت شرمندہ ہے کہ آپ کے صاحبزادے کے ساتھ نا انصافی ہورہی ہے“ ایسے لوگوں کے لئے اتنا کہنا کافی ہے قاضی فائز عیسی صاحب واقعی ایماندار جج ہیں مگر نسبت اور تعلقات پر ہی پرکھنا ہے اور یہی اصول ہوتا تو حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا کیوں انکاری ہوجاتا۔

اور بھی ایسی بہت سی مثالیں ہیں بڑے بڑے بزدگانِ دین کی نسلیں بگڑ گئیں۔ بڑے بڑے آستانے آج دولت کمانے کے اڈے بن چکے ہیں۔ بڑے بڑے ایماندار لوگوں کی اولادیں کرپٹ نکلی ہیں۔ یہ کوئی دلیل نہیں کہ قاضی عیسی صاحب نے قائداعظم کے ساتھ ملکر جدوجہد کی تھی تو اس کی اولاد بھی ملک کے لئے اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کردے گی یہ ہرگز بھی ضروری نہیں۔ جہاں تک بات ہے قاضی فائز عیسی صاحب کی تو وہ ذاتی طور نہایت ہی قابل اور اچھے انسان ہیں مجھے امید ہے ریفرنسز سنے بھی جائیں تو وہ سرخرو ہوں گے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).