وزیرستان مسئلہ اور راہِ عمل


رنگ ونسل اور علاقوں کا مختلف ہونا انسانوں کے مزاجوں پر بھی اثرا نداز ہوتا ہے جیسا کہ مکہ مکرمہ کے لوگ اپنی سخت مزاجی اور سخت لہجے کی وجہ سے مشہور ہیں جب کہ مدینہ کے لوگ مہربان اور خوش مزاجی میں شہرت رکھتے ہیں۔ بہت سے لوگ اپنے لہجے کی تلخی کی وجہ سے جانے جاتے ہیں لیکن دل کے صاف ہوتے ہیں توان کی سخت مزاجی کو نظر انداز کر کے ان کے ساتھ معاملات کیے جاتے ہیں کیونکہ وہ دل کے صاف ہوتے ہیں۔ پاکستان سمیت پوری دنیا میں بسنے والے لوگ ایسی ہی خصلتوں کے حامل ہیں اگر ہم پاکستان کی پانچ بڑی اقوام کا ذکر کریں جس میں پنجابی، پختون، سندھی اور بلوچی شامل ہیں تویہ اقوام ایک ملک کے باسی کے ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ہی مذہب کے پیروکار بھی ہیں لیکن اس کے باوجود پنجابیوں کے مزاج سندھیوں سے مختلف ہیں اور پختونوں کے مزاج دیگر اقوام سے مختلف ہیں۔

بسا اوقات ایک بات ایک قوم کے باشندوں کے ہاں گراں تصور نہیں کی جاتی جب کہ دوسری قوم کے باشندے اسے انتہائی ناگوار سمجھتے ہیں۔ اس بات کو ایک واقعہ سے سمجھا جا سکتا ہے۔ چند سال پہلے بندہ ناچیزکو خیبر پختونخواکے ضلع ہنگو جانے کا اتفاق ہوا۔ ہنگو میں میراچند دن قیام رہا، یوں مجھے وہاں کے لوگوں کے ساتھ معاملات کرنے اور ان کے مزاجوں کو جاننے کا موقع ملا۔ ایک دفعہ اپنے ایک پختون دوست کے ساتھ کہیں جانے کے لیے نکلا تو پولیس چیک پوسٹ پر ہمیں روک لیا گیا، چیک پوسٹ پر مامورسکیورٹی اہلکاروں نے جونہی ہم سے استفسار کرنا شروع کیا ہمارا پختون دوست سیخ پا ہو گیا، گالم گلوچ سے بات ہاتھا پائی تک آگئی۔

ہمارا دوست اور پولیس اہلکار چونکہ پشتو میں بات کرتے کرتے جھگڑے تک جا پہنچے تھے اور پشتو ہماری سمجھ میں نہیں آ رہی تھی لیکن تلخ لہجہ اور ایک دوسرے کو دیے جانے والے دھمکی آمیز اشاروں کو ہم بخوبی سمجھ رہے تھے۔ اس لڑائی کے دوران ہم دو وجہ سے مداخلت نہیں کر سکتے تھے ایک تو ان کے درمیان وجہ نزع کو نہیں جانتے تھے دوسرے یہ کہ ہم مہمان تھے۔ لیکن جب معاملہ ہاتھا پائی تک آنے لگا تو ہم نے مداخلت کرنا ضروری سمجھا۔

پولیس اہلکار سے مخاطب ہوتے ہوئے پہلا جملہ جو ہماری زبان سے نکلا وہ یہ تھا کہ ”میں یہاں مہمان ہوں“ میں نے صرف اتنا ہی کہا تھا کہ پولیس اہلکار نے ہماری بات کاٹتے ہوئے کہا ہم مہمان کی بہت قدر کرتے ہیں، لہٰذا آپ لوگ جا سکتے ہیں۔ معاملہ رفع دفع ہو گیا میں اور میرا دوست گاڑی میں بیٹھ کراپنی منزل کی جانب روانہ ہوئے تو میں نے اپنے دوست سے پوچھا کہ آپ نے خواہ مخواہ پولیس اہلکار کے ساتھ جھگڑاکیوں کیا؟ میرادوست جس کا ابھی تک غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا تھا کہنے لگاکہ اسے جرات کیسے ہوئی کہ اس نے مجھے چیک پوسٹ پر روکا؟

میں نے سوالیہ نظروں سے اپنے دوست کی طرف دیکھا اور کہا کہ پولیس اہلکار کی یہ ڈیوٹی ہے۔ اگر ہم لوگ سیخ پاہونے کی بجائے جو وہ پوچھ رہا تھا تحمل کے ساتھ وہ بتا دیتے تو اس میں کیا حرج تھا؟ میرے دوست نے جو دلیل پیش کی وہ سن کرمیں ہکا بکا رہ گیا، کہنے لگا کہ پولیس اہلکار کے خاندان کو میں جانتا ہوں وہ نچلی ذات کا ہے اور یہ کہ میں یہاں کا مقامی ہوں وہ مجھے روکنے کی جرات نہیں کر سکتا ہے۔ اپنے دوست کی دلیل اور پیدا شدہ صورت حال کے بعد ہم ساری حقیقت جان چکے تھے کہ اصل مسئلہ یہ ہے ان علاقوں میں چیک پوسٹ پر روکنے کو اپنی توہین اور عزت کے خلاف تصور کیا جاتا ہے۔

میں نے اپنے دوست کو بتایا کہ میں سالہا سال سے اسلام آباد میں مقیم ہوں اور آئے روز مجھے پولیس چیک پوسٹ پر روک لیا جاتا ہے، نہ صرف یہ کہ ہم پولیس چیک پوسٹ پر رکتے ہیں بلکہ صبر و تحمل کے ساتھ پولیس اہلکاروں کے تمام سوالوں کے جواب بھی دیتے ہیں کیونکہ پولیس اہلکار ہماری حفاظت کے پیش نظر ہی تعینا ت ہیں۔ سمجھانے کے باوجود ہمارے دوست کی سوئی اپنی جگہ پر قائم تھی اور وہ یہ تسلیم کرنے کے لیے ہرگز تیار نہ تھا کہ نچلی ذات کا پولیس اہلکار اسے چیک پوسٹ پر روکنے کا قانونی حق رکھتا ہے۔

اس سارے پس منظر کے بعد اگر وزیر ستان میں پیش آنے والے واقعے کو دیکھا جائے تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ پختون باشندے سیکورٹی کے نام پر قائم کی گئی چیک پوسٹوں کو اپنے کلچرکے خلاف سمجھتے ہیں اور اگر ان چیک پوسٹوں پر انہیں بار بار روکا جاتا ہو تو یہ اپنے سخت لہجہ اور سخت مزاجی کی وجہ سے سیخ پا بھی ہوجاتے ہیں، معمولی تکرار جو بعد ازاں کسی بڑے جھگڑے کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ ایسے لوگوں کو ریاست اگر ڈنڈے کے زور پر سیدھا کرنے کی کوشش کرے گی تو کامیابی کے امکانات بہت کم ہیں لیکن اگر ریاست قبائلی علاقوں کے لوگوں کی سخت مزاج کو مد نظررکھ کر نہایت نرم دلی کے ساتھ انہیں بات سمجھانے کی کوشش کرے تو امید کی جا سکتی ہے کہ وہ ریاست کی بات کو نہ صرف یہ کہ سمجھ لیں گے بلکہ ریاست پر اپنی جان قربان کرنے کے لیے بھی تیار ہو جائیں گے۔ یہی مرض کی تشخیص ہے اور علاج کا مرحلہ درست تشخیص کے بعد شروع ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).