اقرار پسند معاشرے میں حرف انکار کا مرتکب جج اور تاریخ کا فیصلہ


پاکستان میں بائیں بازو کے معروف ترقی پسند ادیب، صحافی اور سیاسی کارکن سبط حسن کے ایک مضمون “انکار کی جرآت” کی ابتدائی چند سطروں سے حظ ااٹھاتے ہیں۔ وہ ایک “اقرار پسند ” معاشرے کی بابت رقم طراز ہیں، ” ایک اقرار پسند معاشرے کا اسم اعظم ایک چھوٹا سا سہ حرفی لفظ “ہاں” ہے۔ اس لفظ میں علی بابا کے کھل جا سم سم سے بھی کہیں زیادہ تاثیر پوشیدہ ہے۔ جن لوگوں کو ہاں کہنے کا ہنر آتا ہے ان پر دنیا و عاقبت کی نعمتوں کے تمام دروازے کھل جاتے ہیں۔ اقتدار ان کے قدم چومتا ہے۔ عمال و عمائدین ان کی دوستی پر فخر کرتے ہیں۔ علماء دین ان کے بازو پر امام ضامن باندھتے ہیں۔ ان کا سنگین سے سنگین جرم بھی قانون کی پرسش سے بری ہوتا ہے اور ان کی ہر بدی کو نیکی سے تعبیر کیا جاتا ہے”.

دنیا میں اقرار پسند معاشروں کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی اس دنیا کی۔ اقرار پسند معاشرے میں سہ حرفی لفظ”ہاں” کی فسوں کاریوں کے اسیر تو کروڑوں اربوں ملیں گے لیکن اس کے بالمقابل انکار کرنے والے ہمیشہ سے قلیل تعداد میں رہے ہیں، لیکن یہ بھی عجب ٹھہرا کہ ہر معاشرے میں “جرآت انکار” کے جذبے سے سر شار چند دیوانوں کو ہی تاریخ نے یاد رکھا اور ان کروڑوں افراد کو تاریخ نے اپنی لوح سے حرف غلط کی طرح مٹا ڈالا جو “ہاں” کے ہنڈولے پر سوار ہو کر حالات کے رخ پر چلتے رہے۔ اب سقراط کا نام سب کو یاد ہے لیکن اسے زہر کا پیالہ پینے پر مجبور کرنے والوں کے بارے میں کسی کو پتا ہی نہیں۔

حسین تاریخ میں عزیمت کی داستان بن کر زندہ جاوید ہو گئے لیکن یزید کے دربار کے اقرار پسند حواریوں کا آج کوئی نام لیوا نہیں۔ سرمد نے نفی کا اعلان کر کے اپنے آپ کو تاریخ میں امر کر لیا جب کہ اورنگزیب کے درباری گمنامی کی مٹی تلے دب ہو کر نامعلوم ہو چکے ہیں۔ برونو نے انکار کیا تو زندہ جلا دیا گیا لیکن آج برونو حریت فکر کی وجہ سے تاریخ میں قد آور شخصیت کے طور پر پہچان رکھتا ہے جب کہ اسے آگ میں دھکیلنے والے پادریوں کا نام تک معلوم نہیں۔ یہ تو دنیا کی تاریخ کے چند کردار ہیں جو اپنے “حر ف انکار” کی بناء پر تعزیر و تادیب کی سختیاں برداشت کر کے تا قیامت امر ہو گئے ، وگرنہ ایک یہ ایک لمبی داستان ہے کہ کیسے اقرار پسند معاشروں میں ہوا کے رخ کے مخالف چلنے والوں کو اپنی جرآت انکار کی بھاری قیمت چکانا پڑی اور یہی حق شناس ہیں کہ جن کے بارے میں شاید غالب نے کہا تھا کہ

لکھتے رہے جنوں کی حکایات خونچکاں

ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے

پاکستان کی تاریخ بھی ایسے افراد سے خالی نہیں جن کے حرف انکار نے انہیں تاریخ میں معتبر کر دیا۔ پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں اقرار پسند معاشرے کے خصوصیات بد درجہ اتم موجود رہی ہیں۔ سہ حرفی لفظ”ہاں” کے کھونٹے سے بندھے ہوئے افراد اور طبقات پر قوت و اختیار ٹوٹ کر برسا۔ ہر حکمران کے دربار میں اونچی مسندیں ان کا نصیب بنیں، اقتدار کی زرق برق خلعتوں سے انہوں نے اپنے جاہ و جلال کی دھاک بٹھائی، اونچے شملے اور دستاریں ان کے سروں پر سجائی گئیں اور انہیں ملک و ملت کے وفاداروں کے روپ میں پیش کر کے قوم سے کہا گیا کہ ان کی پیروی کی جائے۔ ان میں صاحبانِ جبہ و دستار، منصفین وقت اور پیران سیاست سب شامل رہے اور ان سب میں ایک قدر مشترک ہے کہ یہ سب “ہاں” کے خوشہ چین ریے ہیں اور طاقت کے دربار میں “سبھی ایک ہوئے” کے پیکر خاکی میں جلوہ گر ہوتے رہے ہیں۔

ستر برسوں میں ان درباریوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہوا ہے جب کہ دوسری جانب وہ اقلیت ہے جو پاکستان میں حالات کو بدلنے کے لیے فکری و سیاسی طور پر متحرک رہی ہے۔ یہ تعداد میں قلیل ہی سہی لیکن ان کے خوف سے ایوان اقتدار کچھ یوں لرزہ اندام رہے کہ کبھی ان سر پھروں پر تکفیر کے فتوے لگائے گئے تو کبھی غداری کی سندوں سے ان کا ناطقہ باندھنے کی کوشش کی گئی۔ ان کے ساتھ جو ہوا وہ کچھ عجب نہ تھا کہ دنیا میں روز اول سے سچائی، صدق و وفا اور حریت آزادی سے جن کے انکار کا خمیر اٹھا ہے وہ راندہ درگاہ ٹھہرائے گئے ہیں۔

جرآت انکار رکھنے والے یہ افراد پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ معتوب رہے لیکن تاریخ نے بھی ان کو ہی یاد رکھا۔ یہ تاریخ کا وصف ہے کہ یہ حرف صداقت لکھنے والوں اور جرات انکار کرنے والوں کا ساتھ دیتی ہے۔ ستر برسوں میں آج بھی حالات انکار کی جرآت رکھنے والوں کے لیے کسی زنداں سے کم نہیں اور “ہاں” پر یقین محکم رکھنے والے آج بھی اختیار و اقتدار کے ایوانوں میں فروکش ہیں۔

آج ایک مصنف کٹہرے میں کھڑا ہے۔ اس منصف کا ماضی گواہ ہے کہ یہ اقرار پسند معاشرے میں جرآت انکار کا حوصلہ رکھتا ہے۔ اس منصف کے ماضی کے فیصلوں سے سچائی, صدق اور عدل کی چاندنی پھوٹ کر اس شب ظلمت کو پاٹنے کی کوشش کرتی رہی جو اس ملک کی سیہ بختی رہی ہے۔ اس منصف نے کارواں عدل میں جسٹس رستم کیانی اور جسٹس کارنیلس اور ان جیسے چند دوسرے افراد کے نقش پا پر چلنے کی کوشش کی۔ یہ مصنف “ہمت کفر” کا نقیب ہے۔ جرآت انکار کا سفیر ہے، عدل و انصاف کا وکیل ہے ، ایسے منصف “ہاں” سے شناسا سماعتوں کو بھلا کہاں بھاتے ہیں۔ اس منصف کی باغیانہ روش نے اسے آج کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے کہ یہ فیصلوں کو میزان عدل پر کیوں پرکھتا ہے ، یہ فیصلے کرتے وقت “قومی مفاد” نامی جنس گراں مایہ کو کیوں کر ذہن کے دریچوں سے کھرچ دیتا ہے۔ اس منصف کی بابت ایوان اقتدار سے جو بھی فیصلہ آئے ، سو آئے، اصل فیصلہ تاریخ کا کاتب لکھ چکا ہے جو بس آنے ہی کو ہے اور وہ ہمیشہ جرآت انکار کرنے والوں کو بے گناہ قرار دیتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).