حادثہ ایک دم نہیں ہوتا


\"irshad

پاکستان کے موجودہ حالات بارے جدید اردو غزل کے استاد قابل اجمیری کا ایک شعر یاد آتا ہے؎

وقت کرتا ہے پروش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

الطاف حسین کی بے سروپا گفتگو نے ملک کے طول وعرض میں ایک بھونچال کی سی کیفیت پیدا کردی ہے۔ حالیہ قومی تاریخ میں شاید ہی کسی اور سیاسی راہنمانے ایسا شرانگیز لب و لہجہ اختیار کیا ہو۔ اپنے ہی دیس کی تباہی کی آرزو کی ہو۔ اپنی پارٹی کے کارکنوں کو ریاست کے خلاف بھڑکایاہو۔ ریاستی اداروں اور ان کے ذمہ داران کے خلاف اس طرح کھلے عام ہرزہ سرائی کی ہو۔ الطاف حسین کی تقریر پرجو ردعمل سامنے آیا اس سے یہ امید بندھی ہے کہ پاکستان جیتے جاگتے اور پرعزم بیس کروڑ لوگوں کا ملک ہے جن کی حب الوطنی کو نہ تو کوئی چیلنج کرسکتا ہے اور نہ ہی ان کو رنگ اور نسل کی بنیاد پر ورغلایا جا سکتا ہے۔

الطاف حسین اورایم کیوایم کی لیڈرشپ نے ملک کے ناخداؤں کے لیے ایک موقع فراہم کیا کہ وہ اپنے گریبان میں جھانکیں اور جائزہ لیں کہ پاکستان کو اس مقام تک پہنچانے کا کون ذمہ دار ہے؟ وہ کون سے غلطیاں تھیں جن کی بدولت ایم کیو ایم ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہوئی؟ حتیٰ کہ کراچی اور حیدر آباد پر اس کا سیاسی کنٹرول ہی قائم نہیں ہوا بلکہ وہ ایک مافیا کی مانند دونوں شہروں پر چھا گئی۔ اس دوران ریاستی ادارے کیوں لمبی تان کر سوتے رہے۔ جس کسی نے ایم کیوایم کو سیاسی طور پر چیلنج کیا اسے نشانہ عبرت بنادیا گیا۔ جماعت اسلامی کے درجنوں کارکنوں کو شہید کیا گیا۔ قانون نفاذ کرنے والے اداروں کا حال اس قدر پتلا تھا کہ وہ ایم کیوایم سے پنگا لینے کا تصور بھی نہیں کرتے تھے کیونکہ ہاتھی کے پاؤں میں سب کے پاؤں ہوتے ہیں۔

مقام شکر ہے کہ گزشتہ تین برسوں میں جنرل راحیل شریف کی قیادت میں ریاست نے ماضی کی گھسی پٹی اور فرسودہ پالیسیوں کو تج دیا۔ مذہبی اور سیاسی دہشت گردوں کی تمیز بالاطاق رکھتے ہوئے سب کے خلاف بے لچک موقف اپنایا اور ریاستی اداروں کو قانون کی بالادستی قائم کرنے کے لیے میدان میں اتارا۔

ایک سابق آئی جی طارق پرویز پولیس نے کچھ عرصہ قبل بتایا کہ ضیاءالحق نے ذاتی دلچسپی لے کر پنجاب میں فرقہ پرست گروہوں کو پروان چڑھایا۔ ان کی سرکاری سطح پر پشت پناہی کی اور کراچی میں ایم کیو ایم کو کھڑا کیا گیا تاکہ ضیائی آمریت کی مزاحمت کرنے والوں کی سیاسی بنیاد اکھاڑی جاسکے۔ فرقہ پرست گروہ جنہوں نے بعد ازاں ہزاروں پاکستانیوں کو شہید کیا ان کی آبیاری بھی ریاستی اداروں نے اپنی نرسریوں میں کی۔ اسی کی دہائی سے یہ سلسلہ متواترفوجی اور سویلین حکومتوں میں چلتارہا۔ ہر حکومت نے سیاسی فوائد کی خاطر ایم کیوایم کی ریاست مخالف سرگرمیوں کو نہ صرف نظراندار کیا بلکہ اسے بھرپور سیاسی اور مالی کمک بھی پہنچائی بالخصوص جنرل پرویز مشرف اور آٓصف علی زرداری کے دورحکومت میں تو ایم کیو ایم اور الطاف حیسن کو کھلی چھوٹ ملی۔ کوئی پروا نہیں کی گئی کہ اس طرز تغافل سے ملک کی جڑیں کھوکھلی ہوجائیں گی۔ ضیاءالحق، پرویز مشرف اور صدر آٓصف علی زرداری نے آستین کے سانپوں کو دودھ پلایا۔ انہیں طاقت ور بنایا۔

اس ملک کا ایک بڑا صاحب الرائے طبقہ مسلسل متوجہ کرتا رہا کہ فرقہ پرست، نسلی اور لسانی گروہ ریاست کا اثاثہ نہیں ہیں بلکہ ایک دن ملک اور اس کے شہریوں پر عذاب کا کوڑا بن کر برسیں گے لیکن اندھی، گونگی اور بہری ہیت متقدرہ نے ایک نہ سن کردی۔ دیر آید درست آید، گزشتہ کچھ عرصے سے مقتدر قوتوں نے درست حکمت عملی اختیار کی اور دہشت گردوں، فرقہ پرستوں اور سیاسی جماعتوں کے مسلح گروہوں کے خلاف بلا تفریق ایکشن لینا شروع کیا ہے۔ ان اقدامات کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں۔ کراچی میں ایم کیو ایم کے مسلح ونگ کا زور ٹوٹ چکا ہے اور وہ ماضی کے برخلاف دھونس دھاندلی اور زور زبردستی کرنے کی صلاحیت تیزی سے کھورہا ہے۔ عام شہری بالخصوص سیاسی کارکن اپنے آپ کو خوف سے آزاد محسوس کرتے ہیں۔ کاروباری مراکز کھلے ہوئے ہیں اور بڑے سرمایہ دار بھاگنے کے بجائے ملک میں ٹھہرنے اور بزنس کرنے کو ترجیح دے رہیں جو کہ ایک مثبت رجحان ہے۔ پنجاب میں بھی دہشت گردوں کے سرپرستوں کو لگام دی گئی ہے۔ کچھ پولیس مقابلے میں مارے گئے اور کچھ فرار ہوگئے۔

یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں امن وامان کا قیام ایک پیچیدہ عمل ہے جس کی ٹھوس تفہیم کم ہی لوگوں کو حاصل ہے۔ یہ درست ہے کہ منظم، پیشہ ور اور غیر سیاسی پولیس فورس، مستعد خفیہ اداروں کی موجودگی میں امن وامان کی صورت حال میں بہتری آسکتی ہے لیکن پاکستان کے اندر دہشت گردی کے ڈانڈے اس کی خارجہ پالیسی بالخصوص ہمسایہ ممالک کے ساتھ کشیدہ تعلقات سے جڑےہوئے ہیں۔ افغانستان اوربھارت کے ساتھ تعلقات خراب ہوں تو وہ پاکستان کے اندر مختلف دہشت گرد گروہوں کے ذریعے امن وامان کے مسائل پیدا کردیتے ہیں۔ ایران اورعرب ممالک بھی اپنے اپنے حامیوں کی مالی معاونت اور سیاسی سرپرستی کرتے ہیں جو ملک کے اندر سیاسی اور سماجی مسائل پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ مغربی ممالک بالخصوص برطانیہ بھی الطاف حسین کی شکل میں ایک خوفناک اژدھا پالے ہوئے ہے جو دن رات پاکستان کی سیاست میں ہنگامہ آرائی کرتا رہتا ہے۔

حکومت پاکستان کو خطے کے ممالک کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے لیے سرگرمی کے ساتھ قدم بڑھانا ہوگا۔ دشمنی کو دوستی میں بدلنے کی جستجو کرنا ہوگی تاکہ پاکستان کے اندر بیرونی مداخلت کم ہوسکے۔ عالم یہ ہے کہ بھارت اور افغانستان پاکستان کے خلاف ایک صفحے پر نظر آتے ہیں اور وہ خطے کے دیگر ممالک کو بھی اپنا ہم نوا بنانے میں کامیاب ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ خطے میں پاکستان بری طرح تنہا ہوچکا ہے۔ بنگلہ دیش تک کے وزراء دہلی جا کر پاکستان کے خلاف بیان بازی کرتے ہیں۔ بنگلہ دیشی وزیرا طلاعات نے کہا کہ بلوچستان کی صورت حال پر ان کی حکومت جلد ہی پالیسی بیان جاری کرے گی کیونکہ وہ آئنی طور پر آزادی کی تحریکوں کی حمایت کے پابند ہیں۔

چنانچہ پاکستان کو جہاں داخلی محاذ پر سیاسی استحکام کے لیے سخت محنت کی ضرورت ہے وہاں ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کی بہتری اور تنازعات کے پرامن حل پر بھی توجہ مرکوز کرنا ہوگی تاکہ ملک میں استحکام پیدا کیا جا سکے جو کہ معاشی ترقی کی کنجی ہے۔

ارشاد محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ارشاد محمود

ارشاد محمود کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئیر کالم نویس ہیں جو کہ اردو اور انگریزی زبان میں ملک کے موقر روزناموں کے لئے لکھتے ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ershad.mahmud@gmail.com

irshad-mehmood has 178 posts and counting.See all posts by irshad-mehmood

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments