پاکستان مین نقاب کی موسمی، مذہبی، علاقائی اور فیشنی اقسام


پاکستان میں چونکہ چار موسم ہیں، اور کچھ علاقوں میں شدید گرمی اور سردی پڑتی ہے، تو شدید سردی میں لاہور جیسے شہر میں بھی لوگ چہرے پہ چادر ڈال لیتی ہیں، کوئٹہ، سبی اور سرحدی علاقوں کا تو سوچ کر ہی انسان کانپ جاتا ہے تو وہاں تو لازمً چادر منہ پہ ڈالنی پڑتی ہے۔ جسے عام الفاظ میں بکل بھی کہا جاتا ہے۔ اور بکل تقریباً مرد و عورت سب ہی مارتے ہیں سردیوں میں۔

دوسرا موسم ہے گرمی، جو کہ پڑتی بھی شدید ہے، خاص کر صحرائی علاقوں میں۔ چونکہ گرمی میں سخت لُو چلتی ہے تو چہرے کو لُو سے بچانے کے لیے بھی چہرہ ڈھانپا جاتا ہے۔

آرٹ گیلری میں اکثر آرٹسٹ جب بھی ثقافت کی عکاسی کرتے ہوئے صحرائی خواتین کی پینٹینگ بناتے ہیں تواُن میں اکثر ایسا نقاب نظر آتا ہے۔

موسمی نقاب تو مرد و خواتیں دونوں کرتے نظر آتی ہیں۔ ہاں البتہ علاقائی اور مذہنی نقاب خواتیں تک ہی منسلک ہے۔ جیسے وادی کلاش، پشاور، سرحد اور بلوچستان کے باقی علاقوں میں چادر کو پوری طرح چہرے پہ لپیٹنے جس سے آنکھوں کے علاوہ تمام چہر چھپ جاتا ہے یا چادر کے ایک پلو سے آدھا چہرے کا نقاب کیا جاتا ہے ہر ایک کی اپنی پسند یا ہر ایک کی اپنی مذہبی و معاشرتی حدود و پابندیاں۔

ایک نقاب وہ بھی ہوتا ہے جو ڈاکو حسینہ کرتی ہیں، بالکل ویسے جیسے بولی وڈ کی کچھ فلموں میں ریکھا نے کیا تھا۔ مگر ویسا نقاب پاکستان میں صرف تصاویر میں ہی نظر آتا ہے، اگر آپ کو کبھی راولپنڈی کی مری روڈ پہ چلنے والی رنگین سوزوکیوں یا کراچی کے لالو کھیت میں چلتی پرانی بسوں میں بیٹھنے کا اتفاق ہوا ہو تو آپ ڈاکو حسینہ کی تصاویر سے واقف ہوں گے۔ جس میں ایک سفیدی مائل موٹی آنکھون والی حسینہ نے کالے رنگ کے شفون کے دوپٹہ سے نقاب کیا ہوتا ہے۔ اور اُس کالے شفون کے دوپٹہ سے چہرے کی سفیدی کو مزید چار چاند لگ جاتے ہیں اسی لیے اُس تصویر کے ساتھ ہی لکھا ہوتا ہے ”شالا نظر نہ لگے“۔ کیونکہ اُ س تصویر کو دیکھتے ہی گانے گونجنے لگتے ہیں دماغ میں، ”چہرہ تو دکھاو“، یا ”پردے میں رہنے دو پردہ نا اُٹھاو“۔

ڈاکو حسینہ کے نقاب کو فیشنی نقاب ہی کہیں گے جو زیادہ تر پنجاب کی لڑکیان کرتی ہیں شفون نیٹ اور ململ کے دوپٹہ سے، کبھی اپنے چہرے کے زاویہ کسی سے چھاپنے کے لیے، کبھی مٹی و گرد سے چہرہ بچانے کے لیے اور کبھی میک اپ کیا ہو اور کسی ایسی جگہ سے گزرنا ہو جہاں مرد حضرات کی تعداد زیادہ یو تو اخلاقاً ایسا کر لیا جاتا ہے کہ باپ اور بھائی کی عزت ہے لوگ کیا کہیں گے اتنا میک اپ، اور فیشن۔

کچھ نقاب چہرے کو حسین بنانے کے لیے کیے جاتے ہیں بقول میرے انکل جو ہمیشہ مذاق میں کہتے ہیں، لڑکیوں کے مزے ہیں چہر چھپا لیں اور حسین ہو جائی بنا کسی اضافی خرچ کے۔ اُنھیں لگتا ہے اگر وہ لڑکی ہوتے تو بس نقاب کر کے رکھتے، اور جب بھی نقاب اُترتا تو اندر سے نور کی شعاعیں پھوٹتی۔ کوئی مٹی اور گرد چہرے کی جلد خراب نہ کر پاتی۔ اور سب حسین جلد کا راز پوچھتے۔

نقاب کی تاریخ میں جائیں توآج سے دو دہائی پہلے ٹوپی والا برقع کافی استعمال ہوتا تھا، جو عام طور پر خواتین کرتی تھی۔ اور جو تھوڑی عمر میں بڑی ہوتی تھی وہ اُسی ٹوپی والے برقع سے ایک مختلف انداز میں نقاب کرتی تھی کہ ٹوپہ تو سر پہ ہی ہوتی تھی مگر چہرے پہ جالی نہی ہوتی تھی بلکہ وہ کچھ اس ماہرانا انداز میں برقع کی گھیر کو اڑستی تھی چہرے کے اطراف میں کے اُن کے ہونٹ تو چھپ جاتے تھے مگر ناک اور آنکھیں نظر آتی تھیں۔ ٹوپی والے برقع کے فوائد کا اندازہ مجھے چمن کے سفر میں ہوا تھا، کچھ بھی چھاپا لو پتہ ہی نہی چلتا اکثر بچے اُنھیں برقع میں ہی چھپ کر جوان ہوئے ہیں آج کل بھی خال خال ایسے خواتین نظر آ ہی جاتی ہیں چھوٹے شہروں میں۔

نقاب کی تقریباً تمام اقسام سے واقف ہوں جو پاکستان میں چلتی ہیں، کوئی خوشی سے کرتا ہے، موسم کی وجہ سے معاشرے کی وجہ سے یا مذہب کی احکام کی وجہ سے میرے نزدیک یہ ہر ایک کا انفرادی یا گھریلو معاملہ ہے۔

مگر میں پچھلے کچھ عرصہ سے ایک قسم کے نقاب کو سمجھ نہیں پائی جس کا ارتکاب پاکستان کی خاتون اوّل کرتی طواف کعبہ کے وقت۔ میری ناقص معلومات کے مطابق ایسا کوئی نقاب نہی ہوتا جو طواف کعبہ میں (عمرہ اور حج) کے وقت کیا جائے۔ عورت کے احرام میں چہرہ کا ڈھنپنا/نقاب نہی ہے۔ کیا کوئی اس پہ روشنی ڈال سکتا ہے، یا میں ہی ناواقف ہوں اس قسم کے نقاب سے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).