مہنگا ئی بم ، عوام کی چیخیں


ملکی معیشت جس سمت جا رہی ہے وہ کوئی اچھا شگون نہیں ہے ۔اقتصادی صورتحال اتنی خراب ہے کہ کسی بھی شعبے سے کوئی اچھی خبر نہیں آ رہی ۔حکومتی اہلکار برملا دعوے کر رہے ہیں کہ حالات ٹھیک ہونا شروع ہو گئے ہیں، نہ جانے وہ کونسی دنیا میں رہ رہے ہیں ۔ پٹرول کی قیمت ہی لیجیے ،عید سے عین قبل اتنا بڑا مہنگائی کا بم گرا دیا گیا کہ ا ب پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اس بلند سطح پر پہنچ گئی ہیں جو وطن عزیز کی تاریخ میں پہلے کبھی نہ تھیں ۔

جب عمران خان نے اگست 2018 ء میں وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا تو پٹرول کی قیمت 95 روپیفی لیٹر تھی اب یہ بڑھ کر 112 روپے 68پیسے تک پہنچ گئی ہے ۔پاکستان خلیجی مارکیٹ سے خام تیل خریدتا ہے جہاں اپریل میں ریٹ 72ڈالر فی بیرل تھا جواب کم ہو کر 67ڈالر فی بیرل ہو گیا ہے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ روپے کی قدر میں مسلسل کمی کی بنا پرحکومت تیل کی قیمت بڑھانے پر مجبور ہے ۔

ابھی قومی بجٹ کے اعلان میں قریبا ً 8روز باقی ہیں جس کے بعد آئی ایم ایف کی فرمائش کے مطابق ٹیکسوں اورڈیوٹیوں میں اضافے اور سبسڈیزکی کمی کے بعد واقعی عوام کی ایسی چیخیں نکلیںگی جیسا کہ سابق وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا تھا کہ اتنی مہنگائی ہوگی کہ عوام کی چیخیں نکل جائیں گی ۔تیل کی قیمتوں میں اضافے کا ایک بدیہی نتیجہ مزید مہنگائی کی صورت میں نکلے گا ۔بجلی کو ہی لیجیے اس کی قیمت میں اضافے کے ساتھ ساتھ فیول سر چارج کی مد میں صارفین پر مزید بوجھ پڑے گا ۔

ظاہر ہے کہ ٹرانسپورٹ سمیت ہر شعبہ اس سے متاثر ہو گا ۔اس کے باوجود حکومت ڈھٹائی سے کہہ رہی ہے کہ غریب آدمی کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ مہنگائی کے آنے والے اس طوفان کے حوالے سے کوئی پیشگوئی کرنے کے لیے ماہر اقتصادیات ہونا ضروری نہیں ۔ ایف بی آر کے نجی شعبے سے لائے گئے چیئرمین شبر زید ی نے وزیراعظم کے نام خط میں ٹیکس نظام کو برملا طور پر ناقابل عمل قرار دے دیا ہے ۔

ان کے مطابق موجودہ ٹیکس سسٹم ملکی معیشت کے لیے سنگین خطرہ ہے نیز یہ کہ کاروباری افراد کی بہت بڑی اکثریت ٹیکس نیٹ میںآنے کو تیار نہیں ۔یہ تو سب کو علم ہے کہ بائیس کروڑ کی آبادی میں سے صرف بیس لاکھ ٹیکس دہندگان ہیں ۔ایف بی آرکی تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ 11ماہ میں محصولات کی وصولی میں 447ارب روپے کی ریکارڈ کمی ہوئی ہے گویا کہ یہ بھی پاکستان کی تاریخ میں ایک نیا ریکارڈ ہے ۔کسٹمز، انکم ٹیکس ،سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی سمیت کسی مد میں اہداف پورے نہیں کر سکے ۔

یقینا وفاق اس صورتحال میں 18ویں ترمیم کے تحت صوبوں کو دی جانے والی رقوم بھی ادا نہیں کر پائے گا ۔ درآمدات پر پابندیوںکی بنا پر جو کمی ہوئی ہے اس سے یہ ڈیوٹیاں متاثر ہونا تھیں لیکن عملی طور پر چونکہ اکانومی کا پہیہ ہی نہیں چل رہا صورتحال خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے ۔یہی حال برآمدات کا ہے مشیر تجارت رزاق داؤد نے شیخی ماری تھی کہ تحریک انصاف کی حکومت برآمدات میں ملکی تاریخ کا ریکارڈ اضافہ کرے گی ۔لیکن انھیں حال ہی میںتسلیم کرنا پڑا کہ ان کا یہ دعویٰ کہ برآمدات 27/28ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گی غیر حقیقی تھا اور حقیقت پسندانہ تخمینہ یہ تھا کہ برآمدات -25ارب ڈالر تک ہو جائیں گی لیکن اب یہ بھی قابل عمل نہیں رہا ۔

ویسے بھی رزاق داؤد جو جنرل مشرف کے مشیر تجارت تھے نے اس وقت کون سا تیر مار لیا تھا جو اب مار لیں گے ؟۔گویا کہ اقتصادیات کا آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا نظر آتا ہے ۔ پاکستان جس رفتار سے قرضے لے رہا ہے اس سے بھی تیز رفتاری سے خرچ ہو رہے ہیں ۔عمران خان نے اسلامی کانفرنس تنظیم کے سربراہ اجلاس میں جانے سے قبل اپنا ایک ویڈیو پیغام ریکارڈ کرایا تھاجس میں انھوں نے پاکستانیوں سے اپیل کی کہ وہ اثاثے ظاہر کریں اور ٹیکس ایمنسٹی سکیم سے فائدہ اٹھائیں ۔

ابتدائی طور پر تو اس سکیم کے کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہو رہے ۔جی ہاں ! یہ ویسی ہی سکیم ہے جس کے بارے میں جب عمران خان اپوزیشن میں تھے تو کہتے تھے کہ نوازشریف کی حکومت چوروں کو تحفظ دے رہی ہے لیکن بعداز خرابی بسیار وہ بھی ایسا کرنے پر مجبور ہو گئے ۔وہ یہ بھی کہتے تھے کہ لوگ کرپٹ حکومت کو ٹیکس دینے پر تیار نہیں لیکن اب ’ایماندار حکومت ‘ کی محاصل کی وصولی کی صورتحال پہلے سے بھی بدتر ہو گئی ہے ۔

خان صاحب کی اپنی جماعت کے بھی وہ لوگ جنہوں نے اپنے اثاثوں کو ظاہر نہیں کیا محض حب الوطنی کے جذبے کے تحت یا خان صاحب کی ایمانداری سے متاثر ہو کر اپنے اثاثوں کا اعلان کر دیں گے ،یہ توقع کرنا بھی حقیقت پسندانہ نہیں ہے ۔جب تک حکومت اپنی گورننس کے معاملات درست نہیں کرتی محض اخلاقیات پر لیکچرز سے معاملات سلجھ نہیں پائیں گے ۔ایسا لگتا ہے کہ وزیراعظم کو اب بھی اقتصادی معاملات کی پیچیدگیوں کا احساس ہی نہیں ۔شاید اسی لیے انھوں نے برسراقتدار آتے ہی انواع واقسام کے نام نہاد اقتصادی مشیر اکٹھے کر لیے جو کوئی صائب مشورہ دینے کے بجائے اپنا الو سیدھا کرتے رہے ۔

کچھ عقلمندوں کا تو خیال تھا کہ فوری طور پر آئی ایم ایف کے پروگرام میں جایا جائے لیکن خان صاحب اور ان کے وزیرخزانہ کا غالباً گمان یہ تھا کہ جیسے شوکت خانم ہسپتال پر چندے کی بارش ہوتی رہی ہے، اسی طرح بیرون ملک پاکستانی اور دوست ممالک ڈالروں کی بارش کر دیں گے، نام نہاد اقتصادی مشیر بھی وزیراعظم کی ہاں میں ہاں میں ملاتے رہے ۔بالآخر حالات بد سے بدتر ہونے کے بعد آئی ایم ایف کے پروگرام میں جانا ہی پڑا ۔

یعنی ہماری حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام میں جانے میں لیت ولعل کر کے سو جوتے اور سو پیاز بھی کھائے ۔ نئے مشیر خزانہ جو کہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے مسلط کیے جاتے ہیں بزعم خود ٹیکنو کریٹ ہونے کے باوجود سیاسی طور پر انتہائی گھاگ ہیں، انھیں خوب معلوم ہے کہ اپنا الو کیسے سیدھا کرنا ہے ۔انھوں نے صاف کہہ دیا ہے کہ وہ پوری طرح بااختیار ہونگے اور وہ اپنے فیصلے نام نہاد اقتصادی مشیروں کے ذریعے نہیں کریں گے ۔

اسی بنا پر یہ مشیر جو ہر حکومت کے مشیر بن بیٹھتے ہیں اب پریشان ہیں کہ انھیں گھاس نہیں ڈالی جا رہی ۔ جہاں تک ڈاکٹرحفیظ شیخ کا تعلق ہے وہ آصف علی زرداری کے دور میں انتہائی نامساعد حالات میں قر یبا ً تین برس وزیر خزانہ رہے لیکن انھوں نے اپنے اس عرصے میں کوئی ایسا تیر نہیں مارا تھا جس کی بنیاد پر انھیں واپس لایا جاتا۔ غالبا ً ان کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ وہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے آدمی ہیں اور ان کا کلہ بھی مضبوط ہے ۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).