پشتون تحفظ موومنٹ: ’آزادی اظہارِ رائے لامحدود نہیں ہے‘


اسلام آباد ہائی کورٹ

پی ٹی ایم اور اس کی قیادت کے بیانات کی اشاعت پر پابندی سے متعلق پاکستانی فوج کے ایک سابق افسر کی طرف سے دائر کی گئی درخواست پر پیر کے روز سماعت ہوئی ہے (فائل فوٹو)

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پشتون تحفظ موومنٹ اور اس کی قیادت پر پاکستانی فوج کے خلاف ہرزہ سرائی کے الزام سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ ’آزادی اظہارِ رائے لامحدود نہیں ہے۔‘

نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق عدالت کا کہنا تھا کہ کسی ایک فرد کے خلاف حکم جاری نہیں کیا جائے گا بلکہ اس درخواست سے متعلق ایسی ہدایات جاری کریں گے جس کو بنیاد بناتے ہوئے پالیسی وضح کی جا سکے۔

پی ٹی ایم اور اس کی قیادت کی طرف سے جاری ہونے والے بیانات کی اشاعت پر پابندی سے متعلق درخواست پاکستانی فوج کے ایک سابق افسر کرنل ریٹائرڈ جاوید اقبال کی طرف سے دائر کی گئی ہے۔

پیر کو جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے اس درخواست کی سماعت کی۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان میں انسانی حقوق کی پوشیدہ خلاف ورزیاں

محسن داوڑ بھی شمالی وزیرستان سے گرفتار

پی ٹی ایم کا موقف پاکستانی میڈیا سے غائب کیوں؟

درخواست کے حق میں دلائل دیتے ہوئے درخواست گزار کے وکیل شعیب رزاق کا کہنا تھا کہ ’پشتون تحفظ موومنٹ سے وابستہ عناصر ملک اور فوج کو بد نام کر رہے ہیں۔‘

اُنھوں نے کہا کہ ’پی ٹی ایم کی جانب سے الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا کو مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔‘

درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ اس بات کے ناقابلِ تردید شواہد موجود ہیں کہ ’پی ٹی ایم کی قیادت پاکستان دشمن غیر ملکی خفیہ اداروں سے فنڈز حاصل کر رہی ہے اور ان فنڈز کا استعمال پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ہو رہا ہے۔‘

اُنھوں نے کہا کہ ’شمالی وزیرستان میں فوجی چیک پوسٹ پر حملہ بھی پی ٹی ایم کی قیادت کے اکسانے پر کیا گیا۔‘

کرنل ریٹائرڈ جاوید اقبال کے وکیل کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر پاکستان مخالف ایجنڈے کو فروغ دیکر پی ٹی ایم کی قیادت ملک دشمنی کا ثبوت دے رہی ہے۔

اُنھوں نے عدالت سے استدعا کی کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی کو سوشل میڈیا پر پشتون تحفظ موومنٹ کے تمام منفی پروپیگنڈے کو ہٹانے کا حکم دیا جائے۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ پشتون تحفظ مومومنٹ اس ضمن میں پیمرا کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی مرتکب بھی ہوئی ہے۔

اس درخواست کی سماعت کے دوران پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتن اور دو رکن اسمبلی علی وزیر اور محسن داوڑ کی طرف سے ابھی کوئی جواب داخل نہیں کروایا گیا۔

عدالت نے اس درخواست میں بنائے گئے تمام فریقوں بشمول سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری دفاع، سیکرٹری قانون، پی ٹی اے اور پیمرا کے حکام سے دوبارہ جواب طلب کر لیا ہے۔

پی ٹی ایم

پی ٹی ایم کے رہنما محسن داوڑ اور علی وزیر اس وقت قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حراست میں ہیں (فائل فوٹو)

عدالت نے پی ٹی اے کی جانب سے جواب داخل کرانے کے لیے مہلت کی استدعا منظور کرتے ہوئے سماعت 13 جون تک ملتوی کر دی اور اس کے ساتھ ساتھ عدالت نے آئندہ سماعت پر پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل انٹرنیٹ پروٹوکول کو ذاتی حیثیت میں بھی طلب کیا ہے۔

عدالت نے اگلی سماعت پر پیمرا کے ذمہ دار افسر کو بھی طلب کیا ہے۔ عدالت نے منظور پشتین، محسن داوڑ اور علی وزیر کو بھی دوبارہ نوٹس جاری کر کے تحریری جواب طلب کر لیا ہے۔

ایک طرف پشتون تحفظ موومنٹ پر پابندی عائد کرنے کے لیے اعلیٰ عدالتوں میں درخواستیں دی جارہی ہیں جبکہ دوسری طرف سینیٹ میں قومی ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے بنائی جانے والی کمیٹی منظور پشتین کے ساتھ بات چیت کر رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32286 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp