ترقی کی شاہرہ پر گامزن ”نیا پاکستان“


معروف جریدے فارن میگزین کی طرف سے برجستہ عالمی مفکر کا اعزاز پانے والے ہمارے وزیر اعظم کے دور حکومت میں علمی و تحقیقی سرگرمیوں کو غیر معمولی فروغ حاصل ہو رہا ہے اگر خان صاحب کی حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرتی ہے تو بڑے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ ان کی خدمات کے اعتراف کے لئے تمام عالمی اعزاز کم پڑ جائیں گے۔

نوبل اعزاز تو انہیں حکومت کی ابتدا میں ہی ملنے والا تھا لیکن ان کی عاجزی و انکساری آڑے آ گئی اور انہوں نے فرمایا کہ جو مسئلہ کشمیر کو حل کرے گا نوبیل انعام اس کو ملنا چاہیے، مسئلہ کشمیر کو بھی خان صاحب جیسا عالمی مفکر ہی حل کروائے گا۔ جہاں تک دنیا کے بڑے سے بڑے اعزازت کے ناکافی ہونے کے مسئلہ کا تعلق ہے تو اس کے حل کا سامان بھی ابھی سے کر دیا گیا ہے۔

خان صاحب نے علمی اور تحقیقی میدان میں دنیا بھر کی یونیورسٹیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ”القادر“ یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھ دیا ہے بقول ان کے جب اس یونیورسٹی سے محققین نکلیں گے تو دنیا بھر کے اسکالرز کی طرف سے اٹھائے جانے والے اعتراضات کا نا صرف جواب دیں گے بلکہ سپر سائنس کا درجہ رکھنے والی ”روحانیت“ کے بل بوتے پر پوری دنیا کو تسخیر کر لیں گے اسی طرح، مستقبل میں اسی روحانی یونیورسٹی کی طرف سے دیا جانے والے والا ”روحانی“ تمغہ ہی خان صاحب کی سیاسی، علمی اور فکری خدمات کے اعتراف کا حق ادا کر پائے گا۔

خان صاحب پاکستان کو علمی و تحقیقی میدان میں آگے لانے کے لئے کس حد تک سنجیدہ ہیں اس کا اندازہ محترمہ شبنم گل کے معاملہ کو دیکھ کر لگایا جا سکتاہے جب وزیر اعظم کو بتایا گیا کہ شبنم گل صاحبہ کی بہن وفاقی وزیر مملکت محترمہ زرتاج گل نے، سرکاری اختیارات اور اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے انہیں نیکٹا کا ڈائریکٹر تعینات کروایا ہے تو انہوں نے زرتاج گل کی سفارش کو نظر انداز کرتے ہوئے اس بات کی تحقیق کی کہ آیا محترمہ شبنم گل اس عہدے کی اہل بھی ہیں یا نہیں اور جب ان کو بتایا گیا کہ مبینہ طور پر انہیں علمی مواد چوری کرکے اپنے تھیسزمیں شامل کرنے پر پنجاب یونیورسٹی سے سزا ہو چکی ہے تو جناب خان صاحب کی رگ علمی پھڑکی اور فوری طور پر، شبنم گل صاحبہ کو عہدے سے ہٹانے کا حکم جاری کر دیا۔

جناب وزیر اعظم کا کہنا تھا ایسے عہدے کے لئے علمی حوالے سے کمزور شخص موزوں نہیں ہے۔ جناب وزیراعظم کے نقطہ نظر کے مطابق نیکٹا کے ریسرچ ونگ کے لئے کسی ایسے شخص کو تعینات نہیں کیا جا سکتا جس کا ریسرچ کے شعبے میں کوئی تجربہ نہ ہو جناب وزیر اعظم کے اس اقدام سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ملک میں تحقیق کا معیار بلند کرنے کے لئے کس قدر سنجیدہ ہیں لیکن اس کے باوجود پاکستان کی علمی و تحقیقی میدان میں ترقی کے دشمن پروپیگنڈے میں مصروف ہیں۔

ایسے ہی کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ جناب وزیر اعظم نے محترمہ شبنم گل کی تعینانی کو معطل کرنے کا حکم اس لئے نہیں دیا کہ وہ اس عہدے کی اہل نہیں ہیں بلکہ جب یہ معاملہ میڈیا میں آیا تو انہوں نے اپنی مقبولیت کو گزند پہنچنے سے بچانے کے لئے یہ قدم اٹھایا اسی طرح وہ کہتے ہیں کہ جناب وزیر اعظم کی پارٹی کا شروع سے یہ وتیرہ رہا ہے کہ جب عوام میں مقبولیت کم ہونے کا خطرہ ہوتو فیصلہ فوری واپس لے لیتے ہیں اس سللسہ میں عاطف میاں کی مثال دی جاتی ہے، جن کو اقتصادی مشیر نامزد کیا گیا تو کچھ شدت پسندوں سے خائف ہو کر یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا۔

بہرحال پاکستان کی ترقی کے دشمنوں کی ایسی بے جان دلیلوں سے جناب وزیر اعظم کو کوئی خطرہ نہیں، ویسے بھی جتنی مقبولیت وزیر اعظم کو حاصل ہے ان کے دشمن صرف اس کا تصور ہی کرسکتے ہیں۔ !

خان صاحب کو وزیر اعظم بننے کے بعد جتنی مقبولیت ملی ہے پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی وزیر اعظم کو نہیں مل سکی آج لوگ سابق حکمرانوں سے بے زاری کا اظہارکرتے ہوئے انہیں بددعائیں اور خان صاحب کو دعائیں دے رہے ہیں!

اور دعائیں کیوں نہ دیں کہ لوڈشیڈنگ صفر ہے مہنگائی کم ہو گئی ہے ڈالر سے غیور اور سمجھدار قوم کو کوئی غرض نہیں ہے ڈالر بڑھتا ہے تو بڑھے انہیں تو روپے سے غرض ہے اسی لئے عوام جناب وزیر اعظم کی محبت میں ڈالروں کو جلا رہے ہیں اب تو مفتی اعظم پاکستان نے ڈالر کے خلاف فتوی بھی دے دیا ہے جس کی وجہ سے خان صاحب کی حکومت کے مخالفین کا پروپیگنڈا دم توڑ رہا ہے۔

اکا دکا مخالفین مہنگائی کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں ان کو عوام کا کوئی درد نہیں ہے۔

یہ لوگ عوام کو مشتعل کرنا چاہتے ہیں اگر ان کا پروپیگنڈا سچ ہوتا تو عوام احتجاج کرتے لیکن عوام انتہائی آسودگی کی زندگی گزار رہے ہیں اور ایک مفکر وزیر اعظم کی حکمرانی کو انجوائے کر رہے ہیں ایک ایسا وزیر اعظم جو سابق حکمرانوں کی طرح چور اور ڈاکو نہیں جو سابق حکمرانوں کی طرح شاہانہ زندگی نہیں گزارتا۔

بلکہ بعض اوقات اس کے لباس پر سوراخ ہوتے ہیں جو اپنے عوام کی خدمت کے لئے ہمہ وقت سر گرم عمل ہے۔ ایک ایسا وزیر اعظم جس کے آتے ہی ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو گیا ہے ایک ایسا وزیر اعظم جس کی پوری ٹیم تجربہ کار اور ایماندار لوگوں پر مشتمل ہے جس کی ٹیم میں عثمان بزدار، زلفی بخاری اور مراد سعید ایسے نابغہ روزگار لوگ شامل ہیں۔

جو سب جوش و ولولے کے ساتھ ملک و ملت کی خدمت میں مصروف ہیں صرف ایک صوبہ چھوڑ کر باقی تمام صوبوں میں خوشحالی کا دور دورہ ہے یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن کے لوگ عوام اور حکومت کی شرافت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے افطار پارٹیوں میں اکٹھے بیٹھ کر عوام اور حکومت کے خلاف سازشیں تیار کرتے ہیں یہ لوگ اپنے کرپشن کو چھپانے کے لئے مسلسل حکومت کے خلاف بیان بازی کر رہے ہیں اور حکومت کو ڈرا رہے ہیں کہ عید کے بعد حکومت کے خلاف تحریک شروع کریں گے حکومت کو ان کی کسی تحریک کی کوئی پروا نہیں ہے عوام نئے پاکستان کو قبول کر چکے ہیں وہ کسی کو یہ اجازت نہیں دیں گے کہ ان کے محبوب وزیر اعظم کے خلاف کوئی تحریک چلائی جائے۔

بلکہ وہ وقت قریب ہے جب وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں عوام نئے پاکستان کے دشمنوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے اور نا صرف ان سے پرانے پاکستان کے مسائل کی باز پرس کرتے ہوئے ہر ظلم کا حساب لیں گے بلکہ نئے پاکستان کے بھی تمام مسائل ان کے کھاتے میں ڈال کر گلی کوچوں میں اوئے نواز شریف! اوئے زرداری!  اوئے چورو! کے نعرے بلند کرتے ہوئے ایک ایک پائی کا حساب لیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).