مسیحا جب موت بانٹنے لگ جائیں


رمضان کے آخری عشرے میں گرمی بھی زوروں پر ہے۔ ساہیوال کے ڈی ایچ کیو ہسپتال کے چلڈرن وارڈ کا اے سی بند ہونے سے سولہ بچے جان کی بازی ہار گئے۔ ہونے والے اس واقعے نے اہل وطن کو ہلا کر رکھ دیا۔ پرانے پاکستان میں ہسپتالوں کی حالت قدرے بہتر تھی چیک اینڈ بیلنس ہوتا تھا۔ پرانے پاکستان کے وزیراعلی اچانک ہسپتالوں کے دورے کرتے رہتے تھے جس کی وجہ سے انتظامیہ میں ڈر رہتا تھا نظام نئے پاکستان سے قدرے بہتر چل رہا تھا۔

ان معصوم کلیوں کا کیا قصور جنہوں نے ابھی اس دنیا میں آنکھ کھولی ہی تھی اس بے حس انتظامیہ کا شہرہ دیکھا ہی تھا انتظامیہ کی کوتاہی نے ان معصوم کلیوں کی جان لے لی۔ اہل خانہ پے کیا گزری ہو گی جب انہیں اطلاع ملی ہو گی آپ کے بچے ہماری غفلت کی بھینٹ چڑھ گے ہیں۔ ہسپتال کے ڈائیریکٹر کے روم کا اے سی ایک سیکنڈ کے لیے بند ہو جائے انتظامیہ اسی وقت حرکت میں آ جاتی ہے کہیں نوکری نا چلی جائے۔ لیکن اسی انتظامیہ کی بے حسی کا عالم یہ ہے سولہ نومولود بچے جو ان کی زیرنگرانی  تڑپتا سسکتا چھوڑ کر ہسپتال کے ڈائیریکٹر کے اے سی کی نگرانی میں لگے ہوئے تھے کہیں ڈائیریکٹر صاحب کو گرمی نا لگ جائے۔

جب سفارشوں پر سرکاری اداروں کے سربراہ مسلط کیے جائیں تو پھر ان سے کیسے امید لگائی جا سکتی ہے وہ عوام کا درد رکھیں گے۔ یہ حالات کے ایک ہسپتال کے نہیں ہیں پورے ملک میں یہی لاقانونیت کا دور چل رہا ہے۔ ملک کے بادشاہ اپنے وزیروں مشیروں کے ساتھ عوام کے خرچے پر اپنے گناہوں کی بخشش کروانے گئے ہوئے ہیں۔ پیچھے ملک کی باگ ڈور نا اہل قسم کے لوگوں کے ہاتھوں میں دے گئے ہیں۔

حکومتی سطح پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے یہاں جو اٹھتا ہے اپنے عزیزوں کو نوازنا شروع کر دیتا ہے۔ حالات یہ ہیں ایک وزیر اٹھتی ہے اپنی بہن کو نیکٹا کا ڈائیریکٹر لگا دیتی ہے جب کہ وہ اس پوسٹ کے لیے اہل نہیں تھی۔ خدارا اس ملک پر ملک کے عوام پر رحم کریں اگر انہیں سہولیات دے نہیں سکتے تو پہلے سے موجود سہولتیں نا چھینیں۔ اس ناقص کارکردگی کا حساب کون دے گا میرے بادشاہ تجھے حساب دینا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).