انسانیت مر گئی، عشق ابھی زندہ ہے!


پچھلی رات عابدہ پروین کو رو برو سن رہی تھی اور اپنے گرد بیٹھے ہر عمر کے لوگوں کو دیکھ رہی تھی جو بڑی محویت کے ساتھ عابدہ پروین کو سن رہے تھے اور سر دھن رہے تھے، چاہے وہ اردو کلام گا رہی ہو، سندھی ہو یا پنجابی۔ بس عشق کا جادو تھا جو عابدہ پروین کے ذریعے حاضرین محفل کی جانب منتقل ہو رہا تھا۔

پھر اس نے ہمیشہ کی طرح اپنا پسندیدہ اور ایک سادہ لفظوں والا مقبول سندھی کلام گانا شروع کر دیا۔

سندھ میری اماں
حسن تیرا کروں کیسے بیاں!
اک قلم اور ایک میں
کیسے حق ادا کریں!
کیا لکھوں۔ کیا لکھوں! ۔ کیا لکھوں۔ کیا لکھوں!
بس تیرے ہی لوگوں کو سینے میں سمائے پھروں
تیرے خار زاروں کو چندن کہا کروں
تیری ہی کوکھ سے ہر بار جنم لیا کروں
دودھ تیرا پیوں، ویر تیرا بنوں
کیا لکھوں۔ کیا لکھوں۔ ! کیا لکھوں۔ کیا لکھوں!

سندھ میری اماں!
تیری ندی کنارے کھیلتا یہ جو بالک ہے
کسی ماں کا تو لال ہے اور نور نظر ہے!
اور وہ بالک جو کل کا معمار ہے
اس کی بولی اور لوری پر واری جاؤں
کیا لکھوں۔ کیا لکھوں۔ ! کیا لکھوں۔ ! کیا لکھوں!
حسن تیرا کروں کیسے بیاں!
سندھ میری اماں!

جو سندھی زبان نہیں سمجھتے تھے وہ بھی ”سندھ میری اماں“ کے الفاظ پر جھوم رہے تھے۔ ہجوم میں سے کوئی نہیں اٹھا یہ کہہ کر کہ سندھ میری ماں نہیں ہے!

میں دیکھ رہی تھی، ارد گرد بیٹھے اردو بولنے والے، سندھی بولنے والے اور انگریزی دان بچے بھی سر دھن رہے تھے اور جھوم رہے تھے۔

اپنے مرشد حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی رحمتہ اللہ علیہ اور مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ کا ذکر کرتے ہوئے بابا گرو نانک کا ذکر بھی کر رہے تھے اور انہوں نے بابا گرو نانک کا ذکر حضرت بابا گرو نانک رحمتہ اللہ علیہ کہہ کر کیا۔ ہجوم میں سے کوئی نہیں کفر کے فتوے کے ساتھ اٹھا!

وہ بھی بڑی بے نیازی کے ساتھ گا رہی تھی کہ میں جانوں، میرا رب جانے، ارے لوگو تمہارا کیا!
ان بولوں پر تو ہجوم کے دل کو جیسے زباں مل گئی ہو!

”من کنت مولا“ سے تو وہ یہ کہہ کر پروگرام شروع کر ہی چکی تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جس کا میں مولا ہوں، اس کا علی مولا ہے۔ ہجوم میں سے کسی سنی کی للکار نہیں سنائی دی کفر کفر کی اور نہ کسی اہل تشیع نے نعرہ حیدری بلند کیا۔ مگر ایک سحر سا سب پر طاری رہا جو رگ رگ میں سرایت کیے جا رہا تھا۔

پھر میزبان کی تقریر میں اپنی ہر تعریف پر بے اختیار اللہ اکبر تو وہ بار بار کہہ ہی رہی تھیں۔ پھر کہنے لگیں۔ انسان ایک بہت بڑا راز ہے کائنات کے سینے میں۔ جسے سوائے اللہ پاک کی ذات کے کوئی نہیں سمجھ سکا۔ عجب گہرا راز ہے انسان!

اچانک میرے ڈرامہ نگار ذہن نے ایک منظر کشی میرے اندر بننا شروع کر دی۔
فرض کرو کہ شہر میں لسانی بنیاد پر بلوا ہو جائے!

فرض کرو کہ سندھی بولنے والے، اردو بولنے والے، پشتو اور پنجابی بولنے والے ایک دوسرے کے خون کی پیاس میں شہر کی سڑکوں پر آدم بو۔ آدم بو کرتے ہوئے نکل آئیں!

فرض کرو کہ شیعہ اور سنی حصول بہشت اور قربت حوران بہشت کے لیے ایک دوسرے پر پل پڑیں!
فرض کرو کہ وہابی صرف اللہ اکبر کہنے والوں کو زندہ چھوڑیں اور باقیوں کو جہنم رسید کر رہے ہوں!

اور فرض کرو ایسے میں عابدہ پروین کی گاڑی ایم اے جناح روڈ پر پھنس جائے اور وہ گاڑی سے اتر پڑے اور بلوائیوں کو دیکھ کر مسکرائے اور ہاتھ جوڑ کر انتہائی عجز و انکساری سے کہے کہ ”اللہ اکبر۔ اتنی خون ریزی! کون ہو! اور کسے مارنا چاہتے ہو! اور کیوں مارنا چاہتے ہو! انسان تو اللہ پاک کی سب سے اعلیٰ تخلیق ہے۔ سبحان اللہ۔ اس تخلیق کے سینے میں اللہ پاک نے عجب راز رکھا ہے۔ اور وہ راز ہے رسول اللہ ﷺ اور مولا علی مشکل کشا کے ہاتھوں انسان کے دل میں اپنے خالق اور اس کی تخلیق سے محبت کی پرورش۔ یہ جو شیعہ لہولہان پڑا ہے سڑک پر، اس کے دل میں وہی رب اور وہی رسول اللہ ﷺ بستے ہیں جو اس لہولہان پڑے سنی کے دل میں بس رہے ہیں اور یہ جو مہاجر فٹ پاتھ پر پڑا تڑپ رہا ہے اسے بھی وہ رزاق اسی سندھ دھرتی سے رزق دیتا ہے، جس سندھ دھرتی کا جایا وہ سامنے اوندھے منہ پڑا ہے۔ میرے مرشد حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی رحمت اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ اے میرے اللہ سائیں۔ سدا سندھ دھرتی کو شاد اور آباد رکھ اور اس کے ساتھ ساتھ اے میرے دلدار رب تمام جہانوں کو بھی سکھی اور آباد رکھ۔ یہ جو پٹھان زمین پر پڑا تڑپ رہا ہے، اپنے جہاں سے اس جہاں میں روزی روٹی کے لیے آیا ہے۔ میرے رب نے ان سب کی روٹی ایک ہی دھرتی میں بو دی ہے۔ اور پھر یہ جو سندھ دھرتی ہے۔ یہ تو ماں ہے سب کی۔ ماں کی چھاتی پر خون مت بہاؤ۔ اس سے محبت کرو۔ سبحان اللہ۔ اللہ پاک نے اس دھرتی کی مٹی بڑی زرخیز بنائی ہے۔ اس کے سینے میں کیسے کیسے بزرگ، اولیا اللہ اور صوفیاء اکرام سو رہے ہیں۔ اس میں محبت کا بیج تو بو کر دیکھو۔ پھر دیکھو۔ اشرف المخلوقات کی کیسی کیسی فصلیں اگتی ہیں۔ یہ جو مختلف بولیوں میں لوریاں دینے والی ماؤں کے لال ہیں۔ یہ اللہ پاک کی نعمت ہیں۔ ماؤں پر اللہ پاک کی رحمت ہیں۔ بڑا بلند درجہ ہے ماں کا۔ ان کے لال یوں مت کاٹ کاٹ کر پھینکو۔ اللہ پاک۔ پنج تن پاک۔ رسول اللہ ﷺ اور مولا علی مشکل کشا کے صدقے۔ سبحان اللہ۔ انسان کتنی حسین تخلیق ہے۔ اس کے حسن کو بد صورت مت کرو۔“

فرض کرو اپنے مخصوص انداز میں عابدہ پروین ہاتھ باندھے، عجز و انکسار کی تصویر بنی بول رہی ہو اور خون آلود منہ والے انسانوں کا مجمع اس کے گرد بالکل ایسے ہی بھیڑ کی صورت امڈا چلا آ رہا ہو، جیسے اس پروگرام میں اسے سننے کے لیے موہٹہ پیلس کے اندر اور باہر لوگوں کا ہجوم بڑھتا جا رہا ہے۔ اور فرض کرو کہ منظر میں خون کی ہولی اچانک تھم جائے اور مجمع اسے حیرت و شوق سے دیکھ رہا ہو، اس وقت ان کی نظر میں اس کی شناخت کیا ہوگی؟

شیعہ؟
سنی؟
وہابی؟
سندھی؟
مہاجر؟

پنجابی؟
پشتون؟
بلوچی؟
ایم کیو ایم؟
پیپلز پارٹی؟
پی ٹی آئی؟
ن لیگ؟
اے این پی؟

میرے ڈرامہ نگار ذہن نے عین اس لمحے اس بن چکے منظر کا کلائمیکس سوچنا شروع کر دیا، جب وہ حضرت شاہ نیاز بریلوی رحمتہ اللہ علیہ کا کلام شروع کر چکی تھی۔

یار کو ہم نے جابجا دیکھا
کہیں ظاہر کہیں چھپا دیکھا
کہیں ممکن ہوا کہیں واجب
کہیں فانی کہیں بقا دیکھا
کہیں وہ بادشاہ تخت نشیں
کہیں کاسہ لیے گدا دیکھا
کہیں وہ در لباس معشوقاں
بر سر ناز و ادا دیکھا
کہیں عاشق نیاز کی صورت
سینہ بریاں و دل جلا دیکھا

کلائمیکس کے منظر میں، میں خون آلود منہ والے انبوہ کو دھیرے دھیرے اس کے گرد بیٹھتا ہوا سوچ رہی تھی۔ جیسے سب اپنے اپنے منہ سے خون پونچھتے جاتے ہوں اور سروں کو عجز و انکساری کے ساتھ زمین کی جانب جھکائے دھیرے دھیرے جھوم رہے ہوں

علی مولا
مولا
علی
علی مولا
من کنت مولا

عین اس لمحے مجھے اپنے اس سوال کا جواب مل گیا جو میں کئی دن سے سوچ رہی تھی کہ ہمارے اندر کا انسان کیوں مر گیا ہے؟

پچھلے کئی دنوں سے اس سوال کا جواب تاریخی، جغرافیائی، مذہبی، معاشی اور معاشرتی تناظر میں ڈھونڈ رہی تھی۔ اور بار بار کئی ابواب پلٹ پلٹ کر ادھورے چھوڑ رہی تھی۔ رات، عابدہ پروین کی صورت میں اچانک مجھے میرے سوال کا جواب میرے ذہن میں بنتے منظر نامے کے کلائمیکس پر مل گیا۔

کہ دراصل اس دھرتی کے صوفی مر گئے ہیں۔ وہ بھی جنہوں نے اس زمین کی مٹی سے نمو پائی اور وہ بھی جو باہر سے راہ فی سبیل اللہ خالق کی تخلیق و مخلوق سے محبت کا پیغام لائے۔

میں نے سامنے اسٹیج پر بیٹھی عابدہ پروین کی چھوٹی سی وڈیو اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر اپ لوڈ کی اور بس اتنا ہی لکھ پائی کہ کراچی میں کچھ بھی ہو رہا ہو مگر عشق ابھی زندہ ہے۔

مگر۔
یہ کسی بھی منظر کا پہلا کلائیمکس تھا جس کے آخر میں، میں نے CUT نہیں لکھا۔

نورالہدیٰ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نورالہدیٰ شاہ

نور الہدی شاہ سندھی اور اردو زبان کی ایک مقبول مصنفہ اور ڈرامہ نگار ہیں۔ انسانی جذبوں کو زبان دیتی ان کی تحریریں معاشرے کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

noor-ul-huda-shah has 102 posts and counting.See all posts by noor-ul-huda-shah

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments