ممتاز نظامانی کا ملھن: سندھی خواتین کی جدوجہد کا لینن گراڈ


سندھی خواتین کی نمائندہ تنظیم سندھیانی تحریک جس نے 1980 کے عشرہ میں جنم لیا وہ سندھی خواتین کی ترقی پسند اور نمائندہ جماعت آگے چل کر پاکستان کی سب سے بڑی خواتین کی سیاسی تحریک بن کر ابھری اور ممتاز نظامانی کا تعلق اسی ہی سندھیانی تحریک سے تھا۔

ممتاز نظامانی سماجی خدمتگار کے طور پے لوگوں کی مدد کرتیں، کوئی بیمار ہو جاتا تو اس کے ساتھ ہسپتال جاتیں، شادی بیاہ کی تقریب کے سارے انتظامات اپنے ذمے لے لیتیں اور اگر کوئی خاتون انتقال کر جاتیں تو اس کو غسل وغیرہ بھی انھی کی ذمہ داری بنتی۔ ممتاز نظامانی کے شوہر پی پی پی کے پکے جیالے تھے۔ انہوں نے بھی بحالِی جہموریت کی جدوجہد میں گرفتاری پیش کی اور ان کو کوڑوں کی سزا بھی ملی۔ اس پورے عرصہ میں ممتاز نظامانی اپنے بچوں کی کفالت کرتی رہیں اور ان کو تعلیم حاصل کرنے میں مدد دیتی رہیں۔ اسی دوران وہ 1988 میں سندھیانی تحریک کی مرکزی کمیٹی کی ممبر منتخب ہو گئیں۔

ممتاز نظامانی کی بیٹی سمرین 35 سال پہلے کی روداد بتاتے کہتی ہیں کہ ”میں پانچویں جماعت میں پڑھتی تھی جب آدھے گاؤں کی خواتین کے ہمراہ ہم لوگوں نے اماں ممتاز کی قیادت میں راھوکی کی طرف پیدل لانگ مارچ کیا اور شہید فاضل راھو کی برسی میں شرکت کی۔ “ حیدرآباد میں نسیم نگر کے علاقہ میں سندھیانی تحریک کا کنوینشن 28 فروری 1992 کو منعقد ہوا تھا جس میں ہزاروں کی تعداد میں سندھی خواتین کا مجع جمع ہوا جن کو اگلے سالوں کے لئے اپنی قیادت منتخب کرنی تھی۔

اس کنوینشن میں سندھی ادیبوں، دانشوروں، شاعروں بشمول شیخ ایاز اور دوسرں نے شرکت کی تھی۔ اسی کنوینشن میں شیخ ایاز کا سندھی اوپیرا ”دودو سومرو کی موت“ بھی سندھیانی تحریک کی پرجوش لڑکیوں نے پیش کیا تھا، انقلابی ٹیبلوز کے ذریعے سماں باندھا تھا اور فنکاروں نے قومی گیت سنا کے حاضرین مجلس کو انقلابی سحر میں مبتلا کر رکھا تھا۔ جب سندھیانی تحریک کی نئی قیادت کا اعلان ہوا تو کسے معلوم تھا کے اس کی نئی صدر صرف تین کلاسیں پڑھی ہوئی، دس بچوں کی ماں، خدائی خدمتگار ممتاز نظامانی بنے گی۔

صدر منتخب ہونے کے ساتھ آپ نے سندھیانی تحریک کو سرگرم کرنا شروع کر دیا اور اسی دوران عوامی تحریک نے اس وقت جام صادق اور ایم کیو ایم کی حکومت کے سندھ دشمن فیصلوں کے خلاف سکھر تا کراچی پیدل لانگ مارچ کا اعلان کیا، جس میں پورا دن تمام شرکا پچیس سے تیس کلومیٹر روزانہ کی بنیاد پہ پیدل سفر کرتے۔ ان کے سیاسی سفر کی ساتھی شمس مارئی ٹالپر ایک رات کا واقعہ یاد کرتے ہو ئے بتاتی ہیں کہ ”جب قافلہ شاہپور جہانیاں کے قریب پڑاؤ ڈال کے ٹھرا تو رات کو قافلہ کے قریب شدید فائرنگ ہوئی جس کی وجہ سے ساری خواتین جنہوں نے دن میں 30 کلومیٹر کا سفر کیا تھا، اٹھ کے بیٹھ گئیں اور ممتاز نظامانی اور زاہدہ شیخ خواتین کو تسلیاں دیتی رہیں اور صبح ہونے تک سب نے سکون کا سانس لیا اور اگلی منزل کی طرف روانہ ہوئیں۔ “

ممتاز نظامانی نے خواتین کو اپنی باقی ساتھیوں کی مدد سے متحرک کیا اور جب یہ مارچ شاہراہِ فیصل کراچی پہنچا تو محترمہ بے نظیر بھٹو بھی اسی لانگ مارچ کے شرکا کو خوش آمدید کہنے کے لئے شاہراہ فیصل پہنچیں اور خواتین کے ایک کلومٹر سے زائد پھیلے جلوس کو دیکھ کررسول بخش پلیجو سے، جو کہ اس لانگ مارچ کی قیادت کر رہے تھے، کہا کہ یہ تو ساری بچیاں ہیں تو پلیجو صاحب نے مسکراتے ہو ئے کہا بچے پیچھے آ رہے ہیں۔

1993 کے قومی انتخابات میں ممتاز نظامانی پی پی پی کے مشھور جاگیردار غفور نظامانی کے سامنے الیکشن لڑیں۔ اسی دوران نظامانی قبیلے کے کئی با اثر لوگ کوشش کرتے رہے کہ ممتاز الیکشن سے دستبردار ہو جائے لیکن وہ آخر تک کھڑی رہیں۔ اپنے، پرائے تمام لوگوں نے ممتاز کے ساتھ بدتمیزی کی، انہیں مجبور کرنے کی کوشش کی کہ کسی طرح وہ صرف الیکشن سے دستبردار ہو جائیں لیکن برداشت کرنا تو کوئی ممتاز سے سیکھے۔ ان کی سیاسی رفیق شہزادی ڈیپر یاد کرتی ہیں کہ ”جب ممتاز سندھیانی تحریک کی کارکنان سے ملنے آئیں تو سارے گاؤں کی خواتین صرف یہ دیکھنے آئیں کہ وہ کون سی خاتون ہے جو شوہر کے بغیر گھوم پھر رہی ہے اور بارہا ان سے پوچھتی رہیں کہ آپ کا شوہر کہاں ہے“۔

ممتاز نظامانی کے صاحبزادہ آصف نے کچھ واقعات بتائے کہ ”ایک دفعہ رات کو گیارہ بجے ایک مقامی کامریڈ سومار سوٹھڑ کے بیٹوں کو پولیس پکڑ کے لے گئی تو امی اسی وقت رات گئے اٹھیں اور بلڑی شاہ کریم تھانے جا پہنچیں اورپولیس کے ساتھ جگھڑا کر کے بچوں کو بازیاب کرایا۔ “ ان کے ایک ساتھی عزیز نے ان سے منسوب ایک بات بتائی کہ لانگ مارچ کے دوران رات کو جب سرہندی پیر کے فارم پہ قافلہ پہنچا تو بارش شروع ہو گئی لیکن پیروں کے لوگوں نے قافلے والوں کو اپنی جگہ میں آنے سے روکا لیکن ممتاز نے دروازہ کو زور سے دھکے دیے اور ان سے کہا کہ گیٹ کھولو شدید بارش ہے، ہمیں ٹھہرنے کی اجازت دو، جو نقصان ہوگا میں بھر دوں گی، اس طرح انہوں نے قافلے والوں کو بارش سے بچایا۔

ممتاز نظامانی خواتین کو متحرک کرنے کی جدوجہد میں سندھ بھر پھرتی رہیں جس کے دوران تھرپارکر جیسے دور دراز صحرائی علاقہ میں سفر کرنے سے آپ کی طبعیت بگڑ گئی اور آخر کار ہیپاٹائٹس سی کی وجہ سے آپ 1995 میں انتقال کرگئیں۔ ممتاز نظامانی کا گاؤں مَلھن پوری سندھ میں خواتین کی آگاہی، سیاسی جدوجہد، خواتین کے سیاسی شعور کی علامت بن گیا۔ 1988 سے لے کر 1995 تک سندھ کے حقوق، پاکستان میں جمہوری تحریک، خواتین کے مسائل پر چلی ہر تحریک میں اس گاؤں نے اپنا حصا ڈالا۔ لیکن ممتاز نظامانی کی وفات کے بعد آہستہ آہستہ ملھن ایسا خاموش ہوا کہ پھر اس کا وہ نام سننے میں نہیں آیا۔

سندھیانی تحریک کی خواتیں کو یے یقین تھا ان کی جدوجہد اور یہ لانگ مارچ بھی وہی سرخ انقلاب برپا کریں گے جو کہ انہوں نے میکسم گورکی اور دیگر شاہکار روسی ناولوں میں موجود منظروں میں پڑھا اور چین میں ہونان کی کسان بغاوت کے داستانوں سے وہ اپنی روحوں سمیت سرخ انقلاب میں اتر چکی تھیں۔ ان کے نزدیک، ان کی ہر جدوجہد، ہر ڈھلتا سورج، ہر طلوعِ سحر سرخ انقلاب کی نوید بن کے آتا تھا۔ اس یقین محکم پہ انہوں نے اپنا رشتہ صرف پارٹی، اپنا ایمان صرف انقلاب، اپنے دن رات صرف جدوجہد، اپنے روشن اور تابناک مستقبل کے لئے انہوں نے حال کی قربانی دے ڈالی اور آخر میں ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے کا نوحہ بن گئیں۔

ممتاز نظامانی کا مَلھن، سندھ کی خواتین کے شعور کا قلعہ، جدوجہد کا لینن گراڈ، کیوں دھڑام کر کے گرا اور اس نے اپنے شاندار ماضی اور جدوجہد سے اپنا رشتہ کیوں توڑ دیا؟ یہ ایک دلچسپ مگر ایک اہم سوال ہے جس کا جواب نا ڈھونڈھنا اس جدوجہد، اس میں اٹھے ایک ایک قدم، لگے ایک ایک نعرے، بیتی ایک ایک جوانی، ٹوٹی امید، گزری داستان اور ممتاز نظامانی کی لازوال، سرفروش باغیانہ کردار اور جدوجہد کے ساتھ زیادتی اورایک گھناؤنا جرم ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).