خود کو بدلیں!


قاصد سے شروع ہونے والے سفر نے آج جدت سے لیس ہو کر اپنے لئے آگے بڑھنے کے لئے ترقی کی نئی راہیں متعین کر لی ہیں دنیا گلوبل ویلج میں ڈھل کر انسانی پوروں میں سمٹ آئی ہے۔ آپ غور کریں کہ کیا یہ سب اپنے آپ کو وقت اور حالات کے تقاضوں کے تحت خود کو تبدیل کیے بغیر ممکن ہو پایا قطعاً نہیں۔ دنیائے عالم میں نت نئے تجربات ’مشاہدات کے بعد دنیا ترقی کے سفر پر گامزن ہوئی ترقی و خوشحالی کے اس سفر کے پس پردہ انسان کی فکری سوچ موجود ہے جس نے دنیا کے بدلتے حالات کے پیش نظر اپنے آپ کو تبدیلی کے سانچے میں ڈھال کر ترقی کے زینوں پر قدم رکھا۔

اقوام عالم کے بدلتے تناظر کے حالات میں دیکھ لیں جن قوموں نے وقت اور حالات کے مظابق خود کو تیار رکھا وہی اقوام ترقی و خوشحالی کی ضامن بن کر ترقی کے خواہشمند معاشروں کے لئے ایک بہترین مثال کے طور پر موجود ہیں اور جس قوم نے دنیا میں آنیوالی تبدیلیوں پر نظر نہ رکھتے ہوئے خود کو تیار نہ کیا تو مؤرخ ایسی اقوام کو پستیوں سے دوچار کرتا نظر آتا ہے۔ ہمسایہ ملک چین جو آج دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی قوت بنتا جا رہا ہے جس سے امریکہ جیسی زمینی سپر پاور نہ صرف خائف ہے بلکہ خود امریکہ اس کے قرض تلے دب چکا ہے۔

چینی قوم نے حالات اور اس کے تقاضوں کے تحت خود کو بدل لیا اور محنت اور وطن کی محبت میں خود کو ڈھال کر چین کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لا کھڑا کیا۔ چینی قوم کی دور اندیشی کا اندازہ آپ ان کے اس قول سے لگا سکتے ہیں کہ اگر آپ ایک سال کی منصوبہ بندی کرنا چاہتے ہیں تو مکئی لگائیں ’اگر آپ دس سال کی منصوبہ بندی کرنا چاہتے ہیں تو درخت لگائیں اور اگر آپ صدیوں کی منصوبہ بندی کرنا چاہتے ہیں تو پھر لوگوں کی تربیت کریں اور ان کو تعلیم دیں۔

پاکستان سے دو سال بعد ماؤزے تنگ کی قیادت میں آزاد ہو کر جمہوری دور میں قدم رکھنے والے چین کی تہذیبی و ثقافتی تاریخ چھ ہزار سال پرانی ہے۔ چینی دنیا کی ناکارہ اور پسی ہوئی قوم تھی جس کے پاس سرے سے کوئی نظام نہیں تھا چین کو بحیثیت ملک سب سے پہلے پاکستان نے تسلیم کیا اور چین کی دھرتی پر سب سے پہلے لینڈ کرنے والا طیارہ پاکستان ائیر لائنز کا تھا یہی نہیں بلکہ چین کا بینکنگ نظام بھی بنانے والا پاکستان کا ایک اکانو مسٹ تھا۔

ماؤزے تنگ جو کہ جدید چین کا بانی تصور کیا جاتا ہے چینی قوم نے ماؤزے تنگ کی قیادت میں محنت کے بل بوتے اور خود انحصاری کو اپنی گرہ سے باندھ کر اس ملک کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کر دیا۔ ماؤزے تنگ جو کہ انگریزی بڑی مہارت کے ساتھ بول سکتے تھے لیکن انہیں انگریزی میں کوئی لطیفہ بھی سنایا جاتا تو وہ اس وقت تک نہ ہنستے جب تک اس کا چینی زبان میں ترجمہ نہ کیا جاتا۔

ماؤزے نے اپنی قوم کے اپنے کردار و عمل سے خیالات و نظریات بدل کر رکھ دیے آج چینی قوم اپنی زبان کے بل بوتے پر دنیا کی منڈیوں پر راج کرتی نظر آتی ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ بلند و بالا عمارتیں چین میں ہیں رقبہ کے لحاظ سے روس ’کینڈا اور امریکہ کے بعد دنیا کا چوتھا بڑا ملک چین ہے چین کی آبادی ایک ارب پینتیس کروڑ ہے لیکن اس کے آج بھی پینتیس ملین سے زائد لو گ غاروں میں رہتے ہیں اور دنیا کا ایک امیر ملک ہونے کے باوجود دس کروڑ سے زائد لوگ آج بھی ایک ڈالر سے بھی کم یومیہ پر گذارہ کرتے ہیں۔

چین کے ستانوے فیصد نوجوان اپنے ملک میں تعلیم حاصل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اس وقت چین میں پچاس ہزار سے زائد ملٹی نیشنل کمپنیاں کام کر رہی ہیں صرف شنگھائی میں پینتیس ہزار ملٹی نیشنل کمپنیاں موجود ہیں۔ چین کی اقتداری سیاست پر آپ نظر دوڑا لیں چین کی کیمونست پارٹی نے بیجنگ میں ایک انسٹی ٹیوٹ قائم کر رکھا ہے جہاں پارٹی اراکین کو متعلقہ شعبوں میں وزیر ’مشیر بنانے اور اور چینی قیادت تیار کرنے کے لئے باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے جس کے پاس اس ادارہ کا سرٹیفکیٹ ہوتا ہے وہی اس عہدہ کے لئے اہل مانا جاتا ہے یہاں تک کہ آنے والے صدر کو پانچ سال قبل ہی صدر بننے کی تربیت دے دی جاتی ہے۔

چین کی ترقی و خوشحالی کے سفر کی تاریخ پر نظر دوڑا لیں چین کی ترقی بہت سے نشیب و فراز سے مزین ہے یہی چین ہے جس نے جنگ عظیم دوئم میں جاپان کے ہاتھوں مارے جانے والے دو کروڑ افراد کے لاشے اپنے ہاتھوں پر اٹھائے 1556 ء میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے باعث آٹھ ہزار بیاسی افراد کو اپنی آنکھوں سے جدا ہوتے دیکھا آج چین کو دیکھ کر دنیا اپنی معاشی سمتوں کا تعین کر رہی ہے۔ چین نے جب دنیا کو دیکھنا شروع کیا تو پاکستان اس کے لئے پہلی کھڑکی بنا تھا آج چین کہاں اور ہم کہاں ہم ترقی و خوشحالی کے دھارے پر گامزن ہونے کی بجائے چین کے در کے ہی مجاور بن گئے۔

یقین اور عمل سے تہی دست قوموں کا مقدر اس مینڈک کے مترادف ہے جو صرف کنوئیں میں ہی ٹرائیں ٹرائیں کر کے اپنے ارد گرد کنویں کی دیواروں کو ہی پوری دنیا سمجھ کر خوش ہوتا ہے۔ ہم بحر و بر کی دنیا میں وقت اور حالات کے تقاضوں کے تحت ہی اپنے آپ کو ڈھال کر پلاننگ کے ساتھ ترقی کی دوڑ میں شامل ہو سکتے ہیں۔ انسانی خیالات اور نظریات کی بھی ایک مدت متعین ہوتی ہے اگر آپ کے خیالات و نظریات وقت اور حالات کے ساتھ نہیں بدلتے تو فکری موت کے ساتھ غیر متوقع تبدیلی کے آتے ہی خیالات و نظریات دم توڑ جاتے ہیں۔

افراد اپنے قول و عمل کے ساتھ قوموں کو ترتیب دیتے ہیں ذاتی اور شعبوں میں انقلاب آپ اپنے آپ کو تبدیل کیے بغیر برپا نہیں کر سکتے آگے بڑھنے کے لئے اپنی ضد ’انا اور تکبر کو آڑے نہ آنے دیں اپنی تما م تر صلاحیتوں اور توانائیوں کو اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے خرچ کر دیں آپ کامیاب ہو جائیں گے۔ اخلاص‘ نیت اور ملک سے محبت کے جذبے میں بندھ کر اپنے کردار و عمل کے ساتھ اس دنیا کی دوڑ میں شامل ہو جائیں اس جہاں میں نئے جہانوں کی بنیاد رکھ دیں پھر آپ کامیاب ہیں پھر ملک میں کوئی بھی سیاسی قیادت ہو کسی کو بھی ملک و ملت کے خلاف فیصلے کرنے کی جرات نہیں ہوگی لیکن اس کے لئے تبدیلی کا آغاز اپنے آپ سے کرنا ہوگا۔

یقین جانئیے جو لوگ فکری سوچ کو تقویت دے کر دنیا کے دوراہے پر کھڑی تبدیلی پر نظر رکھ کر پلاننگ کے ساتھ خود کو تبدیل کر کے شامل کر لیتے ہیں وہ پھر کسان کا بیٹا ابراہم لنکن امریکہ کا صدر ’ایک غلام برصغیر کا پہلا بادشاہ قطب الدین ایبک‘ ایک فوج میں معمولی خادمہ روس کی ملکہ کتھرائن ’اور معمولی کلرک لومیا کانگو کا وزیر اعظم بن جاتا ہے۔ جو قوم آنے والے وقت اور حالات کے مطابق اپنے آپ کو نہیں ڈھالتی پھر ایسی اقوام اور افراد کے زوال کے اسباب ڈھونڈنے کی بھی ضرورت تک محسوس نہیں ہوتی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).