میریٹل ریپ اور ہمارا سماج


حال ہی میں پاکستانی اداکارہ اقرا عزیز نے ایک انٹرویو کے دوران میریٹل ریپ پر بات کی۔ انھوں نے یہ کہا کہ ہمارے سماج میں میریٹل ریپ پر کوئی بات نہیں کرتا کیونکہ یہاں پر اس کو کوئی ریپ سمجھتا ہی نہیں ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ جنسی عمل میں اگر عورت کی مرضی شامل نہ ہو تو وہ ریپ ہی ہے چاہے وہ شادی کے بغیر ہو یا شادی کرنے کے بعد۔

اقراء کو اس موضوع پر بات کرنے پر داد دینی چاہیے کیونکہ اس سے پہلے مارچ میں عورتوں کے عالمی دن پر جب یہاں عورت مارچ منعقد کیا گیا اس میں بھی اسے مختلف نعروں کے ذریعے موضوعِ بحث بنایا گیا۔ جس میں ایک نعرہ ”اپنا بستر خود گرم کر لو“ پر سوشل میڈیا پر بہت لے دے ہوئی۔ اور یہ نعرہ لگانے والی خواتین کو نا صرف برا بھلا کہا گیا بلکہ اوریا مقبول جان جیسے لوگوں کو تو اس سے اپنی مردانگی کی توہین بھی مجسوس ہوئی۔

اب سوال یہ ہی کہ ہمارے سماج میں اس کو ریپ کیوں نہیں سمجھا جاتا اور اس پر بات ہونے سے مردوں کی توہین کیوں ہوتی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب یہاں پر ایک بیٹی کی شادی کی جاتی ہے تو اس کو بتایا جاتا ہے کہ اب تمھارا سب کچھ تمھارا یہ شوہر ہی ہے اور یہ جو بھی تمھارے ساتھ کرے اور جیسے بھی تمہیں رکھے تم نے بس خاموشی سے سب سہنا ہے۔ چاہے گھر کے سارا دن کے کام کرنے کے بعد تم جتنا بھی تھکی ہوئی ہو اور تمھارا دل سیکس کرنے کو نہ بھی چاہ رہا ہو، پھر بھی تم نے اپنے آپ کو اپنے شوہر کی جنسی تسکین کے لیے خود کو اس کے سامنے حاضر کرنا ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی اس جنسی عمل کا حصہ بننا ہے کیونکہ یہ تمھارے شوہر کا تم پر حق ہے اور اگر کبھی اس سے انکار کرو گی تو تم گناہ کی مرتکب ہوگی۔ جس پر تمھیں مارنے پیٹنے کا حق بھی تمھارا شوہر رکھتا ہے۔

کیسی ستم ظریفی ہے کہ ہونا تو یہ چاہیے کہ ریپ کی تعریف کے مطابق عورت کی مرضی اور منشا کے بغیر کیے گئے جنسی عمل کو غلط سمجھا جائے مگر یہاں الٹا اپنی مرضی اور منشا کا اظہار کرنے پرعورت کو ہی مورد الزام ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ اس لیے میریٹل ریپ کے کیسز رپورٹ ہی نہیں ہو پاتے۔

پاکستان پینل کوڈ کے آرٹیکل 376 کے مطابق ریپ کی تو تعریف ہی یہ ہے کہ ایسا جنسی عمل جس میں عورت کی مرضی اور منشا شامل نہ ہو، یا اس کی عمر سولہ سال سے کم ہو اور یا اسے ڈرا دھمکا کر یہ عمل کیا جائے اسے ریپ کہا جائے گا۔ اب چاہے یہ عمل شادی کے بغیر کیا جائے یا شادی کے بعد یہ غلط ہی سمجھا جانا چاہیے مگر جس سماج میں بچیوں کے ریپ ہو جائیں اور مجرموں کو سزا ملنے کے باوجود بھی اس میں کمی نہ آئے وہاں میریٹل ریپ کی بات کون کرے گا اور اسے غلط کون کہے گا۔

اور ہمارے گھٹن زدہ سماج میں جب مرد کی شادی ہونے جارہی ہوتی ہے تو اس کے ذہن پر بھی بس جنسی عمل کی تسکین کرنا ہی سوار ہوتا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ بس شادی کا واحد مقصد ہی صرف یہ ہے۔ اور اس کا جب بھی اور جتنی دفعہ بھی دل کرے گا وہ اپنی بیوی کے ساتھ جنسی عمل کرے گا، چاہے اس میں اس کی بیوی کی مرضی شامل ہو یا نہیں۔ منٹو نے جو کہا تھا کہ ہمارے سماج میں ابھی مرد نے عورت کے ساتھ صرف سونا سیکھا ہے۔ اور واقعی ہی ایسا ہے کیونکہ اگر وہ عورت کے ساتھ جاگنا سیکھتا تو وہ یہ سمجھتا کہ جیسے مرد کے جذبات اور احساسات ہیں ویسے ہی عورت کے بھی جذبات اور احساسات بھی ہیں۔ عورت کی مرضی اور منشا کو عزت دینا اور اس کے خلاف نہ جانا ہی اصل مردانگی ہے۔

مگر یہاں پر تو مردانگی صرف عورت پر اپنا رعب جمانے کو سمجھا جاتا ہے۔ اور اس میں کبھی اس حد تک چلا جایا جاتا ہے کہ بیچاری عورت کو ہسپتال لے جانا پڑتا ہے اس بارے کچھ عرصہ پہلے ایک گائنی کی ڈاکٹر نے ٹویٹ بھی کی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ ان کے پاس میریٹل ریپ کا شکار خواتین کس بری حالت میں لائی جاتی ہیں۔ ڈاکٹروں کے سامنے تو ایسی خواتین اپنا دکھ اور پریشانی بیان کر سکتی ہیں مگر اپنے گھر والوں کے سامنے وہ اگر اس کا اظہار کریں تو الٹا انھیں اپنا گھر بچانے کے لیے چپ رہنے کو کہا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ 2006 میں خواتین کی حفاظت کا قانون آنے کے بعد بھی اس طرح کے کیس رپورٹ نہیں ہوتے ہیں۔ یا یہ مشورہ دے دیا جاتا ہے کہ اگر اتنا ہی اپنے شوہر سے تنگ ہو تو اسے چھوڑ کیوں نہیں دیتی، تو یہ بھی کوئی حل نہیں ہے کیونکہ ہمارے سماج میں عورت گھر چھوڑ کر اور مصیبت میں پھنس جاتی ہے۔

لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میریٹل ریپ کے خلاف آواز نہ اٹھائی جائے۔ اقراء عزیز کی طرح باقی خواتین کو بھی اس کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے۔ اگلے عورت مارچ میں اس سے متعلق اور نعرے آنے چاہئیں۔ اس پر لکھا جائے، پروگرامز کیے جائیں۔ اس پر شور مچے گا، مچنے دیں۔ کیونکہ اس طرح ہی شاید اس سماج کے مرد میں یہ شعور بیدار ہوگا کہ عورت کے ساتھ شادی کے رشتے میں اس کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا مرد کا ہے اور اگر وہ اس میں عورت کی مرضی کی قدر کرے گا اور اس کے احساسات کو عزت دے گا تو اسے بھی عزت ملے گی اور دونوں کا رشتہ بھی خوب صورت اور پائیدار رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).