لاوے، شکار اور کاروبار ریاست


\"alamdarتیتر اور بٹیر کا شکار پاکستان کی فضائیں زہریلی ہونے سے پہلے یہاں کے زندہ دلوں کا محبوب مشغلہ ہوا کرتا تھا۔ اس شکار میں عمومی طور پر آتشیں اسلحہ کا استعمال بہت کم ہوتا تھا۔ شکار کے لئے جال بچھائے جاتے۔ ان جالوں کے نیچے دانا دنکا ڈالا جاتا پھر ان پرندوں کو گھیر گھار کر اور ورغلا کر کے جال کے تلے لا کر اس میں پھانسا جاتا گویا یہ شکار شطرنج جیسا ایک کھیل تھا جس میں ایک سکیم ہوتی تھی اور گھات لگا کر انتطار کیا جاتا۔ دانہ ڈالن کے محاورے کا یہی پس منظر ہے۔ جال سے شناسا پرندے کبھی آگے بڑھتے کہ رزق کی کشش کھینچتی اور پھر پیچھے ہٹتے کہ شاید ایک بار ساتھیوں کے اسی لالچ میں پھنس جانے کا منظر انہیں یاد آجاتا۔ ایسے ہوشیار پرندوں کو پھانسنے کے لئے شکاری ایک اور حربہ استعمال کرتے تھے۔ انھوں نے ایسے تیتر اور بٹیر پال رکھے ہوتے تھے جو اگرچہ پنجروں میں بند ہوتے تھے لیکن ان کو جال کے نیچے رکھ دیا جاتا تھا اور شکاری کی مخصوص سیٹی پر وہ بلند آواز میں اس طرح چہکنے لگتے جیسے آزاد فضا میں گشت کر رہے ہوں اور آزاد پنچھی اس اینکر پرسن کی پکار پر تمام احتیاط بھلا بیٹھتے اور یوں شکاری کا کام آسان ہو جاتا۔ ان پالتو پرندوں کو ہمارے ہاں لاوے یا بلارے کہا جاتا تھا دیگر زبانوں سندھی، پشتو، بلوچی، پنجابی وغیرہ میں ان کے کچھ اور نام ہیں کیوں کہ اس طرح کا شکار ہر جگہ کھیلا جاتا تھا اور یہ معصوم۔ پرندے شکار ہوتے رہتے تھے۔
1980 کی دہائی سے خاص طور پر وطن عزیز کی فضائیں کئی حوالوں سے زہر آلود کی جانے لگیں اور ہمارے ہاں عاقبت نااندشی کی ادارہ جاتی حکومتی انفرادی اور اجتماعی روایت کے راسخ ہونے کے باعث کچھ نہیں سوچا گیا کہ انہی فضاؤں میں سانس خود ہم نے اور ہماری نسلوں نے بھی لینا ہے۔ فصلوں میں زہریلی کیڑے مار ادویات کے سیلاب نے کیڑوں سے زیادہ نقصان ان معصوم اور انسان دوست پرندوں کا ہوا جن کی پناہ گاہیں اب بہت کم رہ گئی ہیں۔ تیتر بٹیر مرغابی بگلے وغیرہ جیسے موسمی مہاجر پرندوں نے بہت حد تک اس پڑاؤ سے منہ موڑ لیا کس طرف؟ واللہ اعلم بالصواب۔۔ کسے بھی سمت کی طرف اشارہ کرنے سے حب الوطنی مشکوک ہوسکتی ہے۔

تو ہم بات مخصوص سیٹی کی آواز پر چہکنے والے اینکر پرسن اور شکاریوں کے ترجمان پرندوں کی کر رہے تھے کہ ہمیں ایک معروف سابق ساستدان اور حالیہ المقبول و المشہور تجزیہ کار سیاست گری کے ماہر سابق پارلیمنٹرین کا یہ مجاہدانہ بیان سن کر یاد آگیا۔ صاحب نے فرمایا کہ اگر کسی نے الطاف بھائی کو ہاتھ بھی لگایا تو اس کے ہاتھ توڑ دیئے جائیں گے وغیرہ وغیرہ۔ اگرچہ وہ بلاوجہ کبھی کچھ نہیں فرماتے لیکن یہ ہمیں سمجھ میں نہیں آیا کہ ان کے الطاف بھائی کو سات سمندر پار ہاتھ لگانے جائے گا کون؟ ہم جیسے عامیوں کو تو وہاں کا ویزہ تک نہیں ملتا اگر حکومت اسلامی جمہوریہ پاکستان نے بعجلت حکومت برطانیہ سے ان کی بے دخلی کا مطالبہ نہ کرنے کا اعلان کر دیا ہے مگر ہمارے ممدوح اور ان جیسے دیگر حق گویوں کی آواز سے آواز ملانے کی جرات کون کون شامت کا مارا کرتا ہے۔۔ ایم کیو ایم والے تو ابھی قائد تحریک کے عظیم الشان تصویری پوسٹروں اور بینروں کے تار تار کر دئے جانے پر بھی چپ ہیں اور عدالتوں میں انتہائی جذباتی اور اونچی آواز میں نعرے لگا کر تحریک پاکستان کے عروج کے دنوں میں اپنے آباء واجداد کے جوش و جذبہ کی یاد تازہ کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی سیاسی طوطا فال کے ماہرین کا کاوبار بھی زوروں پر ہے۔ بے چارے فاروق ستار ڈرتے ڈرتے الطاف بھائی سے الطاف صاحب تک تو آگئے لیکن ساتھ ہی باربار یہ التجا بھی کئے جارہے ہیں کہ ہم پر زیادہ بوجھ مت ڈالئے۔ ہمیں دیوار سے مت لگائیے! لگتا ہے ان کے حوصلے بس جواب دینے ہی والے ہیں۔ گھر بیٹھنے کی بات تو وہ کر ہی چکے ہیں۔ تین چار ایم کیو ایم بننے کی پیش گوئیاں بھی ہو رہی ہیں لیکن ادھر مصطفیٰ کمال ہیں کہ مسلسل دہائی دئے جاتے ہیں کہ بھائیو متحدہ ایک ہی ہے اور وہ الطاف حسین سے الگ نہیں ہو سکتی۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ دیکھو اب تک میری پیش گوئیاں سچ ثابت ہوئی ہیں یا نہیں ؟لیکن ابھی اس سید زادے کی بات کو ماننے والے بہت کم ہیں۔ لیکن ان کا اصرار ہے کہ ہفتے بھر میں سب مانیں گے واللہ اعلم۔۔

بغیر کسی قانونی پابندی کے متحدہ قومی موومنٹ کے سبھی دفاتر سیل اور سرکاری موقف کے مطابق سرکاری جگہوں پر غیر قانونی طور پر تعمیر کردہ دفاتر کو تہس نہس کر کے اس کار خیر کی خوب تشہیر کی جارہی ہے اور ان عمارتوں کے ملبے اور ان میں موجود اشیاء کی لوٹ مار کی فلمیں بھی ہر چینل پر روزانہ پراگریس کے طور پر چلائی جا رہی ہیں۔ اصل پالیسی سازوں میں تو شاید اتنی عقل ہی نہیں کہ یہ سوچیں کہ اس سے عام لوگوں ہی پر نہیں بین الاقوامی رائے عامہ پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہوں گے اور متحدہ کے لئے ہمدردیاں بڑھ سکتی ہیں۔ سر عام کوڑے لگا کر اور مجرم کے منہ کے سامنے لگے لاوڈ سپیکر سے اس کی چیخیں مجمعے کو سنوانے سے جرائم کم ہوتے تو وطن عزیز ضیاالحق کے دور ہی سے جرائم سے پاک ہوکر حقیقی دارلامن بن چکا ہوتا۔

ادھر لگتا ہے کہ گڈ متحدہ اور بیڈ متحدہ کی تقسیم کرکے بیڈ متحدہ سے اخباری زبان میں آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے کیوں کہ وزیراعظم کے ترجمان اور قائد حزب اختلاف دونوں ہی فاروق بھائی کو سپیس دینے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ اب فاروق ستار میں بھائی بننے کی کتنی صلاحیت ہے اس کا اندازہ چند دنوں میں ہی ہونا متوقع ہے۔۔ بہرحال لگتا یہ ہے کہ سیاست دانوں نے بھی کراچی پر قبضہ کی سیاسیانہ لالچ میں عقل کی بجائے کچھ اور صلاحیتوں سے کام لینے کی ٹھان لی ہے۔

ڈاکٹر علمدار حسین بخاری

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر علمدار حسین بخاری

ڈاکٹر علم دار حسین بخاری بہاءالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے بطور پروفیسر اور ڈائریکٹر سرائیکی ایریا سٹڈی سینٹر ریٹائرڈ ہوئے ۔۔ ایک عرصہ صحافت سے بھی تعلق رہا کالم نویسی کی. تنقیدی و تحقیقی مقالات تحریر کئے. افسانہ نگاری و ناول نگاری کی ۔۔ آج کل تصنیف و تالیف پر توجہ ہے۔

alamdar-hussain-bukhari has 5 posts and counting.See all posts by alamdar-hussain-bukhari

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments