گلابی باغ و مقبرہ دائی انگہ


گلابی باغ و دائی انگہ سے منسوب یہ مقبرہ شالامار باغ لاہور کے قریب ہی واقع ہے۔

گلابی باغ جو کہ ماضی میں کافی وسیع تھا اب اس کا فقط ایک دروازہ موجود ہے۔ کنہیا لال ہندی لکھتے ہیں ”وسعت میں یہ باغ بہت بڑا تھا۔ چار طرف چار ڈیوڑھیاں عالیشان بنی ہوئی تھیں اور ایک بہت چوڑا کنواں وغیرہ امارات متعلق باغ کے تھیں وسط میں یہ بارہ دری عالیشان بنائی گئی گویا نمونہ خلد بریں کا بنا۔ دیگر سب عمارتیں غارت گروں نے خاک میں ملا دیں“۔

گلابی باغ کے دروازے پر درج اشعار سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ باغ سلطان بیگ نے تعمیر کروایا تھا۔ سلطان بیگ کون تھا اس کے متعلق صاحب تحقیقات چشتی کہتے ہیں ”بانی اس کا سلطان بیگ برادر عم زاد مرزا غیاث الدین جو قبائل شاہ طہماسپ والی ایران سے، شوہر سلطان بیگم بنت شاہ جہان کا تھا۔ ‏سن 1060 ہ میں ایران سے ہند میں آکر میر بحر پنجاب مقرر ہوا۔ یہ بھی مشہور ہے کہ دو مہینے قبل از جانے شکار کے شاہ جہان بادشاہ ایک بندوق انگریزی اس کو بھیجی تھی۔ کہتے ہیں کہ شکار میں بمقام شیخوپورہ وہ بندوق اس کے ہاتھ سے پھٹ گئی اور اس کے صدمے سے سن ایک ہزار اڑسٹھ ہجری راہی ملک عدم ہو کر شکار قضا ہو گیا۔ “ کہنیالال و سید محمد لطیف نے بھی صاحب تحقیقات چشتی کے درج بالا بیان کی تائید کی ہے۔

مؤرخین لاہور کے مطابق مرزا غیاث الدین شاہ جہان کی بیٹی سلطان بیگم کا شوہر ہے، مگر تاریخ میں اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔ آج بھی لاہور پر لکھنے پر والے لکھاری نور احمد چشتی کی اس روایت کو بلا تحقیق درج کردیتے ہیں۔ سلطان بیگم نام کی شاہ جہان کی کوئی بیٹی نہیں تھی نہ ہی اس لقب کی کسی قابل ذکر خاتون کا عہد شاہجہان کی تواریخ میں ذکر ہے۔ عمل صالح، بادشاہ نامہ از محمد امین قزوینی، بادشاہ نامہ از عبدالحمید لاہوری، شاہ جہاں نامہ از عنایت خان، بادشاہ نامہ از محمد وارث، شاہ جہاں نامہ از محمد صادق خان، مجلس السلاطین از محمد شریف، سفرنامہ ڈاکٹر برنئیر ان تمام کتب میں شاہجہان کے دور کا تذکرہ ہے مگر ان کتب میں شاہجہان کی کسی سلطان بیگم نامی بیٹی کا کوئی ذکر نہیں۔

نقوش لاہور نمبر میں بھی ظفر نامہ شاہجہان کے حوالے سے ثابت کیا گیا ہے کہ سلطان بیگم نام کی شاہجہان کی کوئی بیٹی نہیں ہے۔ لاہور میوزیم بلیٹن میں گلابی باغ پر شائع شدہ ایک مضمون کی مضمون نگار شازیہ مختار صاحبہ نے پروفیسر مسعود الحسن صاحب کا بیان درج کیا ہے کہ ”سلطان بیگم شاہجہان کی نہیں دائی انگہ کی بیٹی ہے اور مرزا غیاث الدین دائی انگہ کا داماد ہے۔ “

یہ باغ تو سلطان بیگ نے ہی تعمیر کروایا مگر اس کے درست حالات زندگی دستیاب نہیں۔ گلابی باغ کے دروازے پر نہایت خوبصورت نقش و نگار کے ساتھ درج ذیل اشعار و عبارات بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔

دروازے کی پیشانی پر درج اشعار :

بانی باغ سخاوت فاتح باب کرم

آن کہ از داراے گردوں ساخت باغ چون ارم

اہل معنء بردوامش خواستند از حق دعا

بیگ سلطان را الہٰی دار دایم محترم

ترجمہ:

”اس باغ سخاوت کے بانی اور مہربانی کے دروازہ کو کھولنے والے وہ ہیں جنہوں نے خدا کی رضامندی سے باغ بہشت کی مانند یہ باغ بنوایا ہے۔ لہذا انہوں نے اللہ تعالی سے اپنی درازی عمر کے لئے دعا کی۔ خدایا سلطان بیگ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محترم رہے۔ “

محرابی دروازے کے دائیں اور بائیں جانب درج اشعار ”

خوش آ باغ کہ دارد لالہ داغش

کلی خورشید و مہ زیبد چراغش

ز تقویم خرد پرسید غازی

کلابی باغ شد تاریخ باغش

۔ 1066۔

ترجمہ:

”کیسا دلکش باغ ہے۔ یہ باغ اتنا خوبصورت ہے کہ پوست پر رشک کا نشان لگایا گیا ہے۔ چاند اور سورج کے پھول اس میں چراغوں کی مانند لگائے گئے ہیں۔ غازی نے اس کی تاریخ کے بارے میں دریافت کیا تو اس کو گلابی باغ کی تاریخ دی گئی۔ “

(ترجمہ سید منہاج الدین)

سب سے اوپر درج ہے :

افضل ذکر لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ

اس کے دائیں اور بائیں جانب بیرم خان کے معروف شعر کا ایک ایک مصرع درج ہے :

محمد عربی کا بروی ہر دوسرا ست

کسی کہ خاک درش نیست خاک برسراو

مترجم مآثر رحیمی عبدالباقی نہاوندی نے اس کا منظوم ترجمہ یوں کیا ہے :

محمد عربی ہیں دونوں جہان کی عزت

جو نہیں آپ کا غلام اس کے لیے ہے ذلت

باغ کے دروازے سے داخل ہوں تو چند قدم کے فاصلے پر ایک مقبرہ ہے۔ کہنیالال و سید لطیف کے مطابق یہ مقبرہ دائی انگہ کا ہے۔ شیخ نوید اسلم، مدثر بشیر، ڈاکٹر انجم رحمانی و نقوش ”لاہور نمبر“ میں بھی اس کو مقبرہ دائی انگہ بتایا گیا ہے۔ محکمہ آثار قدیمہ نے بھی مقبرہ دائی انگہ کے نام کی تختی لگائی ہوئی ہے۔ دائی انگہ کے حالت زندگی کا مختصر تذکرہ نور احمد چشتی نے مسجد دائی انگہ کے مضمون کے ذیل میں یوں کیا ہے ”یہ دائی خاص حضرت شاہ جہاں بادشاہ (کو) دودھ پلائی تھی۔

اس واسطے اس کا نام دائی انگا مشہور ہے کیونکہ زبان اردو میں انگا دودھ پلائی کو کہتے ہیں۔ اصلی نام اس کا زیب النساء تھا۔ قوم (سے ) یہ زیب النساء شریف خاندان مغل سے تھی۔ خاوند اس کا مراد خان بعہد حضرت جہانگیر بادشاہ چندے عدالتی بیکانیر رہا اور محمد رشید خان فرزند سعید اس کا بڑا بہادر فن تیراندازی میں مشہور تھا سو حضرت داراشکوہ کی لڑائی میں مارا گیا۔ بعد اس کے ایک لڑکی اس کی مسماۃ نیک اختر باقی رہی جس کی بابت مشہور ہے کہ شہزادہ محمد مراد خلف حضرت عالمگیر بادشاہ کی انگا تھی۔ زیادہ اس سے کچھ اور حال اس کا واضح نہ ہوا۔ ”صاحب تحقیقات چشتی نے سلطان بیگ کے حالات میں لکھا ہے“ قبر اس کی معلوم نہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ بطرف شمال موضع کوٹ خواجہ سعید واقع ہے اور کوئی کہتا ہے کہ متصل باغ ہذا دفن ہوا۔ ”

معروف محقق ڈاکٹر عبداللہ چغتائی کے مطابق یہ مقبرہ دائی انگہ کا نہیں۔ تاریخ اماکن لاہور میں لکھتے ہیں ”مؤرخین لاہور نے عام طور پر اسے مقبرہ دائی انگہ بیان کیا ہے جو ان کے نزدیک شاہجہان کی دایہ تھی مگر اس کا کہیں کسی تاریخی شہادت سے کوئی ٹبوت نہیں ملتا۔ جبکہ ہمارے پاس کوئی خاص شہادت بھی نہیں ہے (تو) میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ مقبرہ دراصل بانی گلابی باغ سے تعلق رکھتا ہے کیونکہ یہی موقع تدفین اسی کا ہوسکتا ہے تھا جس کا تعلق گلابی باغ سے تھا ویسے تعمیری خصوصیات کے اعتبار سے بھی یہ مقبرہ مردانہ ہے کیونکہ اس زمانہ میں جتنے بھی زنانہ مقبرے تعمیر ہوئے ان میں تہہ خانے تھے۔

” مگر مقبرے میں ایک کی بجاے دو قبریں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ جو کہ بناوٹ کے اعتبار سے یکساں ہیں۔ اگر ایک قبر سلطان بیگ کی ہے تو دوسری کس کی ہے؟ سید لطیف نے ذکر کیا ہے کہ“ اس عمارت کے نیچے تہہ خانے بھی ہیں۔ ان کے راستے کو بند کردیا گیا ہے لیکن ان کو بالائی سطح سے دیکھا جاسکتا ہے۔ ”مگر اب تہہ خانے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ جو لوگ اس کو دائی انگہ کا مقبرہ بتاتے ہیں ان میں بعض کے مطابق دوسری قبر دائی کی بیٹی یا بیٹے کی ہے، جبکہ دیگر نے دوسری قبر دائی کے شوہر مراد خان کی بتائی ہے۔ اب حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ مقبرہ کس کا ہے۔ دائی انگہ کے متعلق تحقیقات چشتی کے علاوہ ماضی کی کسی کتاب میں کوئی تحریر نہیں ملتی۔ بعد کی دیگر جن کتب میں ذکر ہے بھی تو ان کا ماخذ بھی تحقیقات چشتی ہی ہے۔

گلابی باغ اور اس کے قریب ہی واقع اس مقبرہ کی حال ہی میں مرمت کی گئی ہے۔ پی ایچ اے نے بہت محنت سے یہاں پھول لگائے ہیں اور باغ کی رونق بحال کرنے کی کوشش کی ہے۔ شالامار باغ میں جب میلہ لگتا تھا تو گلابی باغ میں پولیس چوکی بنائی جاتی تھی اور جب میں گلابی باغ دیکھنے گیا تو میلہ تو نہیں لگا ہوا تھا مگر ریسکیو 1122 کے اہلکار باغ میں موجود تھے۔ معلوم کرنے پر انہوں نے بتایا کہ وہ یہیں پائے جاتے ہیں۔ مقبرے کے پیچھے چند بے فکر نوجوان تاش کھیلنے میں مگن تھے۔

مقبرے کے اندر سورہ فتح کی آیات درج ہیں اور آخر میں کاتب کا نام محمد صالح اور سال 1086 ہ تحریر ہے۔ درمیان میں دو قبریں ہیں جن پر کوئی کتبہ نہیں۔ ہوسکتا ہے ماضی میں صاحب مقبرہ کے متعلق یہاں کوئی تختی موجود ہو مگر کہنیالال کے بقول ”دیگر سب عمارتیں غارت گروں نے گرا کر خاک میں ملادیں، قبر کا تعویذ جو سنگ مرمر کا تھا وہ بھی اکھاڑ لیا گیا۔ “ باغ کو بحال کرنے کی کوشش تو کئی گئی ہے اور پی ایچ اے کا کام بھی یقیناً مثالی ہے مگر پھر بھی مزید بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ محکمہ آثار قدیمہ کو چاہیے کہ صاحب مقبرہ کے متعلق تحقیق کروائے اور یہاں معلوماتی تحتی بھی لگائے۔

لاہور میں موجود احباب اور لاہور کی سیر کرنے آنے والے سیاح شالامار باغ دیکھنے ضرور جاتے ہیں۔ تو ان سے گزارش ہے کہ شالامار کے قریب ہی موجود اس شاہکار کی بھی زیارت ضرور کریں۔ اور بچوں کو لازمی ساتھ لے کر جائیں تاکہ ان میں اپنی تاریخ کو جاننے کا شوق پیدا ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).