مقبرہ مولانا محمد حسین آزاد


مولانا محمد حسین آزاد کی قبر امام بارگاہ کربلا گامے شاہ لاہور کے اندر ہے۔

مولانا محمد حسین آزاد کے روز پیدائش اور سن پیدائش میں اختلاف ہے۔ کچھ لوگوں نے آپ کا سن پیدائش 5 مئی 1827 ء لکھا ہے جبکہ زیادہ تر سوانح نگاروں نے آپ کا سن پیدائش 10 جون 1830 ء درج کیا ہے۔ آپ کے والد مولوی محمد باقر کے دوست ابراہیم ذوق نے ”ظہور اقبال“ سے آپ کی تاریخ ولادت نکالی اور آپ کا نام محمد حسین رکھا۔ مولانا آزاد کے خاندان کا علم و ادب سے پرانا واسطہ تھا۔ آپ کے والد مولوی محمد باقر ”دہلی اردو اخبار“ نکالتے تھے۔

مولانا کی ابتدائی تعلیم ابراہیم ذوق کے سایہ عاطفت میں ہوئی۔ فروری 1845 ء میں آپ دلی کالج میں داخل ہوئے۔ استاد ذوق کے شاگرد ہونے کے باعث آپ بڑے بڑے مشاعروں میں شریک ہوتے اور آپ کو ادب سے دلچسپی بھی ہو گئی۔ 1857 ء میں آپ کے والد کو قتل کردیا گیا اور آپ دہلی سے لکھنو آگئے۔ 1860 ء میں رجب علی کے اخبار مجمع البحرین کے دفتر میں ملازمت کی اور پھر 1861 ء میں لاہور تشریف لے آئے۔ مولانا نے مختلف ملازمتیں کیں اور پھر 1869 ء گورنمنٹ کالج لاہور میں عربی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔

آپ نے انجمن پنجاب کے قیام میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ 1885 ء میں آپ نے ایران کا سفر کیا اور 1887 ء میں آپ کو ملکہ وکٹوریہ کی جوبلی کے موقع پر شمس العلماء کے خطاب اور خلعت فاخرہ سے نوازا گیا۔ مولانا کافی باہمت انسان تھے۔ آپ کی زندگی کی داستان کچھ عجب ہے، آپ کم عمر تھے کہ والدہ کا انتقال ہوگیا پھر آپ کے والد کو گولی مار دی گئی، آزادی کی سانس لینے کے لیے آپ کو میلوں پیدل سفر کرنے پڑے، آپ کی بڑی بیٹی جس سے آپ کو بے حد محبت تھی اور وہ آپ کے تصنیفی کاموں میں بھی آپ کی معاون تھی عین عالم شباب میں چل بسی، آپ نے اپنے آٹھ بچوں کو اپنی حیات میں دنیا سے رخصت ہوتے دیکھا۔ آپ کی عمر بڑھتی جارہی تھی اور کام کا دباؤ تھا مسلسل محنت اور بیٹی کے انتقال کے صدمہ سے متاثر ہوکر مولانا آزاد 1889 ء مختل الحواس ہوگئے۔ جنوں کی یہ کیفیت آپ پر آپ کی وفات تک طاری رہی۔

مولانا آزاد نے بے شمار کتابیں لکھیں۔ بقول پروفیسر احتشام حسین اردو ادب کو پر و بال عطا کرنے والوں میں ایک بڑی شحصیت مولانا آزاد کی ہے۔ مہدی الافادی نے تو آپ کو اردو کے عناصر خمسہ میں شمار کیا ہے۔ ”آب حیات“ آپ کی لازوال کتاب ہے کہا جاتا ہے کہ یہ اردو شاعری کی پہلی باقاعدہ تاریخ ہے۔ اسی طرح آپ کی کتاب ”نیرنگ خیال“ کو بھی بے مثل کارنامہ قرار دیا جاتا ہے۔ آپ کی تحریر کردہ ”دربار اکبری“ ہو یا ”قصص ہند“ ہر کتاب نے شہرت حاصل کی۔ پروفیسر نور الحسن فاروقی آپ کی نثر کے متعلق کہتے ہیں ”طرز تحریر کے معاملے میں آج تک مولانا کا ثانی پیدا نہیں ہوسکا۔ ان کے اسلوب میں سادگی و شیرنی گھل مل گئی ہے۔ تصویر کشی میں انہیں مہارت حاصل ہے۔ ان کی تحریر میں عجب طرح کا جادو ہے جو کچھ کہتے ہیں فوراً قاری کے دل میں اتر جاتا ہے۔ “

آپ کی ادبی خدمات اور ادب میں آپ کے مقام و مرتبہ کا اندازہ رام بابو سکسینہ کے درج ذیل بیان سے لگایا جاسکتا ہے ”اردو نثر نگاروں میں آزاد کی ایک بہت دقیع اور بہت نمایاں ہستی ہے، بحیثیت بانی تحریک جدید ہونے کے، بحیثیت جدید طرز کے شاعر کے، بحیثیت ایک فارسی اسکالر کے جو قدیم رنگ کے ساتھ جدید رنگ کے بھی بڑے ماہر تھے۔ بحیثیت ایک ماہر تعلیم کے، بحیثیت ایک اعلی مضمون نگار، ناقد و مشہور پروفیسر اور مصنف کے اور حامی اردو و زبردست مقرر کے آزاد اپنے زمانے میں عدیم المثال تھے۔ “

جہاں مولانا کی بے پناہ تعریف و توصیف کی گئی ہے وہاں مولانا کے علمی کاموں میں خامیوں کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔ مولانا کی معروف کتاب ”آب حیات“ پر بہت تنقید ہوئی ہے۔ ڈاکٹر سلیم اختر ”آب حیات“ کے متعلق لکھتے ہیں ”مولانا تحقیق کے مرد میدان نہ تھے اس لیے اس میں بے شمار غلطیاں ہی نہیں بلکہ تحقیقات کے پھیلتے دائرے نے بہت سے باتوں اور آراء کو تو متروک بھی بنا دیا۔ “ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آزاد نے اس کتاب میں تعصب اور جانبداری سے کام لیا ہے جس کی واضح مثال استاد ذوق پر مضمون ہے۔

حافظ محمود شیرانی صاحب کے مطابق مولانا نے بہت سے مواد بغیر حوالہ درج کیے میر قدرت اللہ خان قاسم کی تالیف ”مجموعہ نغز“ سے لیا ہے۔ حکیم عبدالحئی نے ”گل رعنا“ میں بھی آب حیات پر کافی تنقید کی ہے۔ آزاد کی کتاب ”نیرنگ خیال“ کو سرقہ شدہ کہا گیا ہے۔ علی عباس حسینی لکھتے ہیں ”آج تحقیق نے ثابت کردیا ہے کہ آزاد کے یہ تمثیلی مضامین انگریزی مضامین کے چربے ہیں۔ “ ڈاکٹر صادق نے نیرنگ خیال اور سخن دان فارس کو بھی سرقہ شدہ قرار دیا ہے۔

اسی طرح مولانا آزاد کے مرتب کردہ دیوان ذوق پر بے شمار اعتراضات ہیں۔ ڈاکٹر تنویر نے داغ دہلوی کے ایک خط کا ذکر کیا ہے جس میں وہ شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ ”جو قصائد استاد کے نئے دیوان میں چھپے ہیں وہ ایک شخص کے پاس یہاں بھی ہیں، آزاد نے بطور خود بعض جگہ بہت تصرف کیا ہے۔ “ ڈاکٹر اسلم فرخی نے آزاد کا کافی دفاع کیا یے لیکن اس معاملے میں وہ بھی فرماتے ہیں کہ ”ممکن ہے ہم لوگ دیوان ذوق کے سلسلے میں آزاد کی دراز دستیوں کو کبھی معاف کردیں لیکن یقین ہے کہ عالم بالا میں ذوق نے انہیں ہرگز معاف نہ کیا ہوگا۔ اگر آزاد دیوان ذوق مرتب نہ کرتے تو یقیناً وہ ذوق کے ساتھ بڑا احسان کرتے۔ “

ڈاکٹر گیان چند نے اپنی کتاب ”اردو کی ادبی تاریخیں“ میں آزاد پر طویل بحث کی ہے۔ ڈاکٹر گیان چند آزاد کے متعلق کہتے ہیں ”جو شخص ایک پرانی رباعی کو سودا سے منسوب کرکے فاخر مکین کی ہجو بنا دیتا ہے، جو بیدل اور جعفر زٹلی کے بیچ کے معاملے کو جعفر اور سودا کا معاملہ بنا دیتا ہے۔ جو قاسم کی منشاء کے برعکس مرزا مظہر جان جاناں کے قاتل کو سنی قرار دیتا ہے جو جھوٹ موٹ معرکے تصنیف کرتا ہے یا تذکروں سے بے ضرر مسابقتوں کو اٹھا کر معرکوں میں تبدیل کردیتا ہے، جو یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ وہ بیس سال تک دن رات ذوق کی حضوری میں رہا، حالاں کہ ذوق کے انتقال کے وقت اس کی عمر تقریباً ساڑھے چوبیس سال تھی، جو خود غزلیں کہہ کر ذوق کے نام سے ان کے کلام میں شامل کردیتا ہے، وہ دور دور تک محقق نہیں ادبی جعل ساز ہے۔ “ اسی طرح حامد حسن قادری آزاد کے متعلق کہتے ہیں ”آزاد کی یہ عجیب عادت ہے کہ اپنی رائے کی تائید میں یا اپنے مفروضات کو ثابت کرنے کے لیے یا اپنے پسندیدہ یا نا پسندیدہ شخص کی مدح و ذم کی خاطر کبھی واقعات فرض کرلیتے ہیں، کبھی خلاف واقع نتائج اخذ کرلیتے ہیں۔ “

مولانا محمد حسین آزاد 22 جنوری 1910 ء کو خالق حقیقی سے جا ملے۔ اس دن تقریباً ہندوستان بھر میں تعطیل کا اعلان ہوا۔ دوسرا دن عاشور کا تھا اس لیے انتقال کے تیسرے روز 11 محرم کو کربلائے گامے شاہ لاہور میں سپرد خاک ہوئے۔ یہاں پر اکثر آزاد سیر کے لیے آتے تھے اور یہ جگہ انہیں بے حد پسند تھی۔ مولانا آزاد کی وفات پر مولانا حالی کا قطعہ تاریخ قابل مطالعہ ہے اس کا آخری شعر کچھ یوں ہے :

تاریخ وفات اس کی جو پوچھے کوئی حالی

کہہ دو، کہ ہوا خاتمہ اردو کے ادب کا

مولانا کی قبر پر کچھ عرصہ قبل حاضری دی۔ مولانا کی قبر کربالائے گامے شاہ کے اندر موجود قبرستان میں ہے۔ مولانا کا مقبرہ مختصر مگر خوبصورت ہے ایک چھوٹا سا سنگ مرمر کا گنبد ہے جس پر کبھی سنہری کلس ہوتا تھا۔ قبر بھی سنگ مرمر کی ہے۔ مولانا کی قبر کے ارد گرد کافی گند تھا اس کے علاوہ قبر پر اتنی دھول مٹی تھی کہ کچھ پڑھا نہیں جا رہا تھا۔ قبر کی تختی کو جیب میں موجود رومال کو گیلا کر کے صاف کرنے کی کافی کوشش کی مگر کچھ داغ نہایت پکے تھے لیکن تختی پر درج الفاظ نظر آنا شروع ہوگئے۔

ارد گرد سے بھی کچھ کچرا اٹھایا۔ یہ حال اس شخص کی قبر کا تھا جس کے متعلق حضرت کیفی دہلوی نے فرمایا تھا ”جس طرح وینس کو بائیرن کی آخری آرام گاہ ہونے کا فخر حاصل ہے اسی طرح لاہور کو ان کی (مولانا آزاد) کی جائے مزار ہونے کا اعزاز رہے گا۔ “ مولانا کی قبر پر سید محمد محسن متین صاحب کا تصنیف کردہ قطعہ تاریخ کندہ ہے۔ مزار کے لیے سرخ پتھر استعمال کیا گیا ہے۔ مزار کی مئی 2003 ء میں بحالی بھی ہوئی تھی اس حوالے سے وہاں ایک تختی بھی لگی ہوئی ہے جس پر درج ہے ”آغا حسین آزاد اور ضیاء حیدر رضوی نے بطور خاندانی خراج تحسین بحال کرایا۔

” مولانا آزاد بلاشبہ اردو ادب کی ایک اہم ہستی ہیں۔ علامہ شبلی نے آپ کے متعلق فرمایا تھا کہ“ آزاد گپ بھی ہانک دے تو وحی معلوم ہوتی ہے۔ ”مولانا آزاد خوبیوں اور خامیوں کا مجوعہ تھے اور ایسا ہر شخص میں ہوتا ہے کوئی بھی انسان مکمل طور پر درست نہیں ہوسکتا آپ کے متعلق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ“ محمد حسین آزاد نے اُردو تنقید نگاری کی بنیاد رکھی ٹیڑھی، مگر پھر بھی کیا کم ہے کہ انہوں نے بنیاد رکھی تو۔ ”خیر اردو ادب سے دلچسپی رکھنے والوں اور تاریخ سے دلچسپی رکھنے کو بھی مولانا کی قبر پر حاضری دینی چاہیے۔ لواحقین اور قبرستان انتظامیہ سے درخواست ہے کہ قبر کی مناسب دیکھ بھال اور حفاظت پر توجہ دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).