عید کیسے گزاری جائے؟


رمضان کا بابرکت مہینہ اپنے اختتام کو ہے۔ عید سعید کی آمد آمد ہے۔ بازاروں کی رونقیں اپنے عروج پہ ہیں۔ ہر طرف ایک چہل پہل سی نظر آرہی ہے۔ جس کو دیکھو عید کو بھرپور طریقے سے منانے کے لیے خریداریوں میں مصروف ہے۔ گراں فروشی اپنے عروج پہ ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ مہینہ جس میں اشیائے خوردونوش کی قیمتیں معمول سے کم ہونی چاہیں تھیں، اسی مہینے میں قیمتیں دوگنا تک پہنچی ہوئی ہیں۔ غیر مسلم معاشروں میں رمضان کا احترام مسلمانوں سے زیادہ کیا جا رہا ہے جبکہ مسلمان اپنے بھائیوں کا خون چوسنے میں مصروف ہیں۔

عید الفطر وہ تہوار ہے جو پورے اسلامی سال کا سب سے زیادہ خوشیوں بھرا تہوار ہے۔ بیسویں صدی کے اواخر تک پاکستان میں عید ہر طرف خوشیاں لاتی تھیں اور امیر طبقہ غربا کو عید کی خوشیوں میں شامل کرتا تھا مگر جب سے سوشل میڈیا کا دور آیا ہے، وہ حقیقی خوشی مفقود نظر آتی ہے۔ دکھاوے کی دوڑ میں غریبوں کی خودداری پامال کی جاتی ہے۔ چند سو روپے کی مدد کو سوشل میڈیا پر تصویروں کی صورت میں بھرپور دکھاوا کیا جاتا ہے اور اس طرح غربا اور مساکین میں احساس کمتری دن بدن بڑھ رہا ہے۔

ایک اور بڑا مسئلہ عید کی تیاریوں کے نام پر بے انتہا فضول خرچی ہے۔ ہر شخص کی خواہش ہے کہ عید کے دن اس کی دولت کی دھاک دوسروں پر بیٹھ جائے اور اس کے اجلے کپڑے اور چمکیلی گاڑی سب سے نمایاں ہو۔ اس چکر میں وہ لوگ جو معاشرے کے متوسط یا غریب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، سب سے زیادہ پس رہے ہیں۔ اپنے بچوں کو احساس کمتری سے بچانے کے لیے والدین قرض اور نہ جانے کن کن مصیبتوں کو گلے ڈال لیتے ہیں جو ان کی زندگی اجیرن کردیتا ہے۔ فی زمانہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ اپنی انا کی تسکین کے لیے ہر حد تک چلے جانے کا رجحان ہے۔ ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی ہم ہر وہ کام کر گزرتے ہیں جس سے ہمارا نام معاشرے میں اونچا ہو چاہے اس کے لیے جس قدر مرضی کرب سے گزرنا پڑے۔

چاند رات کو ہمارے شہروں میں جو طوفانِ بدتمیزی برپا ہوتا یے وہ المناک ہے۔ ساری رات شاہراہوں پر مخلوقِ خدا کی زندگیاں اجیرن کرتے نوجوان ہمارا مکروہ چہرہ ہیں۔ خواتین کو بازاروں میں شدید ہراسمنٹ کا نشانہ بنانا چاند رات پر ہمارے نوجوانوں کا محبوب مشغلہ ہے۔ موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کے سائلنسر نکال کر سڑکوں پر بے پناہ شور مچانا اس رات کی سب سے بڑی تفریح ہے۔ ایک مسلم معاشرہ ہونے کے ناطے یہ انتہائی شرمناک ہے۔

وہ دن گئے کہ جب عیدالفطر صحیح معنوں میں خوشیوں سے بھرا ایک تہوار ہوتا تھا۔ لوگ اپنی خوشیوں میں دوسروں کو شریک کرتے تھے۔ ہر گھر میں بننے والے پکوان پورے محلے میں بانٹے جاتے تھے۔ عید کی نماز کے موقع ہر اتحاد اور یگانگت کا وہ مظاہرہ ہوتا تھا کہ دنیا حیران رہ جاتی تھی۔ آج ایک ہی ملک میں دو مختلف دن عید منائی جاتی ہے۔ ہر مسجد اور محلے میں عید کا وقت، طریقہ سب الگ الگ ہے۔ ایک فرقے کی مسجد میں دوسرے فرقے کے لوگوں کو عید پڑھنے کی اجازت تک نہیں ہے۔ ہر محلے کی اپنی مسجد ہے اور اس پہ بھی صاحبِ حیثیت لوگوں کا قبضہ ہے۔

یہ صورتحال نہ صرف افسوسناک بلکہ شرمناک ہے۔ ہمیں اپنی معاشرتی اقدار پہ نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری عیدیں اور دوسرے مذہبی تہوار صحیح معنوں میں خوشیوں کا موجب ہوں تو ہمیں فرقہ واریت اور جعلی نمود و نمائش کے چکر سے باہر نکلنا ہوگا اور اتحادِ امت اور سادگی کو شعار بنانا ہوگا۔ اگر ہم بطورِ معاشرہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو وہ دن لوٹ آئیں گے جب عطاءالحق قاسمی کے بقول

سب چھتیں ساتھ ہوتی تھیں، ایک چھت کا گمان ہوتا تھا

شادیاں جب گلی میں ہوتی تھیں، ہر کوئی میزبان ہوتا تھا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).