فواد چوہدری کو جادو کی جھپی دو


وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی محترم فواد چوہدری صاحب نے چند روز قبل دیے ایک انٹرویو کے دوران اچانک ”منتخب لوگوں اور بغیر مشاورت فیصلوں“ کے بارے میں بیان دے کر سیاسی حالات کی نبض پر ہاتھ رکھنے والے تمام تجزیہ کاروں کو چونکا دیا۔

مشرف صاحب کے دست شفقت تلے سیاسی قد کاٹھ بنانے والے فواد چوہدری مشرف کے بعد ہوا کا رخ پی پی کی جانب محسوس کرتے ہوئے فوراً زرداری کے جیالے بن کر دشمنوں پر جے ایف تھنڈر کی طرح حملہ آور ہوئے تھے۔ عقل و دانش اور وقت سے پہلے سیاست کا بدلتا رخ بھانپتے چوہدری صاحب نے ایک بار پھر ”ہما“ کو عمران کے سر پر منڈلاتے دیکھا تو کپتان کی ٹیم کا حصہ بن کر نواز لیگ کو اپنی مدلل گفتگو اور دلائل سے لاجواب کر دیا۔ ان کی گفتگو سے عام انسان اختلاف رکھ سکتا ہے مگر سیاست میں لیڈرز کو ایسے چیتوں کی شدید ضرورت رہتی ہے جو ہر حال میں اپنی جماعت اور لیڈر کا دفاع کریں۔

اس میں فواد چوہدری کتنے کامیاب تھے یہ سارا پاکستان جانتا ہے۔ سلیم صافی کے ایک پروگرام میں پی پی کے مصطفی کھوکھر اور مسلم لیگ کے ترجمان مصدق ملک نے اِن کی تبدیلی کو اپنے لیے نیک شگون قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ”مبارک ہمیں دیں کہ ہماری جان اِن سے چھوٹی“ بے ساختہ بولا یہ ایک جملہ مخالفین پر طاری اُن کی دہشت بتانے کو کافی ہے۔

سپریم کورٹ پر حملے کے بعد طارق عزیر نے بڑے اداس لہجے میں ایک تاریخی جملہ کہا تھا کہ ” سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا“ ان تمام صلاحتیوں کے باوجود جب فواد چوہدری سے وزارتِ اطلاعات و نشریات واپس لی گئی تو عوام کو یہ جملہ اِس کی روح کے مطابق سمجھے میں آسانی ہوئی۔

فردوس عاشق اعوان کو بیرونِ ملک سابقہ آنر ابیل چیف چیسٹس کے ساتھ ڈیم فنڈ کے لیے تگ و دو کرتے دیکھ کر سیاست کی الف بے سے نا واقف ایک عام ووٹر کو بھی حیرت ہوئی تھی۔ جس کا خوشگوار اختتام ایک ماہ بعد ہی ہو گیا۔

محترمہ فردوس عاشق اعوان صاحبہ پنجاب کے ایک بہادر نڈر اور کثیر آبادی رکھنے والے قبیلے سے تعلق رکھتی ہیں اور اُنھوں نے سابقہ ادوار میں یہ ثابت کیا کہ وہ گلی محلے اور برادری لیول کی سیاست کو نا صرف اچھی طرح سمجھتی ہیں بلکہ انھوں نے جنرل الیکشن لڑ کر سالہا سال سے علاقے میں قدم جمائے سیاسی مخالفیں کی بنیادیں بھی ہلا کر رکھ دیں۔ اُن کا انتخاب برائے وزیر اطلاعات نہایت موزوں ہے مگر لوگوں کو اُن کے منتخب نہ ہونے پر اعتراض ہے نا کہ اُن کی صلاحیتوں پر۔

شاید فواد چوہدری اِس تبدیلی کو بھی جمہوریت کا حسن قرار دے کر کڑوا گھونٹ بھرجاتے مگر سوشل میڈیا، مین میڈیا اور اسمبلی میں اُن کے بارے میں طنز ومزاح سے بھرپور جملہ بازی نے اِس شوخ و چنچل نوجوان کو بھی سنجیدہ کر دیا اور وہ ایک ٹی وی انٹرویو میں اپنے دل کی بھڑاس نکال بیٹھے۔

اکثر سیاست دان اِس انٹرویو کو اوپر بیان کردہ حالات کا ردعمل سمجھے، مگر نہ جانے کیوں تمام کڑیوں کے ملنے کے باوجود بھی مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ محترم چوہدری صاحب نے یہ بیان اپنے لیڈر کے کہنے پر دیا ہے۔ کیونکہ اگر بیان صرف غیر منتخب وزیروں اور مشیروں تک محدود ہوتا تو میں بھی اِسے ردعمل ہی سمجھتا مگر ”فیصلے کہیں اور“ ہونے کا تاثر دینے کی کوشش یہ بتاتی ہے کہ یہ بیان مکمل مشاورت کے بعد دیا گیا ہے۔ کیونکہ کپتان کے شیدائیوں کا یہ ماننا ہے کہ اُن کا لیڈر ایک آزاد منش انسان ہے وہ کسی دوسرے کو اپنی ڈومین میں مداخلت نہیں کرنے دے گا اور اگر ایسا ہوا تو وہ بنا مشاورت کیے فیصلوں کا بوجھ نہیں اٹھائے گا کیونکہ وہ مال و زر سے خریدے جانے والا یا ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر ترجیح دینے والا ہرگز نہیں۔

ساہیوال واقعے سے اسد عمر اور پھر فواد چوہدری تک ہوئے فیصلوں بارے پی ٹی آئی کے کارکن بھی صدمے اور حیرت کا شکار ہیں وہ ڈھکے چھپے الفاظ میں اِسے کپتان کا فیصلہ نہیں مانتے۔ کیونکہ ہر خرابی، پریشانی منہگائی بدامنی اور اقربا پروری کے بلند ہوتے شور کا دفاع کرنا اُن کے لیے مشکل ہوتا جا رہا ہے تو وہ بھی ایک کاندھے کا بوجھ دوسرے کاندھے پر منتقل کر کے جان خلاصی کر رہے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ موجودہ حالات، معاشی پلان، قبائلی علاقوں میں بنتے ماحول اور عہدوں کی بندر بانٹ نا صرف کپتان کی سیاست کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ اُس کی نیچر کے خلاف بھی ہے۔ قوم جانتی ہے کہ کپتان کو ”فری ہینڈ“ دیا جائے تو وہ بڑے سے بڑے بیٹسمین کو اپنے نپے تلے یارکرز سے گھٹنوں کے بل جھکا سکتا ہے۔ کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ عمران خان صرف پانچ سال میں نواز شریف کے خلاف جارحانہ انداز اپنا کر اُسے اقتدار کے ایوانوں سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے لا کھڑا کرے گا؟

وہ بحیثیتِ کپتان مکمل خودمختاری، اپنی سوچ اور پلاننگ کے ساتھ آگے بڑھنے کاعادی ہے۔ اُس کی سابقہ زندگی پر نظر ڈالتے ہوئے میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ وہ وقت پڑنے پر اپنے اچھے سے اچھے دوست اور مہربان کو بھی کریز سے نکل کر چھکا مارنے سے نہیں چونکتا۔ اس کے علاوہ وہ اچھی فیلڈنگ لگا کر ”مخالف ٹیم“ کو دباؤ میں رکھ کر کھل کھیلنے سے روکنے کی بھی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔

اللہ کرے میرے اندیشے غلط ہوں۔ اگر خدانخواستہ یہ بیان صرف محترم فواد چوہدری صاحب کا ہے تو پھر کپتان کو اور زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ اہل دانش نے ہمیشہ قریبی دوست کے شر سے بچنے کی تاکید کی ہے۔ اگر میرا کوئی دوست شکستہ دل سے ایسی بات کرتا تو فورا سے پہلے بلوا کر جادو کی جھپی دے کر پوچھتا۔ ”بتا تیری رضا کیا ہے؟ “

کیونکہ مخلص دوست اور وفا دار وزیر تو ایک جوہر نایاب کی مانند ہوتا ہے، یہ تخت و تاج تو آتے جاتے ہیں۔

سوشل میڈیا اور چند ”ڈیڑھ ہوشیار“ اینکرز سے گزارش ہے کہ ”شاہ سے زیادہ شاہ کے وفا دار“ بننے سے قبل یہ ضرور یاد رکھیں کہ ہاتھیوں کی لڑائی میں نقصان گھاس کا ہی ہوتا ہے۔ اس لیے محتاط رہیں اور احسن انداز میں چلتی حکومت کے بارے میں شک و شبات پیدا نہ کریں اور اُسے یکسوئی کے ساتھ مفاد عامہ کے کاموں پر توجہ مرکوز رکھنے دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).