اس کا مطلب ہے اب پنجاب کو تقسیم سمجھیں


اب تو ایسے لگ رہا ہے کہ پنجاب کی قسمت میں دوبارہ تقسیم لکھی جاچکی ہے۔ کوئی احتجاج، تحریک اور طاقت اب اس تقسیم کو روک نہیں سکتی۔ پنجاب میں اس بات پر آنے والا سیاسی رد عمل بھی کوئی زیادہ طاقتور نہیں۔ ایسے لگ رہا ہے کہ جیسے کسی کو پرواہ ہی نہیں کہ پنجاب دو ٹکڑے ہوجائے یا پانچ ہوجائے۔ اس سے زیادہ دلچسپ بات یہ کہ پنجاب کی تقسیم پر عوامی رد عمل اور زیادہ کمزور اور اتنا نحیف ہے کہ لوگ اپنے ڈیروں، بیٹھکوں اور گپ شپوں میں بھی عام پنجابی اپنے پنجاب کی تقسیم کے بجائے چودھری فواد حسین اور مفتی منیب الرحمان کے بارے میں بات کرنے میں دلچسپی لیتے ہیں۔

گذشتہ دنوں گوجرانوالہ اور لاہور کی پریس کلبوں کے سامنے پنجابی پرچار، پنجابی ادبی بورڊ، دل دریا پاکستان اور پنجاب لوک لہر سمیت کئی تنظیموں نے شرکت کی، احتجاج میں لوگوں کی تعداد بھلے خاطر خواہ نہ تھی مگر یہ اک بہتریں ابتدا ضرور تھی۔ ریلی کے منتظمیں اس بات پر بھی بہت خوش تھے کہ اس احتجاج میں نامور پنجابی ادیب، دانشور، شاعر اور طالب علم شامل تھے، جو سب پنجاب کی تقسیم کے خلاف نعرے بازی کر رہے تھے۔

”پنجاب بچاؤ“ تحریک میں اس وقت تک کوئی بھی سیاسی تنظیم آگے نہیں آئی، مذہبی اور دینی تنظیموں نے بھی کوئی دلچسپی نہیں دکھائی سول سوسائٹی بھی دور دور ہے تو لاہور کے ہر جلسے، تحریک اور ریلے سے لے کر میلاد اور دھرنے تک کو اسپانسر کرنے والی ”تاجر برادری“ تو بالکل ہی الگ تھلگ کھڑی ہے جیسے کہ اس کو پتا ہی نہیں کہ ”کوئی پنجاب وی ونڈیا جا ریا اے۔ “

دوسری طرف جنوبی پنجاب یا پھر سرائیکیستان میں آج کل جشن کا سمان ہے، سرائیکی وسیب کی باقی پنجاب سے علیحدگی کو اک تاریخی واقعے کے طور پر لیا جا رہا ہے اور ہر طرف نعرے وج رہے ہیں کہ ”گھنسوں گھنسوں، صوبہ گھنسوں۔ “ کئی شاعر اپنی سرائیکی شاعری میں نئے قومی نغمے ترتیب دے رہے ہیں تو کئی فنکار صرف سرائیکی قومی نغمے گا گا کر مشہور ہو رہے ہیں۔

ہمارے دوست مدثر بھارا نے کل ہی اپنی نئیں کافی ہمیں ارسال کی ہے کہ

اماں ڑی منگ ڈھیر دعا

ساڈا صوبہ بنڑدا اے

اماں ڑی مٹھے روٹ پکا

ساڈا صوبہ بنڑدا اے

اماں ڑی بہوں خیر ونڈا

ساڈا صوبہ بنڑدا اے

اماں ڑی بہوں ویل ہکا

ساڈا صوبہ بنڑدا اے

اماں ڑی کوئی جی ولکا

ساڈا صوبہ بنڑدا اے

اماں ڑی اوہو بول پڑھا

ساڈا صوبہ بنڑدا اے۔

ملتان کی نیلی اجرک جس کو لال رنگ سے مختلف ہونے کی وجھ سے ”اجرک“ کے بجائے ”سجرک“ بھی کہا جاتا ہے پورے وسیب میں اپنے جوبن پر ہے، ہزاروں لوگ نیلی اجرک کے ساتھ تصاویر بنا کر سوشل میڈیا پر رکھ رہے ہیں۔ اک بات بہت واضح طور پر محسوس کی جارہی ہے کہ پنجاب کی تقسیم کے حوالے سے پنجاب کے شہروں اور قصبوں سے لے کر پنجاب اسمبلی اور اس کے سامنے مشہور احتجاجی آماجگاہ ”مال روڈ“ پر کوئی چہل پہل نظر نہیں آ رہی۔ مگر پنجاب کے سماجی رہنما، کچھ اہل قلم، کچھ طالب علم اور پنجاب کو قوم اور پنجا ی بولی کو قومی زبان سمجھنے والے لوگ اک تحریک برپا کرنے کے لئے کوششیں کر کرہے ہیں۔ اس میں سلسلے میں لاہور پریس کلب کے سامنے احتجاج میں پنجاب ادبی بورڈ کے چیئرمین مشتاق صوفی اور نامور شاعر بابا نجمی کا جذبہ قابل دید تھا۔

دوسری طرف عوامی جمہوری محاذ کے چیئرمین فرخ سہل گوئندی نے فخر زمان، مدثر اقبال بٹ اور دیگر معروف دانشوروں کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس کی اور کہا کہ پنجاب اور سندھ کے جاگیردار ملکر پنجاب کو تقسیم کرنے کے لئے متحد ہو گئے ہیں پاکستان کا یہ رجعت پسند اور استحصالی طبقہ پنجاب کا بٹوارہ کرکے پنجاب حکومت کے اندر موجود احساس محرومی غربت پسماندگی کو ایکسپلائٹ کرکے ایک نئے صوبے کا شوشہ چھوڑ رہا ہے جو کہ سراسر اپنی جاگیریں اور حکمرانی کے تسلسل کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں کاش یہ سیاسی حکمران پاکستان میں جاگیرداری کے خاتمے لازمی تعلیم صحت اور دیگر حقوق کے لئے مشترکہ کوئی اتحاد بناتے پنجاب کی یہ تقسیم جس خطرناک صورتحال کا سامنا کر سکتی ہے اس کا ان لوگوں کو اندازہ نہیں پنجاب کو کاٹنے کا یہ عمل پاکستان کی تقسیم کا آغاز ہوگا یعنی فیڈریشن کے بکھرنے اور خدانخواستہ ٹوٹ جانے کا آغاز ہوگا ہم پنجاب کے غیور عوام کسی طور بھی کسی کے ہاتھوں پاکستان کو یوگوسلاوایہ نہیں بننے دیں گے۔

فرخ سہیل گوئندی کا خیال ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ پنجاب کے محکوم عوام اس جاگیرداری و حکمرانی کے اتحاد کے خلاف جاگیں اور محکوم پنجاب کا طبقاتی اتحاد بنا کر ان جاگیرداروں کے عوام دشمن اتحاد کے اس خواب کو چکنا چور کر دیں۔ پنجاب جاگے تو پاکستان جاگے گا اور اب پنجاب جاگنے لگا ہے اٹھارہویں ترمیم کے بعد جب تک اقتدار کی ڈویژن ضلع تحصیل اور گاؤں تک منتقل نہیں کیا جاتا اقتدار کی یہ مرکزیت عوام کو غربت اور احساس محرومی سے دو چار اور ان کی جاگیرداروں کی حکمرانی کے اسباب پیدا کرتی رہے گی پنجاب کے عوام جاگ چکے ہیں اور وقت ہے کہ جاگیریں بانٹو پنجاب نہ بانٹو۔

پنجاب کی تقسیم نامنظور تحریک اور پنجاب کے اندر طبقات اتحاد کو اب کوئی جاگیر دار نہیں روک سکتا پنجاب میں بسنے والی اکثریت ( 85 فیصد) غربت اور جہالت کا شکار ہے پنجاب کے کسانوں کو زرعی اصلاحات کے تحت زمین کا مالک نوجوانوں کو تعلیم اور روزگار اور یوں ملک میں بلدیاتی نظام کو نچلی سطح تک لاگو کیا گیا تو پاکستان نہ تو مضبوط عوامی جمہوریت کے دور میں داخل ہو سکتا ہے۔ ہم پنجاب کو کاٹنے والوں کو متنبہ کرتے ہیں کہ پنجاب کی عظیم دھرتی کو جو اپنی جاگیردارانہ طاقت سے کاٹے گا ہم ان کے خلاف پرامن عوامی جدوجہد کرکے ان کے استحصالی حکمران، جاگیردارانہ اور عوام دشمن سٹیٹس کو توڑ کر ایک عوامی تحریک کا آغاز کریں گے۔

کسی بھی قوم کے جذبات جگا کر انہیں راستوں پر لانے کے لئے اتنی باتیں کافی ہوتی ہیں، مگر لاہور سمیت پورے پنجاب کے لوگ ہیں کہ باہر نکل ہی نہیں رہے۔ اس سے دلچسپ بات یہ کہ پنجاب کے اعلیٰ ترین افسران اور دیگر طاقتور لوگوں کو بھی اس بات کی کوئی فکر نہیں، کہ پنجاب ٹوٹ رہا ہے۔

دوسری سائیڈ پر ملتان میں 2 جون کو ”یوم سقوط ملتان“ منایا گیا، اس سے پہلے ایسا دن منانے کی حوالے سے تاریخ بھی خاموش ہے تو حافظہ بھی۔ ملتان کے بوسن روڈ پر جھوک سرائیکیستان میں منعقد کی گئی اس تقریب کے اشتہار میں لکھا گیا ہے کہ ”سرائیکی وسیب کے 5000 سالہ صوبے پر 2 جون 1818 ع پر قبضہ اور 200 سالہ تسلط کے خلاف اور تشکیل صوبہ سرائیکیستان کے لئے یکجھتی اجتماع“ سرائیکیستان ڈیموکریٹک پارٹی کے چیئرمین رانا فراز نون اور سیکریٹری جنرل آصف خان کے جانب سے منعقدہ یہ تقریب اس بات کا عندیہ ہے کہ سرائیکی وسیب کے لوگ اپنے علحدہ صوبے کے لئے کس قدر جذباتی ہیں۔ دوسری طرف وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی صاحب پہلے ہی فرما چکے ہیں کہ ”جنوبی پنجاب کے مخالفین کو صوبہ بن جانے کے بعد جنوبی پنجاب میں گھسنے نہیں دیں گے۔ “

پ پ پ اس سلسلے میں تو پہلے ہے ”گھنسوں گھنسوں، صوبہ گھنسوں“ کا نعرہ لگا چکی ہے، نواز لیگ نے پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں خود پنجاب کی تقسیم کا بل پیش بھی کیا تو پاس بھی کروایا۔ باقی کون بچا جو اب پنجاب کو ٹوٹنے سے بچا سکے۔ اس کا مطلب ہے اب پنجاب کو تقسیم ہی سمجھیں۔

وفاقی پالیسیوں اور دیگر معاملات پر پنجاب سے ناخوش سندھ کے اکثر لوگ اس بات پر خوش ہیں اب سندھ اور پنجاب کے درمیاں پورا سرائیکی وسیب کھڑا ہوجائے گا۔ قومی اسمبلی میں پنجاب کی مرضی اور مستی بھی ختم ہوجائے گی۔ سرائیکیوں کو اپنی زمینوں کے کاغذات کے لئے پٹواری اور ریونیو ڈپارٹمنٹ قریب مل جائے گا۔

اس سارے قصے اور قضیے میں اک بات ہمیشہ یاد رکھے جائے گی کہ ”پاکستان میں پنجاب کی نظر آنے والی صوبائی طاقت محظ دھوکا تھی، خود پنجاب پر بھی پنجابی نہیں پر کوئی اور قوت قابض تھی، یا پھر ایسی معاشی اور افرادی قوت کس کام کی جو صرف دوسرے کو سہمانے کے لئے تو استعمال ہو پر وقت آنے پر خود اپنی جان بھی بچا نہ سکے۔ پنجابی قومپرست نذیر کہوٹ اس سلسلے میں کہتے ہیں کہ“ افسوس پنجابیوں نے صرف پیسا کمانا اور کوٹھی بنانا سیکھا ہے، کاش وہ سندھی، بلوچ اور پٹھانوں کی طرح اپنی دھرتی اور بولی سے وہ انسیت رکھتے جس کو ”قومپرستی“ کہتے ہیں۔ ”اگر وہ نہیں بن سکتے تو کم سے کم“ سرائیکی ”ہی بن جاتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).