لیبارٹری میں تیار کیا گیا گوشت ’غذا کا مستقبل‘


بروس فریڈیخش گذشتہ 30 برسوں سے سبزی خور ہیں تاہم چند دنوں سے وہ گوشت سے بنے کھانے سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔

جو برگر بروس کھا رہے ہیں اسے بل گیٹس نے ’غذا کا مستقبل‘ قرار دیا ہے۔ برگر میں ڈالے گئے گوشت کو لیبارٹری میں جانوروں کے خلیوں سے تیار کیا گیا ہے۔

حال ہی میں بروس فریڈریخ ٹیڈ کانفرنس میں یہ بتانے کے لیے شریک تھے کہ کیسے ليبارٹری میں تیار کیا گیا یہ گوشت بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات اور ماحولیاتی مسائل حل کر سکتا ہے۔

’بیانڈ میٹ‘ نامی کمپنی حاضرین کو اپنے متبادل نباتاتی گوشت کا ذائقہ دینے کے لیے وینکوور آئی۔

بیانڈ میٹ نے سیلیکون ویلی کی کمپنی ’ایمپاسیبل فوڈز‘ کے اشتراک سے پہلے ہی ’پلانٹ بیسڈ میٹ‘ یعنی پودوں سے بنے گوشت کا متبادل پیش کر رہے ہیں لیکن ان کے علاوہ درجنوں ایسی کمپنیاں ہیں جو زندہ جانوروں کے خلیوں سے گوشت ‘اگانے’ پر تجربات کر رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

دنیا میں سب سے زیادہ گوشت خور لوگ کون ہیں؟

کیا آپ لیبارٹری میں تیار کردہ گوشت کھائیں گے؟

غذائیں جو وقت سے پہلے موت کا باعث بن رہی ہیں

بروس فریڈریخ کا کہنا ہے کہ عوام جانوروں کے خلیوں کی مدد سے اگائے گئے گوشت کا ذائقہ سنہ 2020 تک چکھ پائیں گے لیکن ابتدائی طور پر انھیں 50 ڈالر پریمیئم کی مد میں ادا کرنا ہوں گے۔

گُڈ فوڈ انسٹیٹیوٹ کے بانی اس سال کے ٹیڈ فیلو بن چکے ہیں۔ ان کی کمپنی نباتاتی اور جانوروں کے خلیوں سے بننے والے گوشت کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔

ان کے تھنک ٹینک نے ایسے 14 منصوبوں میں سرمایہ کاری کی ہے جو گوشت بنانے اور اس کی پیداوار میں اضافہ کرنے سے متعلق ہیں۔ ان کو امید ہے کہ اس دوران وہ اس گوشت کی قیمت کم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

بروس فریڈریخ نے بی بی سی کو بتایا کہ کلچرڈ گوشت فارمنگ کے شعبے کو بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کو کلین میٹ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے ماحولیات پر زیادہ اثرات نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’جانوروں کے چارے کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ہم بہت زیادہ فصلیں کاشت کرتے ہیں۔ مرغی کو کھلائی جانے والی ہر نو کیلوریز کے عوض ہم ایک کیلوری حاصل کرتے ہیں۔ یہ غذا حاصل کرنے کا بہت ہی غیر موثر طریقہ ہے۔‘

اندازے کے مطابق سنہ 2050 تک ہمیں 70 فیصد سے 100 فیصد تک گوشت کی پیداوار کو مزید بڑھانا ہو گا۔

وہ کہتے ہیں کہ بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات اور اس کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی فارمنگ کے ماحول پر اثرات اس بات کے متقاضی ہیں کہ کسانوں کو گوشت مہیا کرنے کے متبادل طریقوں پر کام کرنا چاہیے۔

’ہم انسانی جبلت تبدیل نہیں کر سکتے، اس لیے ہمیں ضرورت اس امر کی ہے ہم گوشت کو تبدیل کر دیں۔‘

یہ کوئی ویجیٹیبل برگر نہیں ہے

اس مصنوعی گوشت کا سبزی خوری سے کوئی خاص تعلق نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ہم سبزی خوروں کو یہ کہتے ہوئے سنتے ہیں کہ وہ یہ نئے گوشت سے بنی مصنوعات نہیں کھانا چاہتے۔ اور ہم مذاق میں انھیں یہ کہتے ہیں ہمیں اس کی پرواہ نہیں کہ سبزی خور اس کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔

’یہ ایک اور سبزی والا برگر نہیں ہو گا۔‘

کلین گوشت کا ’فارم‘ دکھنے میں بہت ہی مختلف ہو گا۔ بروس فریڈریخ کہتے ہیں کہ ایک فارم کے بجائے یہ ایک کشید گاہ جیسا دکھے گا جس میں کسی جانور کی ضرورت نہیں ہو گی۔

اس کے لیے 99 فیصد کم جگہ درکار ہو گی اور اس کا مطلب یہ ہو گا کہ جیسا کہ فارمنگ میں کہا جاتا ہے کہ ‘زیادہ زمین لیں ورنہ فارمنگ چھوڑ دیں‘ جیسے خیال سے چھٹکارہ بھی ممکن ہو گا۔

’اس کے باوجود جانوروں کے لیے محفوظ پناہ گاہیں ہوں گی جہاں وہ اپنی زندگی بسر کر سکیں گے۔‘

جوار جیسی روایتی فصلیں شاید دوبارہ کاشت ہونے لگیں اور کسان ایک بار پھر مٹی سے جُڑ جائیں۔ بظاہر چند لوگوں کے لیے یہ مستقبل کا بہت اچھا منظرنامہ ہو سکتا ہے لیکن پہلے ہی گوشت کے متبادل مارکیٹ میں کافی مقبول ہو گئے ہیں۔

جنوری میں برطانیہ میں گریگز نامی بیکری نے ویجی ساسج رول یعنی نباتاتی گوشت سے بنا رول متعارف کروایا تھا۔ اس کی بدولت نہ صرف کمپنی کا منافع بڑھا بلکہ یہ شہ سرخیوں میں بھی رہی۔

برگر کنگ امریکہ میں 59 ریستورانوں میں ’ایمپوسیبل ووپر‘ آزمائشی بنیادوں پر پیش کر رہا ہے اور ان کا ارادہ یہ ہے کہ اسے پورے ملک میں متعارف کروایا جائے۔

برگر کنگز کا نیا برگر ایمپوسیبل فوڈز نے تیار کیا ہے۔ ایمپوسیبل فوڈز نباتاتی مصنوعات تیار کرتے ہیں جو کہ ذائقے اور بناوٹ میں اصل گوشت جیسا ہوتا ہے۔

اس کا ’مخفی` ترکیبی عنصر ہائم ہے۔ ہائم ایک مالیکیول ہے جس میں آئرن پایا جاتا ہے اور یہ گوشت کو گوشت جیسا ذائقہ فراہم کرتا ہے۔

میٹ ریستوران کا نباتاتی برگر

وینکوور میں ہونے والی ٹیڈ کانفرنس میں شرکت کرنے سے پہلے میں میٹ نامی ریستوران میں گیا جو شہر کے مشہور گیس ٹاون ڈسٹرکٹ میں واقع ہے۔ یہ ان ریستورانوں میں سے ایک ہے جو بیانڈ میٹ برگرز کھانے میں پیش کرتے ہیں۔

بطور سبزی خور جس نے گذشتہ 20 برسوں سے گوشت نہیں کھایا، دوبارہ ’گوشت‘ کھانا ایک نیا چیلنج تھا۔ پہلی نظر میں اپنی ساخت میں یہ ’گوشت‘ اصل گوشت جیسا تھا تاہم یہ کہنا مشکل تھا کہ آیا اس کا ذائقہ بھی اصل گوشت جیسا ہے اور اس کی وجہ اس برگر میں لوازمات کی موجودگی تھی۔

ریستوران کھانے والوں سے کچھا کھچ بھرا ہوا تھا اور وہ سب نباتاتی گوشت کا لطف اٹھا رہے تھے۔

ریستوران

بعد ازاں ٹیڈ کانفرنس میں مجھے وہ کمپنی ملی جو یہ برگر بنا رہی تھی اور اب کی بار مجھے وہ برگر کھانے کو ملا جس میں سلاد یا لوازمات نہیں تھیں۔

اس کا ذائقہ کورن جیسا نہیں تھا۔ کورن گوشت کا وہ متبادل ہے جب میرے علم میں ہے۔ لیکن اس کا ذائقہ مکمل طور پر گوشت جیسا نہیں تھا، وہ ذائقہ جو میری یادداشت میں محفوظ تھا۔

مجھے یہ کھا کر مزہ آیا لیکن جیسا کہ بروس فریڈریخ نے کہا تھا میں اس گوشت کی ٹارگٹ آڈیئنس نہیں ہوں۔ گوشت کھانے والے اس سے کس حد تک متاثر ہوں گے، میں اس بارے میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔

ایمپاسیبل فوڈز اور بیانڈ میٹ نے ابھی نباتاتی گوشت بنانا شروع کیا ہے تاہم یورپ، امریکہ، چین، جاپان اور اسرائیل میں ایسی درجنوں کمپنیاں ہیں جو لیبارٹری میں گوشت بنا رہی ہیں۔

بروس فریڈریخ کے مطابق فیصلہ سازوں کو اب یہ بات سمجھ میں آنے لگی ہے کہ انھیں بھی اس میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔

بروس فریڈریخ کے مطابق وہ ممالک جن میں فوڈ سکیورٹی کے مسائل ہیں، جیسا کہ انڈیا اور چین جہاں آبادی بہت زیادہ ہے، وہاں حکام ایسی کمپنیوں کا استقبال کریں گے جو لیبارٹری میں گوشت تیار کر رہی ہیں۔

دی بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن نے سیلولر زراعت کو ان پانچ ٹیکنالوجیز میں شامل کیا ہے جو ترقی پذیر ممالک میں اصل تبدیلی لا سکتے ہیں۔

تاہم سب اس انقلاب کا حصہ نہیں بنیں گے۔

برطانیہ کی ویگن سوسائٹی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہماری نیک تمنائیں کلین میٹ کے ساتھ ہیں کیونکہ اس میں جانوروں کی تکلیف کو ختم کرنے کی صلاحیت ہے اور اس کے ماحولیات پر منفی اثرات کم ہوں گے۔‘

’ہم جانوروں کی تکالیف میں کمی کے فیصلے کو خوش آمدید کہتے ہیں مگر ہم کلین میٹ کی حمایت نہیں کرتے کیونکہ ان مصنوعات کو تیار کرنے میں جانوروں سے حاصل کیے گئے خلیے استعمال ہوتے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32295 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp