ایک افسر کی پیدائش


ہمارے ایک دوست نے مقابلے کا امتحان پاس کیا اور افسرہوگئے۔ اس خوشی میں انہوں نے اپنے تمام دوستوں کو کھانے پر مدعو کیا۔ چونکہ وہ نئے نئے افسر بنے تھے اس لئے اس تقریب کے وہ خود ہی مہمان خصوصی تھے۔ کرسی صدارت بھی انہی کے پاس تھی۔

کھانے کے دوران انہوں نے اپنی محنت شاقہ پر روشنی ڈالی۔ امتحان پاس کرنے کے لئے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے، کون کون سی درگاہوں پر چڑھاوے چڑھانے پڑے اور کہاں کہاں سے نوٹس اکٹھے کرنے پڑے۔ اس نے۔ ۔ ۔ معذرت انہوں نے بتایا کہ ان کے گھر میں اتنی کتابیں جمع ہو گئی ہیں کہ اگر وہ خدا نخواستہ ناکام ہوجاتے تو پرانی کتابوں کی دکان آسانی سے کھول سکتے تھے۔ انہوں نے اتنا علم حاصل کیا کہ آخر میں وہ یہ تک جان گئے کہ ”بحر مردار“ اصل میں ”ڈیڈ سی“ کا اردو ترجمہ ہے۔

کھانے کے دوران انہوں نے اپنے تمام دوستوں سے جو تب تک تقریباً سابقہ دوست ہو چکے تھے پوچھا، ”آپ سب کے میری کامیابی کے بارے میں کیا خیالات ہیں؟ اور آپ“ لوگوں ”کی مجھ سے کیا توقعات ہیں؟ “

جمیل بولا، ”آپ کی شاندار کامیابی سے ہمیں یقین ہوگیا ہے کہ اللہ اس ملک پاک سے ابھی تک ناراض ہے“۔ سب نے زورکا قہقہہ لگایا۔ وہ بولے، ”افسر کی یہ پہچان ہے کہ خود پر ہونے ہونے والی تنقید کو خاموشی سے سنے۔ غصہ نہ کرے، لیکن بات دل میں رکھے۔ اس بد تمیزی پر میں کچھ نہیں بولوں گا“۔

ہم سب نے مل کر التجا کی حضور جانے دیجیئے۔ بات دل میں نہ رکھیے گا۔ عوام ہے، عوام ایسی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ یہاں تو محترم صدرپاکستان کو ایسی ایسی بات کہ جاتے ہیں کہ صدر صاحب کا دل چاہتا ہوگا ان کے ”دانت“ توڑ دوں۔ برا نہیں مناتے۔ پھر جمیل آپ کا، ہم سب کا بچپن کا دوست ہے۔ ایف ایس سی میں یہ بے چارہ ہم سب کے لئے نوٹس جمع کرتا رہا اور خود فیل ہوگیا۔

وہ کمال بے نیازی سے بولے، ”چلو کوئی بات نہیں“۔ پھر وہ اعجاز کی طرف متوجہ ہوئے۔

اعجاز بولا، ”کمینے۔ ۔ ۔ سوری سر آپ کی کامیابی ہم تمام دوستوں کی کامیابی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا میں کالج کی کرکٹ ٹیم کا کپتان تھا اور آپ کوٹورنامنٹ کے فائنل میچ میں نہ صرف ٹیم میں شامل کیا بلکہ اوپنر بھی بھیجا۔ سب نے اعتراض کیا کہ آ پ نے کبھی کوئی اچھی اننگز نہیں کھیلی۔ ہم سب دوستوں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر آپ کا ساتھ دیا۔ سب کو بتایا اگرچہ آپ کالج کے ناکام کھلاڑی رہے ہیں لیکن آپ نے گھر کے صحن میں اپنے چھوٹے بھائی اور کزن کے ساتھ جب بھی کھیلا یادگار کھیلا۔ ہم نے آپ کو جو اعتماد دیا اسی وجہ سے آج کامیابی نے آپ کے قدم چومے ہیں“۔

اعجاز شاید کچھ اور بولتا لیکن سب نے اسے یہ کہ کر خاموش کرا دیا کہ تم سر کے سامنے اپنے نمبر بنا رہے ہو۔ ان میں اعتماد کی کمی ہوتی تو خود ہی ٹیم میں شامل نہ ہوتے۔ وہ اتنے پر اعتماد شخص ہیں کہ فائنل میچ میں جب صفر پر آوٹ ہوئے تھے تو مسکراتے اور بلا فضا میں لہراتے ہوئے میدان سے باہر آئے تھے۔

انہوں نے اعجاز کا شکریہ ادا کیا اور کہنے لگے، ”اس میں کوئی شک نہیں کہ میں نے آپ لوگوں سے بہت کچھ سیکھا ہے“۔ ہم نے ان کی اس عاجزی پر انہیں باور کرایا کہ اب آپ افسر ہیں۔ آپ کو یہ عاجزی زیب نہیں دیتی۔ آخر کب آ پ ہاسٹل کی کینٹین سے نکلیں گے جہان آپ بیروں کو اس لئے جپھیاں ڈالتے تھے کہ وہ آپ کو کھانا گرم اور جلدی پیش کریں۔

اس کے بعد میرا نمبر تھا لیکن فراز بول پڑا۔ ”میری توقع ہے کہ آپ مغرور نہیں ہوں گے۔ “ سب نے کہا یہ شروع سے ہی پٹڑی سے اتر رہا ہے اسے چپ کرایا جائے۔ حضور نے اسے بات جاری رکھنے کا اشارہ کیا۔

فراز بولا، ”حضور آپ نے افسر بننے کے بعد کوئی کام نہیں کرنا۔ آپ کام کریں گے تو اس ملک پر برا ہی اثر پڑنا ہے۔ آپ نے کسی بھی ’منصوبہ بندی‘ میں یہ سوچ کر شامل نہیں ہونا کہ آپ ایک شریف شخص ہیں اور غیر شادی شدہ ہیں۔ جہاں تک غرور کی بات ہے تو جونہی آپ کی گردن میں سریہ آنے لگے آپ نے یاد کرنا ہے کے مقابلے کے امتحان کے انٹرویو کے وقت آپ مجھ بندہ حقیر کی ٹائی پہنے ہوئے تھے۔ زور زبردستی نہیں لیکن مجھے میری ٹائی اب واپس کر دیجیے گا“۔

سب نے حضور کو مشورہ دیا کہ یہ سیگمنٹ ختم کیا جائے۔ عوام سے کچھ نہ پوچھیں یہ آزادی رائے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ عوام سے پوچھو حکومت کیسی جارہی ہے یہ رونا شروع کردیں گے کہ پٹرول مہنگا ہوگیا ہے۔ ان سے پوچھیں حکومت نے جو آپ لوگوں کی ترقی کے لئے گالف کورس بنایا ہے وہ آپ کو کیسا لگا؟ یہ کہیں گے ہمارے گاؤں جانے والی سڑک پر جو ریل کی پٹڑی گزرتی ہے اس پر پھاٹک لگوا دیں۔ عوام کوزبان دینے کا نقصان زیادہ اور فائدہ کم ہے۔ آپ اپنا بتائیں کہ آپ اپنے آپ کو مستقبل میں کیسا دیکھتے ہیں؟ آپ کا مستقبل میں ہمارے ساتھ کیسا تعلق رہے گا؟

وہ تھوڑی دیر خلاوں میں گھورتے رہے، پھر پانی پیا اور اچانک گہری سوچ میں چلے گئے۔ پھر گلا کھنکار کر بولے، ”دوستو میں نے اس وقت آپ کے سامنے بہت سوچا کہ آپ لوگوں کو کیا مشورہ دوں۔ میں آپ لوگوں کی کیسے رہنمائی کروں کہ آپ سب کی زندگی بھی سنور سکے (سب ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے ) ۔ میں بھی آپ میں سے ہوں۔ (اس بات پر میں نے ان کا شکریہ ادا کیا ) لیکن اب میں آپ جیسا عام آدمی نہیں ہوں (میں نے شکریہ واپس لے لیا) ۔ آپ مجھ سے انسپائریشن لیں اور محنت کریں تاکہ اس مقام تک پہنچ سکیں“، انہوں نے اپنی کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

”آپ کو یاد ہوگا جب آپ لوگ فلم دیکھ رہے ہوتے تھے، میں اپنے کمرے میں بیٹھا پڑھ رہا ہوتا تھا“۔ نعیم کی طرف اشارہ کرکے بولے، ”جب یہ شخص محبوب کی یاد میں شاعری کر رہا ہوتا تھا تو آپ لوگ اس کا مذاق اڑاتے تھے۔ میں اس سے غالب اور فراز سنتا تھا۔ آپ سوچیں میں نے کامیابی حاصل کرنے کے لئے اس ناکام شخص تک سے فائدہ اٹھایا ہے۔ المختصر آپ لوگ بھی محنت کریں۔ یہ میری آپ کو نصیحت ہے۔ “

سب نے مسکرا کر ان کا شکریہ ادا کیا اور انہیں یاد دلایا کہ آپ نے یہ بھی بتانا تھا کہ ہم سے جناب کو کیا امیدیں ہیں۔ وہ بولے، ”میں ایک ایماندار شخص ہوں اور بدعنوانی کو سخت نا پسند کرتا ہوں۔ “

فرازچونک کر بولا۔ سر میری ٹائی۔ سب نے اسے منہ بند کرنے کا کہا۔
وہ فراز کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے بولے، ”مجھے امید ہے آپ سب کسی سفارش کے لئے مجھے کال نہیں کریں گے۔ میں نے سوچ لیا ہے کہ سفارش صرف دوسرے افسران کی سننی ہے تاکہ جب مجھے ان سے کام پڑے تو کروا سکوں۔ باقی سب کے لئے۔ ٹھینگا“۔ انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا۔

وہ مزید گویا ہوئے، ”مجھے امید ہے کہ آپ لوگوں کو میرے بارے میں جوغلط باتیں معلوم ہیں، کسی کو نہیں بتائیں گے۔ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا اگر تم لوگوں نے کسی کو بتاتا کہ کالج میں میری صحت کی وجہ سے سب مجھے ’ڈاکٹر گاندھی‘ کہتے تھے۔ آپ لوگ اپنے جاننے والوں کو فخر سے بتا سکتے ہیں کہ میں آپ کا دوست رہا ہوں لیکن خبردار اگر کسی نے میرا ذکر کرتے ہوئے میری تصویر دکھائی۔ میں چاہتا ہوں جب میرا ذکر ہو تو ایک با رعب شخصیت کا تاثر ابھرنا چاہیے“۔

لمبا سانس لینے کے بعد وہ بات جاری رکھتے ہوئے بولے، ”آپ لوگ کال کریں گے تو ہو سکتا ہے میں مصروفیت کی وجہ سے نہ سن سکوں۔ برا نہیں ماننا لیکن اس کے بعدآپ لوگوں نے بار بار کال نہیں کرنی۔ جب بھی مجھ سے بات کرنے کا دل چاہے تو آپ نے یہ خیال کرکے صبر کرنا ہے کہ میں ایک مصروف سرکاری افسر ہوں اور ریاستی امور میری مکمل توجہ مانگتے ہیں۔ “ مجھے مخاطب کرتے ہوئے بولے “تم مجھے کال کرسکتے ہوکیونکہ سول سروسز اکیڈمی جانے سے پہلے مجھے تمہارا کیمرہ ادھار چاہیے۔”

اس کے بعد حضور نے ہلکی سی تالی بجا کر محفل برخواست کرنے کا اعلان کیا۔ سب نے جاکر ان سے مصافحہ کیا۔ آخر میں ڈاکٹر گاندھی زندہ باد اور چھا گیا بھئی چھا گیا گاندھی ساڈا چھا گیا کے نعرے لگائے گئے۔ پھر کوئی بولا، آج افسر کی پیدائش کا دن ہے۔ دو لوگوں نے حضور کو پکڑا اور فراز نے پہلے ان کے دائیں اور پھر ان کے بائیں کان میں اذان دے کر ان کی پیدائش کا اعلان کیا۔ جواد نے ان کا چشمہ یہ کہ کر اتار دیا کہ بھلا آج تک کوئی ایسا افسر دیکھا ہے جو چشمہ پہنے پیدا ہوا ہو۔ تولیہ منگوایا گیا اور ان کے گرد لپیٹ دیا گیا۔

گردن دبائی گئی تو معلوم ہوا اندر سریا آگیا ہے۔ دو، تین دوستوں نے مشورہ دیا ابھی جراحی کرکے نکال دیا جائے۔ باقی بولے یہ خطرناک نہیں ہے۔ عوام کے سامنے سریا ہے لیکن اپنے سے بڑے افسر کے سامنے موم کی طرح پگھل جاتا ہے۔ سب نے کہا تجربہ لازمی ہے۔ گھر جانے سے پہلے ان کی گردن پر ہاتھ اور آنکھوں پر پٹی باندھ کر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے سامنے لے جایا گیا۔ آنکھوں سے پٹی ہٹا کر جب بتایا گیا کہ بیٹا سامنے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ بیٹھتا ہے تو سریا پگھلتا محسوس ہوا۔

گھر لے جا کر ہم سب انہیں ان کے کمرے میں لے گئے جہاں تولیہ اتار کر انہیں سفید چادر میں لپیٹ دیا گیا۔ وہ چلائے، ”گدھو یہ کیا حرکت ہے؟ “۔ جمیل بولا، ”یہ سفید کفن اس لئے کے جب افسر کی پیدائش ہوتی ہے تو دوستی کی موت واقع ہو جاتی ہے“۔

محمد عامر الیاس
Latest posts by محمد عامر الیاس (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).