غاؔلب کے ’بے معنی‘ اشعار
اس سے پہلے کہ شارحین و عاشقان غاؔلب اس کالم کا عنوان پڑھ کر بے مزا ہوں، میں وضاحت کردوں کہ میں غالب کا بہت بڑا پرستار، عقیدت مند اور عاشق ہوں، غاؔلب کی شاعری پڑھنے کے بعد یہ ممکن نہیں کہ آپ اسے اردو غزل کا سب سے بڑا شاعر نہ مانیں، سوائے مؔیر اور اقبالؔ کے کوئی دوسرا شاعر غاؔلب کے مقابلے پر کھڑا نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں اقبال کے نام پر کچھ لوگوں کو اعتراض ہو گا مگر یہ بحث ہم کسی اور دن کے لیے اٹھا رکھتے ہیں اور رہی بات میرؔ کی تو شمس الرحمٰن فاروقی صاحب ’شعر شور انگیز‘ میں انہیں خدائے سخن قرار دے کر یہ بحث سمیٹ چکے ہیں لہذا ہم بے بہرہ نہیں جو معتقد میؔر نہ ہوں!
کالم کا عنوان اپنی جگہ مگر ایمانداری کی بات یہ ہے کہ غاؔلب کے کسی شعر کو بے معنی کہنا کچھ زیادتی ہے، ہم زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ غاؔلب کا فلاں شعر بہت دور ازکار معنیٰ رکھتا ہے یا فلاں شعر میں شاعر نے گھما پھرا کر جو بات کی ہے وہ بنائے نہیں بنتی۔ خود غاؔلب نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ نوجوانی میں کہے گئے ان کے بعض اشعار ایسے ادق تھے کہ بعد میں انہیں بھی ’بے معنی‘ لگے۔ ’نہ ستایش کی تمنا نہ صلے کی پروا، گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی۔ ‘ اس قبیل کا پہلا شعر ملاحظہ ہو: ’آشفتگی نے نقش سویدا کیا درست، ظاہر ہوا کہ داغ کا سرمایہ دود تھا۔‘ یہ شعر غاؔلب نے چوبیس برس کی عمر میں کہا۔ شمس الرحمن فاروقؔی اور نیرؔ مسعود صاحب، دونوں نے اس شعر کی تشریح کرنے کی کوشش کی ہے اور ایسے ایسے باریک نکات اٹھائے ہیں کہ لگتا ہے جیسے یہ شعر غاؔلب کے بڑے اشعار میں سے ایک ہے، دونوں اصحاب نے اس پر بحث کی ہے کہ ’درست کرنا‘ کا کیا مطلب ہے، نیرؔ مسعود صاحب کے مطابق درست کرنا کا مطلب مٹانا یا صاف کرنا نہیں ہوتا جبکہ فاروقؔی صاحب کے نزدیک ”اردو میں غلطی کو درست کرنا سے اس کا بنانا، ٹھیک کرنا یا مٹا کر صاف کرنا یا کسی شے سے عیب نکال کر اسے سجانا مراد لیتے ہیں۔“ اس بحث کو پڑھ کر یوں لگتا ہے کہ شارحین کی ایک کمیٹی شعر کا مطلب نکالنے کی کوشش ایسے کر رہی ہے جیسے دائی زچہ کے پیٹ سے بچہ نکالتی ہے حالانکہ اس شعر کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ میری دیوانگی نے دل پر جو سیاہ داغ چھوڑا تھا وہ دھواں ہو گیا یعنی اس داغ میں کوئی خاص بات نہیں تھی۔ شعر میں بھی کوئی خاص بات نہیں، فقط لفاظی ہے۔
اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ دیوان غاؔلب کا سب سے بے معنی شعر کون سا ہے تو میں بلا جھجک اس شعر پہ انگلی رکھوں گا: ’اسؔد ہم وہ جنوں جولاں گدائے بے سروپا ہیں، کہ ہے سر پنجہٴ مژگان آہو پشت خار اپنا‘ ۔ فاروقؔی صاحب نے اس شعر کے بارے میں تسلیم کیا ہے کہ اس شعر میں لفاظی ہے مگر پھر بھی ان سے یہ کہے بغیر نہیں رہا گیا کہ اس میں ”چند در چند رعایتوں نے نئی شان پیدا کردی ہے۔ آہنگ بھی بہت پرشکوہ اور مضمون کے مناسب ہے۔ “ فاروقؔی صاحب کی عالمانہ تشریح سے پہلے ہم شعر کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسد ہم وہ فقیر ہیں جو جنون کی کیفیت اور بے سروسامانی کے عالم میں ایسے دوڑ رہے ہیں کہ ہرن بھی اپنی پلکوں سے ہماری پشت کھجا رہا ہے گویا ہماری وحشت اور دیوانگی کا کوئی مقابلہ نہیں۔ واضح رہے کہ غاؔلب نے یہ شعر محض انیس برس کی عمر میں کہا تھا، اس لحاظ سے دیکھا جائے تو فقیری اور جنون کی تشبیہات کا استعمال خوب ہے مگر آخری تجزیے میں بہرحال یہ شعر بے سروپا ہے اور کم از کم دیوان میں شائع ہونے کے قابل نہیں۔ اس کے برخلاف غاؔلب نے اپنا یہ نہایت شاندار شعر دیوان میں شامل نہیں کیا ’ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب، ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا۔‘ یہ شعر غاؔلب نے محض اس لیے حذف کر دیا کہ دوسرے مصرع میں ’پا‘ دو مرتبہ آ گیا تھا۔
ایک اور شعر ملاحظہ کیجیے : ’شب خمار شوق ساقی رستخیز اندازہ تھا، یا محیط بادہ صورت خانہٴ خمیازہ تھا۔‘ اس شعر کا مطلب یہ ہے کہ کل رات ساقی کی آمد کا انتظار قیامت کی طرح گزرا، حتیٰ کہ شراب کا برتن بھی انگڑائی لے کر تھک گیا۔ ایک آدھ شارح نے ہمت کر کے اس شعر کو بے سروپا قرار دیا ہے مگر میری رائے میں اسے مزاحیہ کہنا زیادہ بہتر ہو گا۔ فاروقؔی صاحب ہمیشہ کی طرح یہاں بھی غاؔلب کی مدد کو آئے اور انہوں نے اس شعر کا ایک مطلب یوں نکالا کہ ”شراب کے ابال، یعنی جوش میں آ کر اٹھنے اور قیامت، جس کے لیے رستخیز کا معنی خیز لفظ استعمال کیا گیا ہے، ان میں بھی ایک لطیف مناسبت ہے۔ یعنی شراب کا جوش کرنا، اس کا اٹھنا اور بلند ہونا ہے۔ ’قیامت‘ کے لیے بھی ’اٹھنا‘ استعمال کرتے ہیں اور قیامت میں لوگ بھی اٹھتے اور اپنے مرقدوں سے باہر آتے ہیں۔“ میں زیادہ تو نہیں جانتا البتہ اتنا علم ضرور ہے کہ کسی شراب کو ابال کر نہیں پیا جاتا، زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ آپ بئیر کو انڈیلیں تو اس میں بلبلے سے بن جائیں یا شمپین کی بوتل کھولیں، جیسا کہ میچ جیتنے کے بعد کھلاڑی کرتے ہیں، تو وہ یک دم جوش سے باہر آتی ہے، مگر بئیر اور شیمپین کی عیاشی کے تو غاؔلب متحمل نہیں ہو سکتے تھے، وہ تو اپنے شاگرد جان جیکب کے لائے ہوئے دیسی ٹھہرے پر گزارا کرتے تھے اور ٹھہرے میں کوئی ابال نہیں آتا اور اگر آتا بھی ہے تو اسے قیامت کے دن مردوں کے اٹھ بیٹھنے سے جوڑنا بالکل مہمل بات ہے۔
ایک اور شعر دیکھیں : ’شور جولاں تھا کنار بحر پر کس کا کہ آج، گرد ساحل ہے بہ زخم موجہٴ دریا نمک۔‘ بقول فاروقؔی صاحب ”اس شعر میں غاؔلب نے اپنے ایک مرکزی موضوع، یعنی رفتار کو نہایت حسین انداز میں برتا ہے۔“ یہ کہنے کے بعد فاروقؔی صاحب نے دو صفحے اس شعر کی تشریح میں لکھے ہیں جن میں انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ جتنے ممکنہ استعارے کسی شعر میں استعمال کیے جا سکتے تھے وہ غاؔلب نے اس شعر میں کر دیے ہیں۔ ہم کوشش کر کے اس شعر کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ شاعر کہتا ہے کہ آج سمندر کے کنارے کس کا گھوڑا تیزی سے بھاگ رہا تھا کیونکہ ساحل کی گرد، جو گھوڑے کے دوڑنے سے اڑی تھی، وہ موجوں کے زخم کے لیے (مراد موجوں کے لیے ) نمک بن گئی گویا موجیں یہ سوچ رہی ہیں کہ ہم میں وہ جولانی کیوں نہیں جو محبوب کے گھوڑے میں نظر آتی ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ مہمل شعر ہے مگر ہم فاروقؔی صاحب کی تشریح پر واپس آتے ہیں، ایک مطلب انہوں نے یہ نکالا ہے کہ ”پہلے مصرعے میں ’کہ آج‘ کے فقرے سے یہ نتیجہ بھی نکالا جا سکتا ہے کہ دریا/سمندر پہلے ہی سے زخمی تھا۔ آج محبوب ساحل سے گزرا تو محبوب کے تو سن کی گرد نے دریا/سمندر کے زخموں پر نمک کا کام کیا۔ اگر ایسا ہے تو سوال اٹھتا ہے کہ دریا/سمندر پہلے سے ہی زخمی کیوں اور کیسے تھا؟ اس سوال کے کئی جواب ہوسکتے ہیں۔ مثلاً دریا متحرک ہوتا ہے حرکت علامت ہے اضطراب کی اور اضطراب علامت ہے زخمی ہونے کی۔ یا وہ اس لیے زخمی ہے کہ اپنی حرکت کا قیدی ہے۔“ اب اگر یوں چیونگم کی طرح کھینچنا شروع کریں تو لغو سے لغو شعر کا بھی کوئی نہ کوئی مطلب نکالا جا سکتا ہے۔
یہ نمونے کے دو تین اشعار تھے، اس کے علاوہ بھی غاؔلب کے دیوان میں کافی ایسے اشعار مل جائیں گے جنہیں مہمل تو نہیں کہا جا سکتا البتہ ادق ضرور کہہ سکتے ہیں، یہ وہ اشعار ہیں جو بار بار پڑھنے سے بھی سمجھ نہیں آتے، ان کا مطلب سمجھنے کے لیے شارحین کی کتابیں پڑھنی پڑتی ہیں۔ فاروقؔی صاحب نے غالب کی محبت میں خواہ مخواہ مہمل شعروں کو بھی شاندار قرار دیا ہے، خدا نخواستہ میری نیت فاروقؔی صاحب پر تنقید کرنے کی ہرگز نہیں، فاروقؔی صاحب کا شمار اردو کے بہترین نقادوں میں ہوتا تھا، ایسے محقق اور لکھاری آج کل پیدا نہیں ہوتے۔ میرا اعتراض بطور طالب علم صرف اتنا ہے کہ غاؔلب ہو یا کوئی بھی شاعر، اس کی محبت کو پرے رکھ کر ہمیں ان کے اشعار کی تشریح کرنی چاہیے، اور غاؔلب کے معاملے میں تو اس بات کی ضرورت ہی نہیں کہ ان کے ادق اشعار کا دفاع کیا جائے، غاؔلب کی شاعری میں ایسے اشعار کا حصہ پانچ دس فیصد سے زیادہ نہیں، بڑا شاعر ادیب اپنے بہترین کام کی وجہ سے زندہ رہتا ہے، مہمل کام وجہ سے نہیں۔ غاؔلب کا کلام ’قفس میں ہوں گر اچھا بھی نہ جانیں میرے شیون کو‘ جیسے شعروں کی وجہ سے امر ہے، اس ایک شعر میں ایسے معنی پوشیدہ ہیں کہ بندہ حیران رہ جاتا ہے، نیرؔ مسعود صاحب نے ایسے چند اشعار کی تشریح کی ہے جسے پڑھ کر بندہ اش اش کر اٹھتا ہے۔ ایسے شعروں کا ذکر پھر کسی کالم میں!
- رئیس الجامعات اور اُن کی مزید نالائقیاں - 18/04/2024
- کیا ہمارا معاشرہ انتہا پسند ہے؟ - 15/04/2024
- اڈیالہ جیل، سوشل میڈیا کا بیانیہ اور تعبیرِ غالب - 07/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).