پاکستان کی نظریاتی اساس کا تعین آئین کرے گا یا بانیان پاکستان کا ناشتہ؟


روزنامہ جنگ میں دو تین دن پہلے کی سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ عمرہ زائرین کی تعداد ٹیکس دہندگان سے زیادہ ہے۔ خبر کے مطابق اس سیزن میں کم وبیش 16 لاکھ پاکستانیوں نے عمرہ کی سعادت حاصل کی ہے (لفظ سعادت میری جانب سے ہے ) جبکہ ٹیکس ادا کرنے والے پاکستانیوں کی تعداد بارہ سے چودہ لاکھ کے درمیان ہے۔

یہ تقابل صرف تقابل کی حد تک ہوتا تو بہتر ہوتا لیکن یہ ایک تقابل نہیں بلکہ یہ خبر پاکستان میں موجود ایک خاص مائینڈ سیٹ کی گاہے بگاہے اسلام بارے اپنی ذہنیت کو آشکارا کرنے کی ایک کڑی ہے۔ پاکستان کے نظریاتی اساس بارے سیکولر اور اسلام پسندوں کی جنگ پرانی بھی ہے اور طویل بھی۔ اس پرانی اور طویل جنگ میں ہمیشہ سے شدت رہی ہے اور جس طبقے کو جب کبھی اپنے موقف کی حمایت میں اظہار کا موقع ملا اس اظہار سے گریز نہیں کیا گیا۔

مذکورہ بالا خبر بھی اسی تناظر میں خبر بنی ہے کہ اس ملک میں عبادات پر تو خرچ کرنے والے بہت ہیں لیکن ٹیکس دہندگان کم ہیں کل کو زکوۃ کی کیلکولیشن کی جائے گی، پھر صدقات خیرات کرنے والوں کا تقابل ہوگا، مدارس مساجد کا تعاون کرنے والوں کو واچ کیا جائے گا۔ پھر ان کی لسٹیں بنیں گی، پھر ان سے ذرائع آمدن کی بابت پوچھا جائے گا، حج کرکے واپس آنے والوں کو ائرپورٹ پر ان سوالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اور یہ سب کچھ ملکی معیشت بہتر کرنے کی محبت میں نہیں بلکہ اسلام پسندوں کے بارے اپنی ذہنیت آشکارا کرنے اور اپنی سوچ و نظریہ مسلط کرنے کی بنیاد پر ہے۔

سیکولر ور اسلام پسند ہر دو طبقے کی یہ ایک خاصیت رہی ہے کہ ہر طبقے نے اپنی اپنی بات لگی لپٹی رکھے بغیر کہی ہے اور اپنے موقف کے لئے آئینی، قانونی، احتجاجی سمیت ہر راستہ اختیار کیا ہے۔ دو چار روز قبل وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چودھری صاحب نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ ان مذہبی جماعتوں کے قائدین اور پاکستان بنانے والے رہنماؤں میں کوئی جوڑ ہی نہیں وہ ماڈرن لائف سٹائل گذارنے والے اور یہ پسماندہ طبقہ۔ ایک اور دلیل بھی بہت مزے کی دی ہے کہ وہ لوگ ناشتے میں آملیٹ، سینڈ وچ اور نا جانے کیا کیا کھاتے تھے اور دوسری طرف یہ ملا۔

فواد چودھری صاحب کی باتوں میں ان کی اپنی نظرمیں دم خم ہوگا تب ہی ایسے ایسے دلائل پالستان اور بانیان پاکستان کے سیکولر پسندھونے کے بارے دیے۔ ویسے اس بابت کل کو وہ اور دلائل بھی دے سکتے ہیں مثلاً وہ چئرمین نیب کے اس ویڈیو کو حوالہ بھی دے سکتے ہیں جس کے متعلق اختر مینگل نے اسمبلی فلور پر کہا کہ روزے کی حالت میں اس پر گفتگو اور بحث کرنے سے روزہ مکروہ ہوسکتا ہے۔ کل کا جوان جب اس ویڈیو کے بارے سنے گا اور اتنے بڑے منصب پر فائز شخص کا یہ کردار دیکھے گا تو لازما پاکستان کو ایک سیکولر سٹیٹ تسلیم کرے گا بلکہ مملکت کا اس سے بڑھ کر اگر کوئی سٹیٹس ممکن ہوگا گو تسلیم کرے گا کہ سیکولر سٹیٹس میں بھی اس قسم کے واقعات پر اہل منصب کی اپنے منصب سے مستعفی ہونے کی مثالیں موجود ہیں۔

فواد چودھری صاحب کی جانب سے بانیان پاکستان کے لائف سٹائل اور ناشتے واشتے کی باتیں سیکولر طبقے کی جانب سے اس چھوٹے حلقے کے دلائل ہیں جو چھوٹا ہر مکتب فکر اور ہر طبقے میں پایا جاتا ہے اور اپنی چھوٹی سوچ کا اظہار کرتا رہتا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ قوم کے سامنے اپنے نیازی صاحب کی مثال پیش کرتے جنہوں نے مشرقی روایات واقدار کی نکاح جیسی رسم کو تختہ مشق بنا رکھا ہے۔ اب کل کو کوئی ریحام خان صاحبہ کی کتاب پڑھے تو اس کو پاکستان کو سیکولر سٹیٹ مانے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ کتاب کے مندرجات اور بیان کردہ واقعات کے بعد بھی نیازی صاحب آج پاکستان کے وزیر اعظم ہیں۔ اور بھی کئی مثالیں ہیں کئی نام ہیں کئی کتابیں ہیں جو اس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہیں۔

بہر کیف سیکولر اور اسلام پسندوں کی جنگ ہے جو جاری ہے اور جاری رہے گی ہر دو طبقے ذہنی طور اس جنگ کو لڑنے کو تیار ہیں۔ بانیان پاکستان بارے البتہ احتیاط کریں۔ ان بانیان کے بارے اگر کوئی ننگے دھڑنگے ہونے کے ثبوت بھی فراہم کرے تو کرتا رہے پاکستان کا نظریاتی سٹیٹس اب آملیٹ، سینڈ وچ، چمیوں اور جھپیوں کا مرہون منت نہیں یہاں ایک آئین ہے اور آئین ہی اس ملک کی نظریاتی اساس کا تعین کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).