کراچی کا سٹیمر سرکل: ’لوگ ہکلانے والے افراد کے ساتھ بیٹھنا پسند نہیں کرتے‘


’میں نے ملازمت کے لیے 70 سے زائد انٹرویوز دیے۔ ہر بار یہی کہا جاتا تھا کہ آپ تمام شرائط پر پورے تو اترتے ہیں لیکن آپ کو ملازمت نہیں دی جا سکتی۔‘

مارکیٹنگ کے شعبے سے تعلق رکھنے والے 33 سالہ شیراز اقبال نے جب اپنی زندگی کی پہلی ملازمت کے لیے انٹرویو دیا اور اس دوران پوچھے گئے سوالات کے تسلی بخش جواب نا دے سکے تو انھیں اندازہ ہوا کہ ساری زندگی جس چیز کو وہ ایک معمولی سا مسئلہ سمجھتے رہے آج وہ ان کے لیے کتنا بڑا دردِ سر بن چکا ہے۔

شیراز پانچ سال کی عمر سے ہکلا رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ بچپن میں انھیں اپنی ہکلاہٹ کی وجہ سے زیادہ مشکلات پیش نہیں آئیں۔

’میرے تمام دوستوں اور گھر والوں کا رویہ میرے ساتھ بہت اچھا تھا اور کبھی کسی نے یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ میں دوسروں کے مقابلے میں مختلف انداز سے بات کرتا ہوں۔ ہاں کچھ لوگ مذاق اڑاتے تھے لیکن کیونکہ میرے اردگرد موجود افراد مجھے سپورٹ کر رہے تھے اس لیے مجھے کوئی خاص پریشانی نہیں ہوئی۔‘

یہ بھی پڑھیے

’معذوری ہی زندگی نہیں، زندگی کا حصہ ہے‘

لوئر دیر کی کونسلر جنھیں معذوری روک نہیں سکی

’میں معذور ہوں، وہ نہیں، پھر بھی ہم لو ان ریلیشن میں رہے‘

شیراز اقبال کہتے ہیں کہ جب عملی زندگی میں ہکلاہٹ کی وجہ سے ناکامیوں کا منہ دیکھنا پڑا تو انھوں نے اس صورتحال سے نمٹنے کا فیصلہ کیا۔ وہ مانتے ہیں کہ لوگوں کا ہنسنا تو ختم نہیں کیا جاسکتا لیکن اپنے آپ کو مظبوط ضرور بنایا جا سکتا ہے۔

شیراز اقبال

سنہ 2018 میں متحدہ عرب امارات سے واپسی پر شیراز اقبال نے کراچی سٹیمر سرکل کی بنیاد رکھی

لوگ کیوں ہکلاتے ہیں؟

ایک اندازے کے مطابق دنیا کی کُل آبادی کے ایک فیصد افراد لُکنت کا شکار ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ہکلاہٹ کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں نفسیاتی اور موروثی عوامل بھی شامل ہیں۔

سپیچ تھراپسٹ سیما احمد کا کہنا ہے کہ بچوں میں ہکلاہٹ کی وجہ نشوونما میں تاخیر ہوتی ہے جو عمر کے ساتھ ساتھ اکثر ختم ہو جاتی ہے جبکہ بڑی عمر کے افراد میں اس مسئلے کی وجہ فالج یا دماغ کی چوٹ بھی ہو سکتی ہے۔

سیما احمد کہتی ہیں کہ معاشرے کو چاہیے کہ وہ ہکلاہٹ کو بیماری کے بجائے ایک ’سپیچ ڈس آرڈر‘ سمجھے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کسی بچے میں ہکلاہٹ کی علامات نظر آئیں تو اسے فوراً سپیچ تھراپسٹ کے پاس لے جایا جائے تاکہ کم عمری میں ہی بچے کی ہکلاہٹ پر قابو پایا جا سکے۔

سٹیمر سرکل

کراچی سٹیمر سرکل ہکلاہٹ کے شکار افراد کے لیے سیلف ہیلپ گروپس منعقد کرتا ہے

کراچی سٹیمر سرکل

متحدہ عرب امارات میں لُکنت کا شکار افراد کے لیے قائم ایک ’سیلف ہیلپ گروپ‘ میں شامل ہونے کے بعد شیراز کی زندگی میں خوشگوار تبدیلی آئی۔

’گروپ کا حصہ بننے کے بعد میری خود اعتمادی میں اضافہ ہوا اور مجھے سٹیمرنگ کے ساتھ جینے کا فن آ گیا۔‘

شیراز مانتے ہیں کہ ہکلانے والا شخص جب اپنی ہکلاہٹ کو قبول کرلیتا ہے تو وہ اس پر قابو پانے کی پوزیشن میں آجاتا ہے۔

پاکستان واپسی پر شیراز کو کراچی میں ایک ایسے ہی گروپ کی تلاش تھی۔ ’میں نے فیس بک کے ذریعے بے شمار ایسے افراد سے رابطہ کیا جو ہکلاہٹ کا شکار تھے۔ بس اسی طرح کراچی سٹیمر سرکل کی بنیاد پڑی اور اب ہم مہینے میں دو بار اپنے گروپ کی میٹنگز کرتے ہیں۔‘

سٹیمر سرکل

شیراز کہتے ہیں ‘دوستوں اور گھر والوں نے کبھی یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ میں ہکلاتا ہوں’

ہکلاہٹ کا حل کیا ہے؟

سپیچ تھراپسٹ سیما احمد کہتی ہیں کہ ہکلاہٹ پر مکمل قابو پانا ممکن نہیں لیکن سپیچ تھراپی اور کاؤنسلنگ کے ذریعے اس کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

شیراز اقبال ان سے اتفاق کرتے ہیں۔ ’کراچی سٹیمر سرکل کے ذریعے ہم اپنی مشکلات ایک دوسرے سے شیئر کرتے ہیں اور ان کا حل نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیونکہ ہکلانے والے اکثر افراد دوسروں کا سامنا کرنے سے گھبراتے ہیں اس لیے ہم پبلک سپیکنگ کی پریکٹس بھی کرتے ہیں۔‘

شیراز کے مطابق ایک دوسرے سے رابطوں اور ملاقاتوں کے ذریعے نا صرف ممبرز کی ہکلاہٹ پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے بلکہ ان کی خوداعتمادی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

مشہور لوگ جو ہکلاتے تھے

گالف کے مشہور کھلاڑی ٹائیگر ووڈز، سابق امریکی نائب صدر جو بائیڈن، اداکارہ جولیا رابرٹس، بروس ویلس اور سیمیول جیکسن اپنی زندگی کے ابتدائی دنوں میں ہکلاتے تھے جبکہ برطانوی شہنشاہ جارج ششم تمام عمر لُکنت سے نبرد آزما رہے۔ سنہ 2010 میں ان کی اس جدوجہد پر مبنی ہالی وڈ فلم ’دی کنگز سپیچ‘ نے چار آسکر ایوارڈز بھی جیتے تھے۔

سٹیمر سرکل

کراچی سٹیمر سرکل کے اراکین پبلک سپیکنگ کی پریکٹس بھی کرتے ہیں

ہکلانے والے افراد سے کیسے بات کریں

شیرازاقبال کہتے ہیں کہ معاشرے کو ہکلانے والے افراد کے بارے میں اپنے رویوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

’میں نے اکثر سنا ہے کہ لوگ ہکلانے والے افراد کے ساتھ بیٹھنا پسند نہیں کرتے کہ کہیں وہ بھی نا ہکلانے لگیں۔ کچھ لوگ ہمیں ذہنی مریض سمجھتے ہیں جبکہ کچھ کہتے ہیں کہ ہم ان کو بے وقوف بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔‘

شیراز کا کہنا ہے کہ ہکلانے والے شخص سے گفتگو کرتے ہوئے ضروری ہے کہ اس کی بات تحمل سے سنی جائے اور کسی صورت مذاق نہ اُڑایا جائے۔

’ہمیں بولنے کا موقع دیں۔ پوری بات سنیں اور براہ مہربانی ہمارا جملہ مکمل کرنے کی ہرگز کوشش نا کریں۔ اس سے ہماری خود اعتمادی کو ٹھیس پہنچتی ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp