برطانیہ: برمنگھم میں والدین مقامی سکول انتظامیہ کے خلاف سراپا احتجاج کیوں ہیں؟


نو آؤٹ سائیڈرز

اس معاملے پر تنازعے کا آغاز اس سال جنوری میں ہوا جب چند والدین میں اس بات کی شکایت کی کہ پارک فیلڈ سکول میں جو کچھ پڑھایا جا رہا ہے وہ ان کے اسلامی عقیدے کے خلاف ہے

برمنگھم میں گزشتہ چند ماہ سے پرائمری سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کے والدین مقامی سکول انتظامیہ کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ اس احتجاجی تحریک کا محور جنسی معاملات کے بارے میں متعارف کرائی جانے والی کلاسیں ہیں جنہیں اکثر والدین چھوٹی عمر کے بچوں کے لیے نقصان دہ سمجھتے ہیں۔

والدین کا سب سے بڑا اعتراض ہم جنسیت اور خواجہ سراؤں کے بارے میں بتایا جانے والا مواد ہے جسے ان سکولوں میں متعارف کرایا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کی آڑ میں ان کے کم عمر کے بچوں کی ہم جنسیت کے بارے میں ذہن سازی کی جا رہی ہے۔

میڈیا میں سامنا آنے والی خبروں کے مطابق کئی والدین نے اپنے بچوں کو سکول بھیجنا بند کر دیا ہے اور اس تعلیمی پروگرام کو متعارف کرانے والے اساتذہ اور ہیڈ ٹیچروں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

آغاز کیسے ہوا ؟

اس سارے معاملے کا آغاز ’نو آؤٹ سائیڈرز‘ پراجیکٹ سے ہوا جسے آلم راک کے علاقے میں واقع پارک فیلڈ سکول کے اسسٹنٹ ہیڈ ٹیچر اینڈریو مافٹ نے 2014 میں متعارف کرایا تھا۔ یہ پراجیکٹ ایل جی بی ٹی افراد کے حقوق سے متعلق ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ہم جنس پرست افراد کی زبردستی شادیاں

’سلمان رشدی نے میری نسل کو بنیاد پرست بنایا‘

‘آپ مذہب اور کھیل کو ساتھ چلا سکتے ہیں‘

برطانیہ میں مساجد پر حملوں کی نئی لہر

اس پراجیکٹ میں تصویری کہانیوں کے ذریعے بچوں کو یہ بتایا گیا کہ ایک کتا خود کو ارد گرد کے ماحول میں اجنبی کیوں محسوس کرتا ہے اور یہ کہ دو نر پینگوئن مل کر ایک بچے کی کس طرح پرورش کرتے ہیں۔ اس نصاب میں ایک لڑکے کی بھی کہانی ہے جو جل پری کا لباس پہن کر خوشی محسوس کرتا ہے۔

اگرچہ اس پراجیکٹ کو شروع میں پارک فیلڈ سکول میں متعارف کرایا گیا تھا لیکن بعد میں ملک بھر کے کئی اور سکولوں میں بھی اس کا آغاز کر دیا گیا۔

تنازع ہے کیا؟

اس معاملے پر تنازعے کا آغاز اس سال جنوری میں ہوا جب چند والدین نے اس بات کی شکایت کی کہ پارک فیلڈ سکول میں جو کچھ پڑھایا جا رہا ہے وہ ان کے اسلامی عقیدے کے خلاف ہے۔

نو آؤٹ سائیڈرز

اینڈرٹن پارک سکول کے سامنے مظاہروں کی قیادت کرنے والے عامر احمد کہتے ہیں کہ ان کے لیے یہ ایک دینی مسئلہ ہے اور وہ اس بات سے لاتعلق نہیں رہ سکتے کہ ان کی کمیونٹی کے بچوں کو کیا پڑھایا جا رہا ہے

اس سلسلے میں پارک فیلڈ کی ایک طالبہ کی والدہ مریم احمد نے ایک دستخطی مہم شروع کی جس میں کہا گیا تھا کہ ’چھوٹی عمر کے بچوں کو اس طرح کے نازک معاملات کے بارے میں بتانا غلط ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’چار اور پانچ سال کے بچے بہت ہی ناسمجھ ہوتے ہیں اور ان سے ان کے جنسی میلاپ کے بارے میں بحث کرنا ٹھیک نہیں ہے۔‘

سکول انتظامیہ کا کہنا تھا کہ وہ ’اس پراجیکٹ کے ذریعے بچوں کو انسانی مساوات کے قانون ایکوالٹی ایکٹ 2010 اور برطانوی اقدار سکھا رہے ہیں اور انہیں یہ بتا رہے ہیں کہ وہ جیسے بھی ہیں انہیں اس پر فخر ہونا چاہیے۔‘

سکول انتظامیہ کا کہنا تھا کہ ’اس پراجیکٹ کے ذریعے بچوں کو ماڈرن برطانیہ میں زندگی گزارنے کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔‘

اس دستخطی مہم کے نتیجے میں سکول کے اسسٹنٹ ہیڈ ٹیچر اور والدین کے درمیان بات چیت کے کئی دور ہوئے لیکن معاملات کو سلجھایا نہ جا سکا۔ اس کے چند روز بعد ہی سکول کے باہر مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا اور چند والدین نے اپنے بچوں کو سکول بھیجنا بند کر دیا۔

اس احتجاج کے بعد پارک فیلڈ سکول میں ’آؤٹ سائیڈرز‘ کے اسباق کو روک دیا گیا تاکہ سکول انتظامیہ والدین سے بات چیت کر سکے اور انہیں اس کی افادیت کے بارے میں اعتماد میں لے سکے۔

بعد میں برمنگھم کے لہہ پرائمری سکول، آسٹن پرائمری سکول، مالبرو جونیئر سکول اور ونڈ کلف پرائمری سکول میں بھی جنسی تعلیم کی کلاسوں کو روک دیا گیا۔

نو آؤٹ سائیڈرز

سکول انتظامیہ کا کہنا تھا کہ اس پراجیکٹ کے ذریعے بچوں کو ماڈرن برٹین میں زندگی گزارنے کے لیے تیار کیا جا رہا ہے

لیکن اس سے احتجاج کا سلسلہ نہ رک سکا اور جلد ہی پارک فیلڈ سکول کی طرح بال سال ہیتھ میں واقع اینڈرٹن پارک پرائمری سکول میں بھی احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے جہاں کی ہیڈ ٹیچر سارہ ہیوٹ کلارکسن ہیں۔

انہوں نے ہیڈ ٹیچرز ایسوسی ایشن کے ایک اجلاس کو بتایا کہ ان کے خلاف احتجاجی مظاہروں کی قیادت کرنے والوں کا اس سکول اور وہاں پر زیر تعلیم بچوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اور ’وہ صرف اپنی لیڈری چمکانے کے لیے اس معاملے کو استعمال کر رہے ہیں۔‘

اینڈرٹن پارک سکول کے سامنے مظاہروں کی قیادت کرنے والے عامر احمد اس کی تردید کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ان کے لیے یہ ایک دینی مسئلہ ہے اور وہ اس بات سے لاتعلق نہیں رہ سکتے کہ ان کی کمیونٹی کے بچوں کو کیا پڑھایا جا رہا ہے۔

انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مسلمان ایک روایت پسند کمیونٹی ہے جو روایتی خاندانی اور اخلاقی اقدار پر یقین رکھتے ہیں اور یہ کہ مسلمان ہم جنسیت کو ایک جائز جنسی تعلق کے طور پر قبول نہیں کر سکتے۔‘

انھوں نے بی بی سی کے پروگرام نیوز نائٹ کو بتایا کہ ’ان کلاسوں کا مقصد ایل جی بی ٹی حقوق کے بارے میں بتانا نہیں بلکہ بچوں کی جنس پرستی کے بارے میں ذہن سازی کرنا ہے۔‘

بی بی سی نیوز نائٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق احتجاج کا دائرہ پھیل رہا ہے اور اب برمنگھم کے علاوہ مسلم آبادی والے دیگر شہروں پریڈفورڈ، برسٹل، کرائیڈن، ایلنگ، مانچسٹر، نارتھمٹن اور ناٹنگھم میں بھی سکولوں اور والدین کو اس سلسلے میں خطوط موصول ہوئے ہیں۔

حکومتی موقف کیا ہے؟

نو آؤٹ سائیڈرز

سکولوں میں تعلیمی معیار پر نظر رکھنے کے ذمہ دار ادارے آفسٹڈ نے پروگرام ‘نو آؤٹ سائیڈز’ کی حمایت کی ہے

سکولوں میں تعلیمی معیار پر نظر رکھنے کے ذمہ دار ادارے آفسٹڈ نے پروگرام ’نو آؤٹ سائیڈز‘ کی حمایت کی ہے۔ آفسٹڈ کی سربارہ اور چیف انسپیکٹر امینڈا سپیلمین نے کہا ہے کہ تمام بچوں کو ہم جنس جوڑوں کے بارے میں لاًزمی بتایا جانا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ضروری ہے کہ بچوں کو معاشرے میں پائے جانے والے مختلف نوعیت کے لائف سٹائل سے متعلق بتایا جائے اور انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ کچھ خاندان ایسے ہیں جہاں دو مائیں یا دو باپ بچوں کی پرورش کرتے ہیں۔

آفسٹڈ نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ انہیں ایسے کوئی شواہد نہیں ملے کہ پارک فیلڈ سکول کے نصاب میں ایل جی بی ٹی معاملات پر ضرورت سے زیادہ زور دیا گیا ہو یا اسے غیر موزوں طریقے سے پڑھایا گیا ہو۔

وزیر تعلیم ڈیمیئن ہائنڈز نے بھی یہ بات سکول انتظامیہ پر چھوڑی ہے کہ وہ کیا پڑھانا چاہتے ہیں۔ تاہم انھوں نے کہا ہے کہ سکول انتظامیہ کو والدین کے نقطہ نظر سے آگاہی ہونی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp