نکلنا درویش کا بستی سے اور ملنا ایک گیانی سے


دیس میں عید کا روز تھا۔ ہلال عید کی بے معنی بحث جاری تھی، غریب کا آٹا گیلا تھا، زور آور کی کمان چڑھی تھی، قیدی بندی خانوں میں تھے اور نقال رنگ رنگ کا بہروپ دھارے راج سنگھاسن پر رونق دیتے تھے۔ پرجا روٹی کے ٹکڑے کی فکر میں تھی اور زورآور گلی کوچوں میں سنکھ پھونکتے تھے۔ اللہ اللہ! اس دیار میں ہمارے پرکھوں نے ہند کا بٹوارا دیکھا، چند برس ہی گزرے تھے کہ ہم نے دیس کو دو لخت ہوتے دیکھا۔ ہم سے پہلوں نے پہاڑ جیسے سینوں پہ دو قیامتیں جھیلیں مگر حوصلہ نہیں ہارا۔ ویرانے میں بستی بسانے اور جنگل کو شہر کرنے کا خیال ترک نہیں کیا۔ یہی سوچا کہ جیسے بن پڑی، گھاس کے ان تنکوں سے آشیانہ بنائیں گے، یہاں ہمارے بچے آنکھ کھولیں گے، دانہ رزق کی تلاش میں پرواز کرنا سیکھیں گے، نئی زمینوں کی دریافت میں نکلیں گے۔ اوپر والے مالک نے بہت بڑی دنیا بنائی ہے، ہمارے حصے میں جو ٹکڑا آیا ہے، اسے علم سے روشن کریں گے، اسے امن اور بھائی چارے کا شوالہ بنائیں گے، ہمارے بچے یہاں سکھ کی نیند سوئیں گے۔ دور دیس سے لوگ ہماری پھول پھلواری دیکھنے آئیں گے، ہمارے ٹھنڈے میٹھے چشموں سے پیاس بجھائیں گے۔ ہمارے جوانوں کی ہنسی کا زمزمہ سنیں گے، ہمارے اہل دانش سے علم کے موتی چنیں گے۔ ہماری مٹی پر رشک کریں گے، ہمارے نیلے آسمان کی مہربان چادر پر حیرت کی نظر کریں گے۔

عزیزو، خواب کے ساتھ ایک دکھ کا تسمہ ضرور ہوتا ہے۔ رات تو اندھیرے کی اوٹ میں کٹ جاتی ہے، دن کے اجالے کا چاک مگر کیسے سلے؟ دل کا داغ اجاگر ہو کر سورج کو شرماتا ہے۔ درویش اسی جگ ہنسائی سے گھبراتا ہے۔ اس عید پر منہ اندھیرے شہر سے نکلا اور ایک نامعلوم سمت میں چلتا رہا۔ اور وہی قصور والے بلھے شاہ کا شبد کہ نہ کوئی ہمیں پہچانے اور نہ کوئی ہمارا اتہ پتا پوچھے۔

سورج کی کرنیں گویا تاک تاک کر زخموں کی خبر دیتی تھیں۔ پیڑوں کے سائے میں ہو لیا۔ یہاں ایک مہربان صورت گیانی راہ میں بیٹھے ملے۔ چاہا کہ کاوا کاٹ کر نکل لوں مگر شانت لہجے میں اس دھیرج سے پکارا کہ مٹی نے پاؤں پکڑ لئے۔ فرمایا بیٹھو، بیٹھ گیا۔ کٹورے میں پانی نکال کر دیا۔ ایک ہی گھونٹ میں پی گیا۔ سادہ پانی تھا مگر پیاس ایسی تھی کہ شربت معلوم ہوا۔ فرمایا، وہیں سے آ رہے ہو؟ کہا، جی۔ گیانی نے نام لیا اور نہ درویش نے صراحت کی۔ آنکھ کی پیالی سب سمجھتی ہے۔ فرمایا کچھ کہو، برس روز کو جو یوں بستی سے نکلے ہو، بے سبب تو نہیں ہو گا۔ عرض کی کہ آپ سب جانتے ہیں، میری کیا مجال کہ آپ کو خبر دوں۔ کہا نہیں، بہت سمے بیت گیا اس نگر سے رخصت ہوئے، حال تب بھی دگرگوں تھا۔ مگر اب تو بہت کچھ بدل گیا ہو گا۔ کچھ دیس کے شب و روز بتاؤ۔ یہ کہا اور ایک پیالہ پانی کا پھر ارزاں کیا۔

دو زانو بیٹھ گیا۔ دست بستہ عرض کی کہ رفتگان کی فہرست سازی لاحاصل ہے۔ بڑوں کا اٹھ جانا بنی آدم کی میراث ہے۔ ہمارے شہر پہ مگر یہ قیامت گزری کہ بستر پر موت آئے تو پرسے کے کلمات میں اطمینان بھی ہوتا ہے۔ اس واسطے کہ دہائیاں گزریں، بلامبالغہ ہزاروں نہیں، لاکھوں بے وقت گزر گئے۔ کسی کو گولی چاٹ گئی، کوئی بارود کے دھماکے میں ریزہ ریزہ ہوا، کسی نے دین داری کی سزا پائی، کوئی کفر کے الزام میں کھیت رہا، کوئی گھر کی انگنائی میں مارا گیا تو کسی کو راہ چلتے میں اجل نے آ لیا۔ ہزاروں ایسے ہیں کہ کوئی خبر نہیں، زمیں کھا گئی یا آسمان نے اچک لیا۔ کیا بچہ اور کیا بوڑھا، مرد و زن، خواجہ سرا، اہل تلوار، سرمایہ دار، نادار، اشراف، اجلاف، جو دن گزر جائے، خیر مناتے ہیں، جو ابھی نہیں آئی، اس گھڑی سے ڈرتے ہیں۔

کھیت کھلیان، بازار، نخاس، کارگاہ، کاروبار، اور روزگار کی صورت پہلے کونسی اچھی تھی، اب تو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑ گئے۔ بنیے سے قرض پر معاش ہے اور قرض کی واپسی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ ابھی گندم کی فصل کٹی ہے، منڈی میں آئے گی تو بھاؤ کھلے گا۔ اہل حرفہ سربزانو ہیں، اہل زر دم سادھے بیٹھے ہیں، بیوپار سے اعتبار اٹھ گیا۔ راج دربار کی سنیے۔ ودوانوں نے سر جوڑ کر مشاورت کی۔ بساط بچھائی، کسی کی ٹھوڑی میں ہاتھ دیا، کسی کو گھرکی دی، کسی کو پردہ دری کی دھمکی دی، کسی کو منصب کی ترغیب دی، اس لمبی مشق کے بعد جو رنگدار کبوتر ٹوپی سے نکالا، وہ زمیں پر سر نیہوڑائے بیٹھا ہے، اڑنا تو دور، پر پرواز میں پھڑپھڑاہٹ کا یارا تک نہیں۔ عمال حکام سب سوچ میں ہیں کہ دل کا کیا رنگ کریں خون جگر ہونے تک۔

ارد گرد کی سنیے، کیا دوست کیا دشمن، سب نے نظریں پھیر لیں۔ کوئی نہیں کہ دستگیر ہو۔ گھر والوں نے اپنا بھلا نہیں سوچا تو غیر غم خواری کو کیوں آئیں گے؟ گھر کے معاملات چلانے کا ہنر سیکھنے میں جنہوں نے بال سفید کئے، انہیں راندہ درگاہ قرار دے کر دیوار سے لگا دیا، جو اہل خبر اچھے برے وقت کی پیش بینی کرتے تھے، خاموش کر دیے گئے۔ ڈوم ڈھاڑیوں کا ایک طائفہ ہے کہ گلے بازی کئے جاتا ہے، سر سے اترا ہوا اور تال سے باہر۔

جلوس شاہی کا پہلا برس ختم ہونے پر آیا۔ چند روز میں اگلے برس کے لئے آنے ٹکے کا حساب بٹھایا جائے گا۔ عدل کے ترازو میں ارتعاش ہے۔ ابنائے وطن ناخوش ہیں اور سہمے ہوئے ہیں۔ کچھ خبر نہیں کہ موسم گرما کے ڈھلتے ڈھلتے کیا حالات ہوں گے۔ بڑی مشکل یہ ہے کہ خدا کا شکر واجب ہے مگر کسی کو خبر نہیں کہ ناخدا کون ہے۔ کسے پکاریں کہ نیا کسی پار لگے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).