مفتی منیب: ہزاروں سال نرگس اپنی۔ ۔ ۔


فواد چودھری صاحب فرماتے ہیں کہ سائنس کی مدد سے رویت ہلال کا پیشگی اور درست پتہ لگایا جا سکتا ہے۔ مفتی منیب ہیں کہ چودھری صاحب کی بات پر بچے سا مچل گئے۔ کہتے ہیں باقی سب تو ٹھیک ہے لیکن علماء کی قلمرو میں دراندازی نہ کیجئے۔ سچ کہئے تو اس جملے پر قربان جانے کو جی چاہتا ہے۔ مطلب یہ کہ کسی بھی معاملے میں کچھ بھی کرو جب تک ہماری روحانی امارت سلامت ہے تب تک نہ میں سمجھا نہ آپ آئے کہیں سے والا معاملہ رہے گا۔

البتہ اگر ہماری حویلی میں سیندھ ماری کی تو پھر سمجھ لو کہ تم کسی اور کو چاہو گے تو مشکل ہوگی۔ یقین مانیے میرے دوست محمد علم اللہ سوشل میڈیا پر جب اوروں کی دھلائی کرتے ہیں تو منیب صفت بزرگ ہنس ہنس کر دوہرے ہوئے جاتے ہیں لیکن جب علم اللہ علماء پر تنقید کرتے ہیں تو یہی اصحاب فرماتے ہیں کہ باقی سب تو ٹھیک ہے لیکن یہ مت کرو۔

ویسے سچ کہوں تو مفتی منیب اس عہد کی عبقری شخصیت ہیں۔ نئے پاکستان میں چاند دیکھنے والی اس پرانی آنکھ پر کیا کیا تبصرے نہیں ہوئے۔ عوامی نیشنل پارٹی نے ایک بار ان صاحب کو مشرف آمریت کی باقیات قرار دیا تھا۔ کہنے والے بولتے ہیں کہ جب سے اس بندے نے چاند دیکھنے کا بوجھ اپنے مضبوط کندھوں پر اٹھایا ہے تب سے کوئی عید ایسی نہیں گئی جب عید کا چاند تنازعات کے گہن میں نہ آیا ہو۔ جمہور امت کا ان باتوں پر اجماع ہونے کے باوجود کیسی دھاکڑ شخصیت پائی ہے مفتی صاحب نے کہ ایوان اقتدار میں وردی والوں کی جگہ اچکن والوں نے سنبھال لی، بیانیہ آیا، تبدیلی آئی اور نہ جانے کیا کیا آیا اور گیا لیکن چاند کی دوربین میں آنکھ ڈالے مفتی منیب ہی نظر آئے ہیں۔

اچھا ایک منٹ رکئیے۔ آپ کے ذہن میں یہ سوال تو نہیں آ رہا کہ مفتی منیب جیسی شخصیات کو یہ سدابہاری کیسے ملتی ہے؟ مسند کو یہ دوام اس وقت تک مل ہی نہیں سکتا جب تک کہ ایسا کرنا خود حاکموں کو درکار نہ ہو۔ انگریزی میں ایک لفظ ہے رِٹ۔ اگر حکومتوں کے پیروں میں مصلحت کی زنجیر نہ پڑی ہو تو اے فور سائز کے پیپر پر بمشکل چار آنے کی سیاہی خرچ کرکے رٹ قائم کی جا سکتی ہے۔ مفتی منیب معزولی کے اس پروانے کی وصولی کے بعد زیادہ سے زیادہ جو کچھ کریں گے وہ تو اب بھی کر ہی رہے ہیں۔

چلتے چلتے ایک بات اور سن لیجیے۔ صلحائے امت کی ایک جماعت کہتی ہے کہ سائنس بھلا رویت ہلال کا فیصلہ کیسے کر سکتی ہے؟ ابھی رمضان گزرا ہے، سحر و افطار کے ٹائم ٹیبل خوب چھپے اور بٹے ہیں۔ کیا کسی کو خیال آیا کہ اس میں صبح صادق اور غروب آفتاب کا ٹائم بنا آسمان دیکھے کیسے بنا دیا گیا؟ اگر بنا دیکھے چاند رات نہیں ہوتی تو سائنسی طریقہ کار سے طلوع و غروب کا پیشگی نظام الاوقات کیسے جائز ہے؟ مسجدوں میں بڑے بڑے بورڈ لگے ہوتے ہیں کہ اس مسجد میں کون سی نماز کس وقت ہوگی۔ کیا کسی نے پوچھا کہ آنکھوں سے زوال آفتاب اور طلوع و غروب کی تصدیق کیے بغیر ہم نماز کیسے پڑھ لیں؟

مفتی منیب اور فواد چودھری کا جھگڑا صرف چاند دیکھنے کے استحقاق کا تنازع نہیں ہے بلکہ یہ سائنس کی قلمرو میں جاتی دنیا میں اپنی معنویت بچائے رکھنے کی چھٹپٹاہٹ ہے۔

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter