کیا میں ایک شخص ہوں؟


”اگر میں شخص نہیں ہوں تو کیا ہوں؟ “

آٹھ سالہ منیر کے ذہن میں ایسے سوالات نے مستقل ڈیرا ڈالا ہوا تھا اور جب وہ سارے دن کی تھکن کے ساتھ بستر پر لیٹتا تو یہ الجھنیں اس کو نیند کی آغوش میں جانے سے روکنے کی کوشش کرتیں۔ لیکن آج اسے اتفاقاً اس سوال کا جواب مل گیا تھا کہ وہ اگر ایک شخص نہیں ہے تو کون ہے۔

وہ جیپ کی ٹکر سے زخمی ہونے سے تو بچ گیاتھا لیکن اس نے ڈرائیور سے بہت ڈانٹ کھائی تھی۔ اس نے گھر آکر کسی کو بھی اس بارے میں نہیں بتایا۔ وہ خود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا۔ اپنے چھوٹے چھوٹے کندھوں میں تکلیف کے باوجود منیر لیٹتے ہی خوابوں کی دنیا میں چلاگیاتھا۔

ابھی پچھلے مہینے کی بات ہے کہ منیر کے باپ نے رات کے کھانے کے بعد اسے بتایا کہ وہ کل سے اسکول نہیں جائے گا۔ ”بازار میں ہر چیز کو آگ لگی ہوئی ہے۔ بارہ گھنٹے مشین چلاتا ہوں پھر بھی خرچہ ہے کہ پورا ہی نہیں ہوتا۔ “ باپ یہ کہہ کر اپنی موٹی اداس آنکھوں سے کافی دیر تک خلا میں گھورتا رہا تھا۔

منیر کو بھی کوئی پڑھائی لکھائی کا شوق نہیں تھا۔ اس لئے اس کو یہ بات بری نہیں لگی البتہ منیرنے محسوس کیا کہ اس کی ماں اس فیصلے پرکافی پریشان تھی لیکن اس بارے میں خاموش ہی رہی۔ منیر کے کچھ دوست بھی اسکول چھوڑ چکے تھے اور گھروں میں یا دکانوں میں نوکر بن کرکام کررہے تھے۔

”کل میں اسکول نہیں جاؤں گا تو کیا کروں گا؟ “ منیر نے ڈرتے ہوئے پوچھا۔

”کل صبح بتا دوں گا، اب جا، سو جا۔ “ باپ نے دن بھر کے پسینے اور گرد و غبار سے اٹی ہوئی قمیض اتار کر صاف بنیان پہنتے ہؤے کہا۔

رات کو منیر حسب معمول ایک کونے میں جا کر لیٹ گیا۔ منیر، اس کے تین بھائی، ایک بہن، ماں باپ سب ایک کمرے میں گدے بچھا کر سو جاتے اور صبح ان گدوں کو کمرے کے ایک کونے میں سمیٹ دیتے۔

منیر صبح روز کی طرح سات بجے اٹھ گیا۔ ”چلو اچھا ہوا، اسکول سے جان چھٹی۔ لیکن یہ ابّا تو مجھے گھر بیٹھنے نہیں دے گا۔ “

رات کی بچی ہوئی روٹیاں سب نے مل کر چائے میں ڈبو کر کھائیں۔ اس کے بعد ابا نے منیر کو اشارے سے بلایا اور نرمی سے بولا۔ ”آج سے تو ایک گھر کا ملازم بن جائے گا جہاں تو صبح آٹھ بجے سے شام آٹھ بجے تک کام کیا کرے گا۔ بہت بھلے مانس لوگ ہیں۔ “

منیر یہ سن کر کافی پریشان ہو گیا لیکن ماں باپ سے اسے دل کی بات کہنے کی عادت نہیں تھی۔ ”پتا نہیں میرے مالک میرے ساتھ کیا سلوک کریں گے! عمران اور وقار تو یہ بتایا کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ اچھا برتاؤ ہوتا ہے لیکن زاہد کو کبھی کبھی مارا پیٹا بھی جاتا ہے۔ “

زاہد کے بارے میں سوچ کر اس کے پیٹ میں درد ہو رہا تھا۔ ”اماں، میرے پیٹ میں آج درد ہو رہا ہے۔ کیا میں آج گھر پے رہ سکتا ہوں؟ “

ماں نے فوراً منیر کے باپ سے التجا کی۔ ”منیر کے پیٹ میں درد ہے۔ کل سے کام شروع کر دے گا۔ “

” تو نے ہی تو اسے بگاڑا ہے۔ سارا دن گلی میں آوارہ پھرتا ہے۔ پچھلے ہفتے تو پولیس آئی تھی جب اس نے ساتھ والی گلی میں جا کر کسی کا سر پھوڑ دیا تھا۔ بڑی مشکل سے اسے بچایا ورنہ اب تک تھانے میں پڑا سڑ رہا ہوتا۔ کام پر جانے کا وقت آیا تو اس کے پیٹ میں درد شروع ہو گیا۔ تیار ہو جا فوراً ورنہ تجھے تھانے چھوڑ آتا ہوں۔ “

ماں نے منیر کو صاف ستھرے کپڑے پہنائے پھر اسے اپنے ساتھ لگا کر بال کنگھی کیے۔ منیر اور اس کا باپ گھر سے چل دیے۔ منیر کے لئے ہر قدم بھاری تھا لیکن باپ کی ڈانٹ سے ڈر کر اس کی تیز رفتار کا ساتھ دیا۔ تقریباً ایک کلو میٹر کے فاصلے پر گلشن ٹاؤن تھا۔ منیر کا باپ ایک گھر کے سامنے رکا اور دبی آواز میں چوکیدار سے کہا ”میڈم کو بتا دو کہ نیا نوکر آگیا ہے۔ “ یہ سن کر چوکیدار بغیر کوئی جواب دیے اندر چلا گیا۔

گیٹ کے بند ہوتے ہی باپ نے بیڑی کا ایک لمبا کش لیا اور منیرکی طرف مڑا۔ ”مجھے کام کے بارے میں کوئی شکایت نہیں آنی چاہیے۔ یہاں محنت سے کام کرو۔ زندگی بن جائے گی۔ “

منیر خاموش ہی رہا۔ اس نے اپنے پیٹ پر زور سے ہاتھ رکھا ہوا تھا۔

چند منٹ کے بعد چوکیدارآیا۔ ”میڈم نے نوکرکو اندر بلایا ہے۔ “

منیر نے بھر پور نظروں سے باپ کو دیکھا جیسے اس کا باپ اسے کسی مقتل میں چھوڑ کر جا رہاہو اور پر نم آنکھوں کے ساتھ کچھ کہے بغیر چوکیدارکے ساتھ اندر چلاگیا۔ میڈم برآمدے میں کرسی پربیٹھی ہوئی تھی۔ وہ منیر کو باورچی خانے میں لے گئی اور اسے دو ڈبل روٹی کے سلائس مکھن لگا کر دودھ کے ساتھ دیے۔ اس نے شاید پہلی بار زندگی میں ایسا ناشتہ کیا تھا۔ اس کے بعد میڈم نے اسے کام سمجھایا دوبار دن میں پوچالگانا، جھاڑو دینا، وغیرہ وغیرہ۔ منیر سے اگر کوئی غلطی بھی ہوئی تو میڈم نے اس کو آرام سے سمجھا دیا۔ دوپہر کو منیر نے دو روٹیاں پالگ گوشت کے ساتھ کھائیں۔ اب اس کے پیٹ کا درد بھی ختم ہو چکا تھا۔

”ابا نے صحیح تو کہا تھا کہ اس گھر میں میں عیش کروں گا اور میری زندگی بن جائے گی۔ “

شام کی چائے جس کے بارے میں وہ خیالوں میں بھی نہیں سوچ سکتاتھا پینے کو ملی تو اس کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آگئے۔ رات کا کھانا کھا کر وہ آٹھ بجے گھر واپس آگیا۔

کچھ دن ایسے ہی گزر گئے۔ منیر کو یہ پتا بھی نہیں تھا کہ ابا کو میڈم اس کی مزدوری کے کتنے پیسے دیتی تھی۔ اسے یہ پوچھنے کی ہمت ہی نہ ہوئی اور نہ ہی اسے پیسوں سے دلچسپی تھی۔ وہ پیٹ بھر کر نئے نئے کھانے کھا کر خوش رہتا اور محنت اور صفائی سے سارے کاموں کو نمٹاتا۔

ایک دن جب وہ میڈم کے گھر پہنچا تو دیکھا کہ گھر میں کافی چہل پہل تھی۔ میڈم نے بتایا ”میری باجی باہر سویئڈن سے آئی ہیں، تم ان کے آرام اور ان کے کمرے کی صفائی پر زیادہ دھیان دینا۔ “

منیر باہر والی میڈم کو دیکھ کر سوچ میں پڑ جاتا۔ ”یہ سوڈن کون سی دنیا ہے جس کے بارے میں میں کچھ نہیں جانتا۔ یہ عورت مردوں کی طرح پینٹ قمیض بھی پہنتی ہے۔ یہ روز شاپنگ کے لئے چلی جاتی ہے اور کئی گھنٹے فون پر باتیں کرتی رہتی ہے۔ “

منیر کو تجسس تھا کہ وہ کیا باتیں کرتی ہے لیکن اس میڈم کی آواز بہت آہستہ تھی اس لئے وہ ایک آدھ جملہ ہی سن پاتا تھا۔ اس کو یہ میڈم بہت اچھی لگتی تھی کیونکہ وہ روز اس کو ایک بڑی چاکلیٹ دیتی تھی۔ تھوڑی سی چاکلیٹ وہ گھر والوں کے لئے بچا کر رکھ لیتا۔ گھر جا کر وہ باہر والی میڈم کے بارے میں باتیں کرتارہتا۔

ایک دن منیر نے باہر والی میڈم کو فون پر یہ کہتے ہوئے سنا۔ ”یہاں تو ہر شخص کے پاس نوکر چاکر ہیں۔ “

اس وقت تو منیر نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی لیکن رات کو وہ جب بستر پر لیٹا تو یہ جملہ اس کے دماغ میں گھومنے لگ گیا۔ اگلے دن اس نے اپنی ماں سے پوچھا۔ ”یہ شخص کیاہوتا ہے؟ “

”انسان کو ہی شخص کہتے ہیں۔ “ ماں نے انگیٹھی سلگاتے ہوئے بغیر مڑے جواب دیا۔
”اماں کیا میں بھی ایک شخص ہوں؟ “

”ہاں بیٹا، تو جلدی کر تجھے وہاں آٹھ بجے پہنچنا ہے۔ “
”اماں تو میں سچ مچ ایک شخص ہوں اور تم بھی کیا ایک شخص ہو؟ “

”آج تو کیسی باتیں کر رہا ہے، تو تَو میرا چھوٹا منّا ہے۔ “ ماں نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
”اگر میں بھی شخص ہوں اور تم بھی شخص ہو تو ہمارے نوکر چاکر کہاں ہیں؟ “

”پھر تو شخص کے پیچھے پڑ گیا۔ ہم لوگ تو خود ہی نوکر چاکر ہیں۔ “
”اماں سوڈن والی میڈم کہہ رہی تھی کی یہاں ہر شخص کے پاس نوکر چاکر ہیں۔ ہمارے نوکر چاکر کہاں ہیں؟ “

اماں نے گہری سانس بھرتے ہوئے کہا۔ ”ہم ہی تو ان کے نوکر چاکر ہیں۔ “
”پھر ہم شخص نہیں ہیں۔ اماں، ہم کیا ہیں؟ “

”یہ امیر لوگوں کی باتیں تیری سمجھ میں نہیں آئیں گی۔ بیٹا تو اپنے کام سے کام رکھ۔ “ ماں نے چھوٹی دیگچی چولھے پر رکھتے ہوئے کہا۔
منیر سارادن اسی بارے میں سوچتارہا یہاں تک کہ اس کے سر میں درد ہونا شروع ہو گیا۔ اس کے ذہن میں یہ جملہ باربار گھوم رہا تھا۔
”یہاں تو ہر شخص کے پاس نوکر چاکر ہیں۔ “

گھر جا کر اس نے پھر اماں سے سوال کیا ”اماں تم ایک شخص ہو تو تمہارے نوکر چاکر کہاں ہیں؟ باہر والی میڈم تو فون پر کسی کو یہ بتا رہی تھی کہ یہاں ہر شخص کے پاس نوکر چاکر ہیں۔ “

”تو ایک ہی بات کیے جارہاہے۔ میں نے تجھے منع کیا تھا کہ ایسی باتیں نہیں سوچتے۔ اگر تو ایسی باتیں کرنے سے باز نہیں آیا تو میں تیرے ابا کو بتاتی ہوں۔ “ ماں نے اپنا دایاں بازو دباتے ہوئے کہا۔

منیر نے اس بارے میں دوبارہ اماں سے بات نہیں کی لیکن اس کے ننھے دماغ کو یہ بات دیمک کی طرح چاٹ رہی تھی۔ ”کیا میں ایک شخص ہوں؟ اگر میں شخص نہیں ہوں تو کیا ہوں؟ “

ایک اندھیری رات میں جب وہ کام سے لوٹ رہاتھا تو اس کے دماغ میں چکی سی چل رہی تھی۔ وہ کون تھا، شخص یا کچھ اور؟ سڑک ویران تھی۔ ویسے بھی اس پر دن میں بھی زیادہ ٹریفک نہیں ہوتا تھا۔ گاہے گاہے کوئی رکشہ یا اسکوٹر وہاں سے گزرجاتا تھا۔ کبھی کبھار اکا دکا کار بھی نظر آجاتی تھی۔ منیر اپنی دھن میں سر جھکائے چلتا رہا۔ ”میں کون ہوں، میں کیا ہوں؟ “ یہ سوال اس کے ذہن پر ہتھوڑے چلا رہا تھا۔ وہ اپنے محلے میں پہنچ چکا تھا۔

آگے سڑک پار کرکے اس کی گلی تھی۔ حالانکہ بجلی کے کھمبے پر لگا ہوا بلب زیادہ طاقتور نہیں تھا مگر پھر بھی اچھی خاصی روشنی تھی۔ جیسے ہی وہ سڑک پار کرنے کے لئے آگے بڑھا تو اسے اپنی بائیں جانب ٹائروں کے گھسٹنے کی آواز سنائی دی اور کار کے ہارن کی اور پھر بایئں کندھے پر ہلکا سا دھکّا۔ منیر سڑک پر بکھرے ہوئے گارے میں گر گیا مگر فوراً کھڑا ہو گیا۔ کان پھاڑ آواز سن کر اس میں نہ پیچھے ہٹنے کی طاقت تھی اور نہ آگے بڑھنے کی۔ معلوم ہوتا تھا کہ اس کے پاؤں زمین سے چپک گئے تھے۔ اس نے مڑکر دیکھا تو ایک جیپ آدھے میٹر کے فاصلے پر آکر رکی ہوئی تھی۔ جیپ کا دروازہ کھول کر ایک آدمی تیزی سے اس کی طرف بڑھا۔

”اندھا ہوگیا ہے کیا؟ “ وہ شخص اس کے اوپر جھک کر چلایا۔ منیر نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا مگر اس کی شکل نظر نہیں آئی کیونکہ اس کی پشت پر جیپ کی اگلی روشنیاں چمک رہی تھیں۔ اسے دیکھ کر منیر کو الہ دین کا دیو یاد آگیا جو اس نے ایک مرتبہ میڈم کے گھر ٹی وی پر دیکھا تھا۔

”مگر وہ تو بڑا اچھا دیو تھا، “ اس نے سوچا۔ ”وہ تو الہ دین کی ہرخواہش پوری کرتا تھا۔ “

”سڑک پر چلنے کی تمیز نہیں ہے۔ اگر کچلا جاتا تو؟ “ وہ شخص منیر پر جھکا ہوا چیخے جارہا تھا اور منیر کی گھگھی بندھی ہوئی تھی۔ وہ سر اٹھا ئے اس دیو کو گھوررہا تھا اور اس کی آنکھیں خوف سے پھٹی ہوئی تھیں۔ وہ باوجود کوشش کے اپنا منہ نہ کھول سکا، صرف ہاتھ جوڑ کر کھڑا اسے خاموشی سے تک رہا تھا۔

آخر وہ آدمی اپنی جیپ کی طرف پلٹا مگر اس کی بڑبڑاہٹ جاری تھی، ”نہ معلوم کیوں گندی نالیوں کے کیڑے رینگتے ہوئے سڑک پر آجاتے ہیں؟ “

منیر نے اپنے ہاتھ گرائے اور دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔ جیپ ایک فراٹے کے ساتھ اس کے سامنے سے گزر گئی اور وہ دور تک اس کی پشت کی روشنیوں کو دیکھتا رہا یہاں تک کہ وہ اگلے موڑ پر غائب ہوگئیں۔ اس نے ادھر ادھر نظر ڈالی اور سڑک پار کی۔

اپنی گلی میں داخل ہوتے ہوئے اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی، ایک تھکی تھکی سی، بے جان مسکراہٹ۔ اسے بالآخر اپنے سوال کا جواب مل گیا تھا۔

حبیب شیخ
Latest posts by حبیب شیخ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).