مشترکہ خاندانی نظام کا عذاب


شادی نام ہے خوشی خوشی ایک نئے گھر کی بنیاد رکھنے کا، نئی امیدوں کا، نئے چراغ جلنے کا۔ ایک خاندان کا دوسرے خاندان کے ساتھ رشتہ جوڑنے کا۔ جب بھی کوئی شادی کارڈ چھپتا ہے تو جلی حروف میں ”شادی خانہ آبادی“ لکھوایا جاتا ہے۔ ہے تو یہ رسم دنیا، لیکن ان الفاظ کو پڑھ کے ایک سرور سا رگوں میں دوڑنے لگتا ہے۔

ہمارے یہاں 70 فیصد سے زیادہ دیہی آبادی والے ملک میں اکثریت آج بھی ”مشترکہ خاندانی نظام“ کے تحت زندگی گزار رہی ہے۔ بڑے شہروں کے حالات ہو سکتا ہے کچھ مختلف ہوں، مگرچھوٹے شہروں میں کچھ ایسا ہی خاندانی نظام چل رہا ہے۔ ادھر جب کوئی نیارشتہ جڑتا ہے، ایک کھلبلی سے مچ جاتی ہے۔ کیا اپنے، کیا پرائے سب بصد شوق پورے جوش و خروش سے اس شادی کے لئے پلاننگ کرنے لگتے ہیں۔ دلہن کی ”بری“ سے لے کر ”ولیمے“ کے کھانے تک سب اپنی اپنی رائے ”حسب توفیق“ پیش کرتے ہیں۔

بارات کی تیاری سے روانگی تک ”دولہا“ بے چارہ ڈرا سہما رہتا ہے کہ کہیں کوئی پھوپھی، خالہ، چاچا، تایا یا ماما کوئی پھڈا ہی نہ ڈال دے۔ گھر والوں کی جان الگ سولی پہ ٹنگی رہتی ہے کہ کہیں رنگ میں بھنگ نہ پڑ جائے۔ اور اگر خوش قسمتی سے شادی کے تمام فنکشن بخیریت انجام پا ہی جائیں، تو ایک آدھ کردار ایسا نکل آتا ہے جو بہت قریبی بھی ہوتا ہے اور اسے ”شادی کا کھانا“ صحیح طرح سے نہیں ملتا۔ یوں خوشی سے بھر پور ماحول میں تھوڑی سی ”تلخی“ کا تڑکا لگ کر نئے جوڑے کو بہت کچھ سمجھا دیتا ہے۔

اصل امتحان اب شروع ہوتا ہے۔ دلہن اگر خاندان سے تو اسے ”پیپر کے سلیبس“ کا کچھ نہ کچھ اندازہ پہلے سے ہی ہوتا ہے اور وہ حسب ضرورت خود تیار کر کے آتی ہے کہ کہاں کس موڑ پر کیسے گزرنا ہے۔ لیکن اگر نصیب کی ماری ”غیر خاندان“ میں بیاہ کر آ گئی ہے، تو سمجھ لیجیے سر ”اوکھلی“ میں آیا۔ نا کسی کے مزاج کا پتا اور نہ کسی کی فطرت کی خبر۔ معلوم ہی نہیں پڑتا کس فرد کا مزاج کس بات پہ برہم ہے اور کون بلا سبب گرم ہے۔

ساس سے تو کوئی ”آس“ رکھنا ہی نری بے وقوفی ہے، نندیں، دیور، دیورانی، جٹھانی سب اپنے اپنے مزاج کے مالک ہیں، لہزا ان سے بھی فاصلہ چار فٹ اور خطرہ 440 وولٹ۔

نئے جوڑے کے مسئلے ہزار، نئی نئی شادی اور ایک دوسرے کے مزاج سے نا آشنائی، ساتھ ساتھ ساس اورنندوں کی لگائی بجھائی، دولہن بے چاری کی تو دن رات بس شامت ہی آئی۔ اس حد تک تو پھر بھی قابل برداشت ہوتا ہے، ضبط تو تب جواب دیتا ہے جب ”محرم“ ساتھ بیٹھے تو ”مجرم“ کہلائے اور نا محرم جب چاہے منہ اٹھائے، دنداناتا آئے، آپ کے ذاتی معاملات میں ٹانگیں اڑائے۔

وقت گزرتا ہے، شادی پرانی اور مسائل مزید گھمبیر ہوتے جاتے ہیں۔ بچوں کی لڑائیوں سے لے کر بڑوں کی پیشانیوں کی شکنوں تک، رشتوں میں کڑواہٹ پھیلنے لگتی ہے۔ اخلاقیات کا جنازہ اٹھنے لگتا ہے۔ دلوں میں کدورتیں جنم لینے لگتی ہیں۔ نفرتیں اتنی بڑھتی ہیں کہ معصوم بچوں کے ذہنوں کو بھی پراگنندہ کر دیتی ہیں۔ حقوق و فرائض کی جنگ میں الجھی مائیں، (جہاں حقوق اپنے پاس رکھئے، فرائض دوسروں میں بانٹئے کا اصول چلتا ہو) اپنے بچوں کو ”تخریب کاری“ ہی سکھاتی ہیں کیونکی تخلیق کاری تو ذہنی سکون میں ممکن ہے۔

مشترکہ خاندانی نظام نہ ہمارے مذہب سے میل کھاتا ہے نہ ہی فطرت سے۔ ہر رشتہ اور تعلق اپنے اپنے مقام پہ ہی اچھا لگتا ہے اور مقام تو ازل سے متعین ہے۔ ماں کا جو مقام ہے وہ بیوی نہیں لے سکتی۔ بیوی کا جو جگہ ہے وہ کسی اور سے نہیں بدل سکتی۔ بہن بھائیوں اور دیگر رشتہ داروں کے لئے الگ الگ احکام ہیں۔ لیکن مشترک خاندانی نظام میں یہ سب الجھ جاتا ہے۔

ماں اس غلط فہمی کا شکار کہ بہو بیٹا ”ہتھیا“ لے جائے گی اور بیوی کی ”سانسیں“ یہ احساس ہی روک دیتا ہے کہ اب نجانے ماں بہنیں سرتاج کو کون سی نئی پٹی پڑھا کے بھیجیں گی۔ اقتدار کی ازلی جنگ یہاں بھی چلتی رہتی ہے۔ روزمرہ کے کاموں میں نقص نکال کر، ہر بات میں بہو کی رائے رد کر کے نجانے کون سی حس کی تسکین کی جاتی ہے۔ وہ گھر جس کے بارے بچپن سے بتایا جاتا ہے کہ ”تمھارا“ ہو گا ساری ”مرضی“ وہاں جا کے کرنا، پرایا لگتاہے۔ اس گھر میں کیا مرضی چلے جہاں ”سبزی“ کے انتخاب سے مصالحہ جات کی مقدار کا تعین بھی کوئی اور کرے۔

اپنا مال بچاؤ اور دوسرے کا مال حرام کی کمائی سمجھ کے اڑاؤ کا فارمولا بھی اسی نظام کا پیدا کردہ ہے۔ یہی ہمارا معاشی رویہ بن جاتا ہے۔ جو ذرا نرم دل ہو اسی کو جذباتی طور پہ ”بلیک میل“ کر کے سب مہنگے خرچ والے کام اسی سے کراؤ۔ اپنا سرمایہ اس وقت کے لئے محفوظ کرو جب اس نظام سے خدا جان چھڑائے۔

سیانے درست فرما گئے کہ ”سانجھے کی ہنڈیا ہمیشہ چوراہے پر پھوٹتی ہے“۔ چھوٹی چھوٹی رنجشیں بڑے بڑے ”فساد“ کھڑے کرتی ہیں۔ یہی فساد نیندیں بھی ”خراب“ کرتے ہیں اور ”عیدیں“ بھی حرام۔ بات گھر سے نکلتی ہے اور گلیوں میں پھیلتی ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ کوئی ”تیسرا“ فریق بیچ میں آکر صلح صفائی کراتا ہے۔ جو مسئلہ آپس میں مل بیٹھ کے حل ہو سکتا ہے وہ باہر سے حل ہو کے آتا ہے۔ بجائے اس کہ دلوں میں ”دراڑیں“ پڑیں، کیا یہ بہتر نہیں کہ گھروں میں ”دیواریں“ کھڑی کر لی جائیں؟

ہمارا مطالعہ بھی ناقص ہے اور مشاہدہ اس سے بھی کمزور تر۔ لیکن اتنا علم ضرور ہے کہ ”جتنے“ بیٹے ہوں گھر بھی ”اتنے“ ہی بنا کرتے ہیں۔ پھر یہ والدین کا ہی فرض ہوا کہ جب بیٹے گھر ”بسائیں“ تو اس کے ”بسنے اور بسے رہنے“ کا بھی کچھ نہ کچھ انتظام کریں۔ خود بھی سکون سے رہیں اور دوسروں کی ”عیدیں“ بھی نا حرام کریں۔ جب بھی تہواروں پہ مل بیٹھیں تو دلوں میں دراڑیں نہ ہوں۔ خوش رہیں اور خوش رہنے دیں۔ بچوں کو تخریب کاری نہیں ”تخلیق کاری“ کا ماحول فراہم کریں تبھی ایک صحت مند معاشرہ جنم لے گا۔

(کیا اچھی بات کہی ہے محترمہ رخسانہ فرحت نے اور کس سلیقے سے۔ میاں بیوی – دو انسانوں ۔ کا تعلق ہی نزاکتوں سے جڑا ہے اور یہاں غیر متعلقہ ہجوم چھپرکھٹ میں گھسا چلا آتا ہے اور پھر کہتے ہپں کہ جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں۔ صاحب جو آسمان پر بنا ہے، آپ اس میں اپنی ناک کیوں گھسیڑتے ہیں- ایک عورت اور ایک مرد کے معاہدے میں غیر متعلقہ افراد کی مداخلت بلاشبہ تباہی کا سامان ہے۔ مدیر)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).