عسکری بجٹ میں کٹوتی قوم کو معاشی دلدل سے نکالے گی؟


تحریک انصاف کے بے شمار ورکر ایسے ہیں جو اب عمران خان کے لئے نہں، اپنی عزت بچانے اور اپنی اندر کی خجالت چھپانے کے لئے عمران خان کا دفاع کرنے پر مجبور ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ محلے اور گاؤں کے لوگ آتے جاتے، مہنگائی کا رونا روتے ہیں، بجلی اور گیس کے نرخوں میں گراں قدر اضافے پر ان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور انہیں طعنے مارتے ہیں ”ہور چوپو“

میرا دوست شفیق، لیکن کسی کی بات کا برا نہیں مانتا، بلکہ ہر بات کا جواز پیش کرتا ہے۔ اس کو جب طعنہ دیا جاتا ہے ”عمران خان اپنے اہل و عیال کو سرکاری خرچے پر عمرہ کروا رہا ہے“ تو جواب ملتا ہے ”کیا ہوا، نواز شریف سو سو بندوں کو مفت عمرہ کرواتا تھا“۔ اسے کہا گیا ”عمران تو پانچ بچوں کی ماں بیاہ کر لایا۔ “ جواب ملا ”چلو اس کا ایک معیار تو ہے، شہباز کا تو معیار ہی کوئی نہیں، جو ملے اسی کو بیوی بنا لیتا ہے۔

” اسے کہا“ عمران خان تو کہتا تھا پولیس اگر سیاسی ہو تو لوگوں کو تحفظ دینے کی بجائے ان پر ظلم کرتی ہے، ہم پولیس کو عوام کا خدمت گار بنائیں گے، مگر انصافی حکومت کی پولیس دن دیہاڑے ساہیوال کی سڑکوں پر بچوں پر گولیاں برسا رہی ہے۔ ”جواب ملا“ آپ ماڈل ٹاون کے مقتول بھول گئے جو ابھی بھی انصاف کے متلاشی ہیں۔ ”اسے مہنگائی کی بات کریں تو مسکرا کر جواب دیتا ہے“ پیپلز پارٹی کے دور سے کم ہے ”۔ عمران خان کے دفتر سے بنی گالا ہیلی کاپٹر استعمال کرنے کی بات کرو تو جواب میں کہا جاتا ہے“ نواز شریف کے لئے تو دہی بھلے بھی ایف سولہ پر آتے تھے ”۔

ہمارے گاؤں کے چوہدری اللہ داد عمران خان کی جوانی کو ہی زیربحث لائے رکھتے ہیں۔ ان کی نظر میں عمران پوری دنیا کی عورتوں کا ہیرو ہے۔ بڑے فخر سے بتایا کرتے تھے کہ ہمارا لیڈر نیک اور ایمان دار ہے، اس لئے اللہ کی رحمت اس سال زیادہ برسی ہے۔ وہ یہ کہتے تھکتے ہی نہ تھے کہ اس سال اتنی فصل ہوگی کہ ہماری غربت ختم ہو جائے گی۔ جب طوفان آئے اور اولے پڑنے لگے تو چوہدری صاحب غائیب ہوگئے، خالہ جی کے گھر چلے گئے ہوں گے۔

ماسٹر کریم بخش بھی عمران خان کے بہت بڑے فین ہیں۔ الیکشن کے دنوں بچوں کو کلاس میں کنویسنگ کرتے رہے اور باقاعدہ ہدایت کرتے رہے، ووٹ عمران خان کو ہی ڈالنا ہے۔ موصوف کو نہ سٹاک مارکیٹ کریش ہونے کا غم ہے نہ ڈالر کے ریٹ بڑھنے کا۔ کہتے ہیں یہ پرائی بیماریاں ہیں جو نواز شریف نے ہمارے گلے ڈالی ہوئی ہیں۔ انھیں پٹرول بڑھنے کا بھی دکھ نہیں، آپ نے کبھی موٹر سائیکل چلائی نہ گاڑی۔ بازار میں جو سبزی سستی ملے پکا لیتے ہیں۔ اپنی بات پر اڑے ہوئے ہیں، لیڈر ایمان دار ہونا چاہیے۔

ارشاد بھائی ہمارے پڑوسی ہیں، ان کے بچے انگلینڈ ہوتے ہیں، الیکشن کے دنوں روزانہ فون کرکے کہا کرتے، ووٹ عمران خان کو دینا ہے۔ اب ارشاد بھائی انہیں فون کر کر کے کہتے ہیں ڈالر بڑھاؤ۔ بچے انہیں کیا جواب دیتے ہیں یہ ایک راز ہے، جو ارشاد بھائی نے کبھی افشا نہیں کیا۔

نواز بھائی بیوٹی سیلون چلاتے ہیں۔ مجھے دس پندرہ دنوں بعد بال کٹوانے جانا پڑتا ہے۔ نواز بھائی بالوں کی بہت قدر کرتے ہیں۔ سر پر جو چند بال رہ گئے ہیں، بڑی نفاست سے انہیں سجاتے ہیں اور خوب سلیقے سے سنوارتے ہیں۔ الیکشن کے دنوں میں پورے ملک کی سیاست پر تبصرہ کرتے تھے۔ ان کی خواہش تھی کبھی وہ عمران خان کی زلفیں سنواریں۔ پرجوش حامی تھے۔ اس بارمیں پاکستان سے باہر تھا تو ان کے پاس کئی دن نہیں جاسکا۔ کہنے لگے ”آپ نے بھی بچت شروع کردی، پھر خود ہی کہنے لگے شاید مہنگائی کی وجہ سے جو گاہک ہفتے بعد آیا کرتا تھا، اب دو ہفتوں بعد آتا ہے۔

اس بار عید پر بھی زیادہ رش نہیں تھا، بڑے سکون سے بال بناتا اور کہانیاں سناتا رہا۔ اس کا جوش ذرا مدھم پڑ گیا تھا۔ گرمی کافی تھی اور اس نے اے سی بند کیا ہوا تھا۔ میں نے سمجھا بجلی نہیں ہے، تو کہنے لگا، بجلی تو اب پوری آتی ہے، بل کون بھرے، پھر اچانک اسے کچھ یاد آگیا، کہنے لگا معاشی حالات بہت خراب ہیں، ہمیں زرمبادلہ بچانا چاہیے۔

بیگم نے مجھے بتایا، رات پارلر پر مہندی لگوانے والیوں کا رش تو نہیں تھا لیکن وہ بہت سست رفتاری سے مہندی لگا رہی تھی۔ حیران تھی اس بار سیزن کیوں نہیں چلا، عورتیں گھر پر ہی مہندی کیوں لگا رہی ہیں۔

مجید صاحب ایڈوکیٹ ہیں۔ کچہری صرف الیکشن کے دنوں میں ہی جاتے ہیں۔ وکیل تو بس نام کے ہی ہیں چھوٹے موٹے ٹرانسپورٹر ہیں۔ کالا کوٹ پولیس سے کام نکلوانے کے لئے پہنتے ہیں اور پیشہ ور ٹاوٹ کا اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔ انصافی حکومت کے قیام کے فوراً بعد سے عمران خان کی حمایت میں لڑنے مرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ ججوں کے احتساب کے بڑے حامی ہیں۔ فرماتے ہیں کہ عمران خان دلیر آدمی ہے اور پاکستان کو دبنگ لیڈر کی ضرورت، اس نے اشرافیہ پر ہاتھ ڈالا ہے، ججوں کو کٹہرے میں لے آیا ہے۔

جج اگر کرپشن چھوڑ دیں اور چوروں کی حمایت نہ کریں تو پاکستان ایک ترقی یافتہ ملک بن سکتا ہے۔ بڑے جوش کے ساتھ فرماتے ہیں کہ عمران خان نے تو کرپٹ جرنیلوں کو بھی پھانسی گھاٹ تک پہنچا دیا، نواز شریف اور زرداری کس باغ کی مولی ہیں۔ جب انہیں بتایا کہ ججوں کو سزا تو جنرل باجوہ نے دی ہے، تو کہنے لگے یہی تو بات ہے، جنرل باجوہ ہر کام عمران خان سے پوچھ کر کرتے ہیں۔ کہتے ہیں عمران خان کے حکم پر جنرل باجوہ فوج کے افسروں کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کر رہے، اس سے پہلے کبھی ایسا ہوا کہ فوج کا بجٹ کم کر دیا ہو۔

پاکستان کے عوام کی کثیر تعداد بشمول پی ٹی آئی سپورٹرز کی یہ سوچ گہری ہوتی جارہی ہے کہ عمران خان پاکستان کا غلط انتخاب ہے، کم از کم اب تک یہی ثابت ہوا ہے۔ یہی سوچ شاید مقتدر حلقوں میں بھی سرایت کرتی چلی جا رہی ہے، اسی سوچ نے عسکری بجٹ کم کرنے کی طرف مجبور کیا ہے۔ پاکستان کے بیرونی حالات، سرحدوں کی صورتحال اور انڈیا افغانستان گٹھ جوڑ عسکری بجٹ کم کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ پاکستان کے تقریباً سبھی طبقے جن میں عام آدمی، سرکاری ملازمین، اور تاجر طبقہ شامل ہیں، معاشی مایوسی کی دلدل میں دھنستا جارہا ہے، اب اس میں وکلا بھی شامل ہو گئے ہیں۔

حکومت نے بیک وقت کئی محاذ کھول رہے ہیں، معاشرے کا کوئی طبقہ ایسا نہیں جو مطمئن نظر آتا ہوحتیٰ کہ پی ٹی آئی کے وہ ورکر جو عمران خان کے فضائل گنواتے نہیں تھکتے تھے، اب خان کی برائیوں کا موازنہ نواز شریف کی برائیوں سے کرنے لگے ہیں۔ وہ یہ بات مان رہے ہیں کہ عمرانی حکومت میں کچھ برائی تو ہے لیکن یہ نواز حکومت کی برائی سے کم ہے۔ یوں پاکستان کے تمام طبقات میں ایک آگ ہے جو دھیمے دھیمے سلگ رہی ہے۔ یہ آگ کسی بھی وقت بھڑک سکتی ہے، ایسے میں فوج کے افسروں کا اضافی تنخواہ نہ لینے کا فیصلہ، سلگتی آگ کو مدھم تو کرسکتا ہے بجھا نہیں سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).