یہ خیر و شر کی جنگ ہے یا مفادات کا ٹکراؤ


برباد گلستاں کرنے کو بس ایک ہی اُلو کافی تھا / ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے انجامِ گلستاں کیا ہوگا۔ اس شعر کو عمران خان صاحب کی قیادت میں برسرِ اقتدار پی ٹی آئی حکومت نے محض نو ماہ میں ہی حقیقت کا روپ دے ڈالا۔ اپوزیشن سے لڑائی اور انتقامی احتساب کے بعد نیازی صاحب کی توپوں کا رخ اب اداروں کو اپنے تسلط میں کرنے پہ مرکوز ہو چکا ہے۔ نیب چیئرمین کی جاوید چودھری سے گفتگو سے شروع ہونی والی کہانی اب آہستہ آہستہ سنگین صورت اختیار کرتی جا رہی ہے۔

پہلے نیب چیئرمین کو صرف پیپلز پارٹی اور دیگر اپوزیشن کے خلاف سخت احتساب کے لئے دباؤ ڈالا جا رہا تھا لیکن جب چیئرمین نیب سے گفتگو پر جاوید چودھری صاحب کا کالم دوقسطوں میں چھپا تو جیسے بلی تھیلے سے باہر آ گئی۔ چیئرمین نیب نے اپنی گفتگو میں پی ٹی آئی اراکین کی کرپشن ان کے خلاف کارروائیوں پہ کھل کر اظہار خیال کیا، انہوں نے یہ تک کہا کہ پرویز خٹک کو ضرور گرفتار کریں گے مگر ان کی صحت کو دیکھتے ہوئے ہاتھ ہولا رکھا ہوا ہے۔

چیئرمین نیب کے اس مبینہ انٹرویو کو نیب ترجمان نے مسترد کردیا مگر جاوید چودھری اپنے لکھے ایک ایک حرف پہ ڈٹے ہوئے ہیں انہوں نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا کہ نیب ترجمان نے ان سے انٹرویو کی دوسری قسط چھاپنے کے بارے میں بھی پوچھا تو میں نے ہاں کہا تب انہوں نے چیئرمین کی گفتگو کے کچھ مندرجات نہ چھاپنے کی استدعا کی جو میں نے قبول کر لی۔ چیئرمین نیب نے بھی انٹرویو کی تردید نہیں کی، شاید اس انٹرویو سے وہ اپنے اوپر روز بروز بڑھتے حکومتی دباؤ کو کم کرنا چاہتے تھے یا یہ تاثر دینا چاہتے تھے کہ احتساب سب کا بلا امتیاز ہو رہا ہے۔

اس انٹرویو چھپنے کے بعد حکومتی دباؤ کم ہونے کے بجائے بڑھانے کے لئے خان صاحب کے ایک معاون خصوصی کے چینل پر چیئرمین نیب کی ایک خاتون کے ساتھ انتہائی نازیبا اور غیر اخلاقی آڈیو اور وڈیو بریک کی گئی جسے تھوڑی دیر بعد معذرت کے ساتھ ہٹا بھی دیا گیا مگر جناب کیا کیجیئے گا اس سوشل میڈیا کا کہ جس کے ہتھیار کو اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کر کے آپ جھوٹ کو سچ بنا کر اقتدار میں آ گئے اس سوشل میڈیا پہ یہ آڈیو ویڈیو وائرل ہوگئی۔

زرتاج گل نام سے ملتے جلتے نام کی ایک خاتون طیبہ گل نے چیئرمین نیب کو اخلاقی دیوالیہ پن کی آخری حدوں تک پہنچا دیا۔ نیازی صاحب نے خبر بریک کرنے والے چینل کے مالک اپنے معاون خصوصی طاہر خان کو عہدے سے تو برطرف کردیا مگر ساتھ ساتھ چیئرمین نیب کو پیغام بھی بھیج دیا کہ آئیندہ ذرا سوچ کے لب کشائی کریں۔ قرائن بتاتے ہیں کہ چیئرمین نیب جو پہلے سے ہی انتہائی متنازعہ رہے ہیں نیازی سرکار کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد اپنی کریڈیبلٹی تقریباً کھو چکے ہیں اوپر سے متنازعہ انٹرویو اور اب سیکس سکینڈل نے بظاہر انہیں سرکار کے قدموں پہ سر ٹیکنے پہ مجبور کردیا ہے۔

چیئرمین نیب نے اپنے انٹرویو میں انقشاف کیا تھا کہ اگر وہ پی ٹی آئی کے لوگوں کے خلاف ایکشن لینا شروع کریں گے تو تحریک انصاف کی حکومت دھڑام سے زمین بوس ہو جائے گی مگر وہ یہ بھول بیٹھے تھے کہ جس حکومت کے زمین بوس ہونے کا وہ کہہ رہے ہیں وہ حکومت جن طاقتوں کے بل بوتے پہ اقتدار میں آئی ہے وہی اسے کاندھا دے کر کھڑا کیے ہوئے ہیں وہ اسے اس وقت تک زمین بوس نہیں ہونے دیں گے جب تک نیازی حکومت ان کے مفادات کا تحفظ کیے ہوئے ہے۔

چیئرمین نیب کے انٹرویو اور غیر اخلاقی آڈیو ویڈیو نے جہاں ان کے عہدے پہ مزید چمٹے رہنے کا اخلاقی جواز کھو دیا ہے وہیں اپوزیشن کو بھی ان پر تابڑ توڑ حملے کرنے اور انہیں دباؤ میں لانے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔ اپوزیشن بھی اخلاق اور کردار گنوا دینے والے اس کمزور چیئرمین نیب کو شاید اب اس لئے بھی برداشت کرے کہ جو شخص اتنے بڑے سرکاری منصب پہ بیٹھ کر اپنے کردار اور غیر اخلاقی حرکتوں سے اپنے عہدے کا تقدس کھو بیٹھے ہیں وہ چیئرمین شاید اب اس قوت اور زور سے ان کے خلاف انتقامی احتساب جاری نہ رکھ سکے گا اور چیئرمین نیب کی حالت دیکھ کر لگتا بھی یہی ہے کہ وہ بیک وقت حکومت اور اپوزیشن دونوں کے دباؤ میں ہیں۔

یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حکومت نے انہیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا، اب عضوئے معطل کرکے کسی بھی وقت ہٹا کر اپنے پسندیدہ افسر حسین اصغر صاحب جن کو کچھ عرصہ قبل ہی ڈپٹی چیئرمین نیب مقرر کیا گیا ہے قائم مقام چیئرمین کا چارج دینا چاہتی ہو۔ آئین میں عدلیہ کے ججوں کی تبدیلی کے لئے طریقہ کار آرٹیکل 209 میں واضح کیا گیا ہے جبکہ الیکشن کمیشن کے چیئرمین کے لئے بھی وہی طریقہ لاگو ہوتا ہے۔ آئین چیئرمین نیب کی تبدیلی کے طریقہ کار پہ خاموش ہے لیکن نیب آرڈیننس میں چیئرمین نیب کی تبدیلی کا بھی وہی طریقہ وضع کیا گیا ہے جو آئین کے آرٹیکل 209 میں دیگر ججوں کے لئے وضع کیا گیا ہے۔

اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب چیئرمین نیب نے سرکار کو آنکھیں دکھانا شروع کیں تو ہی حکومت سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کو ان کے سیکس اسکینڈل کو منظر عام پر لانا کیوں ضروری محسوس ہوا، چیئرمین نیب کے کردار پہ تو بڑے عرصے سے یہی سوالیہ نشان ہیں، ان کے کردار ان کی جانبداری، ان کے ادارے کے اہلکاروں کی لوٹ مار اور معصوم و بے گناہ لوگوں کو ڈرا دھمکا کرکروڑوں روپے کی رقوم طلب کرنے، جھوٹے اور کمزور کیسز قائم کرنے کے الزامات پر مبنی قصے تو زبان زد عام ہیں۔

چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے انکوائری کرنے والی ٹیم کے ایک رکن گل آفریدی کے خلاف کراچی کی انسداد دہشتگری عدالت میں مقدمہ درج ہے جس میں ان پر الزام ہے کہ انہوں نے نیب کے ایک ملزم کی فیملی کو بلیک میل کرکے کروڑوں روپے رشوت طلب کی تھی۔ دراصل خان صاحب کا بس چلے تو وہ چیف جسٹس، چیف الیکشن کمشنر اور چیئرمین نیب کے عہدے بھی اپنے پاس رکھیں اور اپنے مخالفین کو رگڑا لگائیں مگر کیا کیا جائے کہ یہ ان کے بس میں نہیں ہے، اسی لئے ایک ایسے وقت میں جب چیئرمین نیب کے سامنے پی ٹی آئی اکابرین کی مہا کرپشن کے اسکینڈلز بمع ثبوتوں کے روزانہ کی بنیاد پر پہنچ رہے ہیں اور چیئرمین نیب مجبور ہوگئے لب کشائی پہ تو انہیں خاموش کرانا ضروری تھا۔

اس سیکس اسیکنڈل سے پہلے سے متنازعہ چیئرمین نیب مزید طوفانوں کی زد میں آ گئے ہیں، ہونا تو یہ چاہیے کہ وہ فوری طور پر مستعفی ہوکر اپنے عہدے کے تقدس کو پامال ہونے سے بچائیں اور اپنے آپ کو اگر ان کے خلاف سارش ہے تو بے گناہ ثابت کریں اور وہی معیار اپنائیں جو الزامات کی زد میں آئے نیب کے ملزموں کے ساتھ وہ خود روا رکھتے ہیں مگر یہاں مجھے شبنم شکیل کا ایک شعر یاد آ رہا ہے کہ ”یہ خیر و شر کی جنگ نہیں، یہاں تو بس ہوگیا ہے ٹکراؤ، انا کا انا کے ساتھ“ حکومت چیئرمین نیب کو زیردست کرنا چاہتی ہے اور چیئرمین نیب اپوزیشن سمیت حکومت کو گھٹنوں کے بل جھکانا چاہتے ہیں۔

اب اس جنگ میں نقصان پہلے سے متنازعہ مجروح ادارے کا ہو رہا ہے۔ وزیراعظم صاحب نے نیب کی کارکردگی پر اس وقت مایوسی کا اظہار کیا تھا جب ابھی اپوزیشن کے خلاف نیب کارروائیوں میں تیزی نہیں آئی تھی۔ چیف جسٹس نیب آرڈیننس کو آئین کے درجنوں آرٹیکلز سے متصادم قرار دیکے اس میں تبدیلی اور بہتری کی سفارشات فرما چکے ہیں۔ اب جبکہ نیب چیئرمین خود اتنے بڑے الزام کی زد میں آ چکے ہیں تو حکومت کو چاہیے کہ ان الزامات کی بنیاد پر چیئرمین نیب کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر کے اپنی غیر جانبداری کو ثابت کرے اور شفافیت اور احتساب سب کا کی روایات کو جنم دے۔

طیبہ گل کون ہیں کیوں انہوں نے نیب چیئرمین پہ الزامات لگائے اور ان میں کتنی سچائی ہے یہ طیبہ گل اور ان کے شوہر پہ سیکس اسکینڈل کے دو روز بعد ہی ریفرنس دائر ہونے سے واضح ہوگیا ہے، اب سازشوں اور سازشی کو بے نقاب کرنے کے لئے ایک غیر جانبدار اور ایماندارانہ تحقیقات کی اشد ضرورت، مگر اب تک کے حالات بتا رہے ہیں کہ ایسا کچھ نہیں ہونے والا صرف بلیک میلنگ بلیک میلنگ کا کھیل کھیلا جا رہا ہے اور اس ارضِ وطن کے گلستاں کی ہر شاخ پہ واقعی اُلو ہی بیٹھا ہے تبھی تو صرف نو ماہ میں گلستاں اجڑ کے بیاباں کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اللہ رب العزت خیر فرمائے آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).