طوائف، مقدس مجرا اور رشتہ


میرا نام راحت ہے، میں اک شادی شدہ عورت ہوں۔ بچپن میں موٹا بچہ تھی، ویسا ہی موٹا گول گپا بچہ جس کو ہر کوئی آتے جاتے گالوں کو سہلاتا ہے۔ ہمارے سکول میں ڈرامہ ہوتا تھا جیسا کہ ہر سکول میں ہوتا ہے۔ مجھے اس ڈرامے میں سنڈریلا کا رول دیا جاتا کیونکہ مجھے سنڈریلا کے سارے ڈائیلاگز ازبر یاد تھے اور میرے ہر ڈائیلاگ پر تعریف ہوتی تھی کہ اس سے بہتر ادائیگی اور کوئی نہیں کر سکتی لیکن ہر بار کہیں سے آواز آتی۔ ”نہیں اتنی موٹی سنڈریلا نہیں ہو سکتی“ ۔ اس کے بعد ہر بار میرے پاس رونے کے سوا کچھ نہ ہوتا تھا۔

ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں رشتہ آتے نہیں ہیں بلکہ بلائے جاتے ہیں۔ لڑکیوں کی مائیں روز کسی جاننے والے یا والی کو کہتی ہیں۔ ”آپ کی نظر میں کوئی اچھا رشتہ ہو تو ملوا دیں“ ۔ اس کے بعد ہر بار لڑکے والے لڑکی کو۔ ”دیکھنے آتے ہیں“ ۔ بالکل ویسے ہی جیسا کہ لوگ اتوار بازار میں خریداری کے لئے چیزیں دیکھنے جاتے ہیں، خریدار کی مرضی ہے، وہ کوئی چیز پسند آنے پر خرید لے، یا پھر اس چیز کو ٹھکرا دے۔ مجھے چالیس لوگوں نے رشتے کی غرض سے دیکھا اور چالیس کے چالیس نے ہی مجھے موٹی ہونے کی وجہ سے ٹھکرا دیا۔ آج بھی ان چالیس خاندانوں کے نام، پتے اور فون نمبرز میرے پاس محفوظ ہیں جنہوں نے مجھے چالیس بار قتل کیا۔

آخری بار جو رشتہ آنا تھا پہلی بار پتہ چلا کہ اس بار لڑکا خود ہمارے گھر آرہا ہے، پہلے ہر بار صرف لڑکے کے گھر والے آتے تھے اور دیکھ کر چلے جاتے تھے۔ مجھے بتایا گیا کہ لڑکیا ائیر فورس میں پائلٹ ہے۔ میں کھل اٹھی، بے ساختہ منہ سے نکلا۔ ”واہ کیا بات ہے۔ وہ فیملی بہت سلجھی ہوئی اور پڑھی لکھی فیملی تھی۔ بہت ہینڈسم لڑکا تھا۔ گورا چٹا، دراز قامت۔ میں نے دل ہی دل میں پھر کہا۔ واہ کیا بات ہے۔ میں ان کو پسند آگئی، شادی کی بات شروع ہوئی، کہا گیا کہ ہم کو جلدی ہے، شادی دو چار ماہ کے اندر کرنی ہے۔

ہونے والی ساس کے ساتھ ہلکی پھلکی باتوں میں ساس نے مجھے کہا کہ بیٹا تب تک تم کوئی جم وغیرہ جوائن کر لو۔ تھوڑا وزن کم کر لو۔ ۔ ماشاء اللہ تم دونوں کی جوڑی بہت پیاری لگے گی۔ میں نے بھی کہہ دیا۔ ٹھیک ہے آنٹی۔ ان دو چار ماہ میں آپ بھی اپنے بیٹے کا قد کچھ کم کروالیں۔ پھر ہماری جوڑی واقعی بہت اچھی لگے گی۔ میری اس بات پرآنٹی ناراض ہوگئیں اور کہا بہت لمبی زبان ہے۔ وہ بھی مجھے ٹھکرا کر چلے گئے، اس دن امی نے مجھے بہت سنائیں، چپلوں سے تواضع کی۔ لیکن میرے دل سے آواز آئی۔ راحت یہ تھا تمہاری جیت کا دن، آج تم نے ان چالیس بار کے ٹھکرائے جانے کا ایک ہی ”جھٹکے“ میں بدلہ لے لیا۔

روز روز کے ٹھکرائے جانے سے تنگ آکر میں نے اک دن ابا سے کہہ دیا۔ ”میرا یہ روز روز کا مجرا بندہ کروائیں“ ۔ والد نے حیرانی سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا۔ کیا کہہ رہی ہو؟ تم پاگل تو نہیں ہو؟ میں جھلا اٹھی۔ ”تو اور کیا؟ میں جاب سے واپس آتی ہوں، تیار ہوتی ہوں، ہر بار اچھا لباس پہنتی ہوں، خوشبو لگاتی ہوں، سب کے سامنے آکر سلام کرتی ہوں اور بیٹھ جاتی ہوں، بس ٹھمکا نہیں لگاتی۔ تو کیا یہ مجرا نہیں ہے“ ؟ میں نے روز روزہ کے تماشے سے تنگ آکر اسلام آباد جاکر جاب کر لی، اک دن بھائی نے کہا میں سعودیہ سے واپس آرہا ہوں، مجھے نہیں پتہ تم واپس گھر آجاؤ۔ میں کراچی آگئی اور بحریہ ٹاون میں جاب شروع کر دی۔

مجھے روز جاب کے لئے ہر روز دو گھنٹے سفر کر کے آفس پہنچنا ہوتا تھا، اک بار واپسی پر وہاں اک گاڑی کھڑی تھی جس میں اک پان کھانے والا مرد بیٹھا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا آپ شہر کی طرف جا رہے ہو؟ اس نے کہا ہاں۔ اس کا گھر میرے گھر کے قریب ہی نکلا، اب معمول یہ بنا کہ وہ ہر روز مجھے گھر سے اٹھاتا اور آفس چھوڑتا، چھٹی ہوتی تو آفس سے اٹھاتا اور گھر ڈراپ کرتا۔ ہر روز چار گھنٹے ساتھ رہنا ہو تو بندہ گونگا بہرہ بن کر تو بیٹھ نہیں سکتا۔

کوئی نہ کوئی بات تو کرنا ہوتی تھی، ہم روز کوئی نہ کوئی بات شروع کر دیتے، کبھی ٹائر پنکچر کی بات کبھی رش اور ٹریفک کی بات۔ اک بار ہم گھر واپسی کی راہ میں تھے، اس نے اچانک کہا ”مس راحت آپ مجھ سے شادی کریں گی؟“ میں حیران پریشان اس کا منہ دیکھنے لگی اور چلاتے ہوئے کہا۔ ”تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے یہ کہنے کی؟ شکل دیکھی ہے تم نے کبھی اپنی؟ تم سے پسینے کی گندی بدبو آرہی ہے۔ تم کسی جن سے کم نہیں لگتے، میں تم سے شادی کرونگی؟“ اس نے کہا۔ ”مس راحت جنوں کی شادیاں ہی تو پریوں سے ہوتی ہیں ناں“ ۔ ۔ میں نے کہا تو جاؤ جا کر کوئی پری ڈھونڈو۔

بہت دیکھے ہیں راہ چلتے شادی کا کہنے والے، جنہیں شادی کرنا ہوتی ہے وہ رشتہ لے کر گھر آتے ہیں، اس نے کہا۔ ”میں امی کو آپ کے گھر بھیجونگا، انکار بھی کرنا ہو تو میری والدہ کو میری طرح ذلیل مت کیجئے گا“ ۔ اگلے دن اس کی کال آئی کہ میری امی آئیں گی، میں نے کہا کیوں آئیں گی بھئی؟ اس نے کہا لڑکوں کی امیاں لڑکیوں کے گھر کیوں آتی ہیں؟ ”اس وقت تک میرے دل میں اس کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی، جب آپ جاب کرتے ہو تو دس لوگ آپ کے کولیگ ہوتے ہیں، وہ مجھے روز گھر سے پک کرتا تھا، آفس چھوڑتا تھا، پھر آفس سے پک کرتا تھا، گھر چھوڑتا تھا، وہ صرف میرا کولیگ تھا، دوست نہیں کہ میرے دل میں اس کے بارے میں کوئی جگہ ہو یا میں نے اس کے بارے میں کبھی سوچا بھی ہو۔

اس کی امی اور تین بہنیں ہمارے گھر آئیں۔ میری بہن نے کہا کہ ہم راحت کو بھی بلا لیتے ہیں تو اس کی والدہ نے کہا کہ دیکھیں ہم لڑکی دیکھنے نہیں آئے، اس گھر میں راحت نام کی جو لڑکی ہے ہم تو اس کا رشتہ لائے ہیں۔ اور بیٹا پرائی چیزوں کو کیا دیکھنا، میں بھی بیٹیوں کی ماں ہوں وہ بھی ساتھ بیٹھی ہیں، ہم چلتے ہیں، جب آپ راضی ہو جاو، آپ کا دل کہے کہ رشتہ کرنا چاہیے آپ بتا دیجئے گا، ہم شادی کی تیاری کر لیں گے۔ اک ان پڑھ عورت لاکھوں پڑھی لکھی خواتین سے کہیں بہتر نکلی، ہم نے ہاں کر دی، شادی ہوگئی، آج پچیس سال ہوئے، میرا شوہر آج بھی مجھے ویسی ہی محبت کرتا ہے، ہم ایک دوسرے کو آج بھی جانو کہتے ہیں۔ ہم سوچتے تھے کہ ہم جب کالجز سے نکلیں گی تو ہم ویسی ساسیں یا خواتین نہیں ہوں گی جو اپنے بیٹوں کے لئے بازار سے سامان لینے نکلتی ہیں لیکن افسوس ہوتا ہے کہ آج ہم بھی ویسی ہی ہیں، لڑکی کا مجرا دیکھ کر اس کو اپنے بیٹے کے لئے خریدنے والی۔ !

یہ اس معاشرے کی تصویر کا ایک رخ ہے۔ چلیں اب پیر آپ کو دوسرا رخ دکھاتا ہے۔ !

بچپن میں عمومی طور پرہر دوسرا بچہ گول مٹول ہی ہوتا ہے۔ کسی بھی ڈرامے کے کردار کے لئے بالکل ویسا ہی کردار درکار ہوتا ہے جیسا حقیقی یا اساطیری کردار بیان کیا ہوتا ہے، ایک گنجے کردار کے لئے آپ بالوں والا یا اک بالوں والے کردار کے لئے آپ گنجا کردار نہیں لا سکتے کہ اس سے ڈرامے کی پوری تھیم بدل جائے گی۔ بالکل ایسے ہی جیسے اک مرد کے کردار میں آپ عورت کو لاؤ گے تو وہ پورا ڈرامہ بے معنی ہوجائے گا، اس کا سارا سکرپٹ بدلنا پڑے گا۔ یقینا اک پستہ قامت کردار پر پورا نہ اترنے پر اک دراز قامت اور اک بھاگنے والے کردار پر لنگڑا ہونے کی صورت میں پورا نہ اترنے پر بھی لمبا اور لنگڑا بچہ روتا ہی ہوگا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2