پاکستان میں رویت ہلال کا بحران


سرکاری طور پر مختلف قمری مہینوں کی رویت کی ذمہ داری مرکزی رویت ہلال کمیٹی پر ہے جو 1974 سے یہ ذمہ داری احسن طریقے سے نبھا رہی ہے۔ تمام مکاتیب فکر کے جید علماء کی نمائندگی اس کمیٹی میں موجود ہے، اور پوری قوم ان کے فیصلوں پر اعتماد کرتی ہے۔ محکمۂ موسمیات اور وفاقی خلائی تحقیقی ادارے سپارکو کی معاونت و مشاورت بھی مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے ہمراہ ہوتی ہے، اور تمام تر فیصلوں میں سائنسی محاسبات کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔

جب اس کمیٹی کی ذیلی و زونل کمیٹیوں کو رویت کی شہادتیں موصول ہوتی ہیں تو ان کو مختلف پیمانوں پر پرکھا جاتا ہے۔ جن جگہوں پر رویت ممکن نہیں ہوتی یا جہاں رویت کا امکان بہت کم ہوتا ہے ان کی شہادتوں کو اس طرح اہمیت نہیں دی جاتی، یعنی صرف انہی علاقوں کی رویت پر عمل نہیں کیا جاتا جب تک اس کی تصدیق دوسرے علاقوں سے نہیں ہوتی۔

رویت ہلال کمیٹی ان گواہی دینے والوں سے ملاقات کرتی ہے یا ان سے ٹیلی فون پر بات کرتی ہے۔ ان سے پوچھا جاتا ہے کہ چاند انہوں نے کس سمت دیکھا، چاند کا سائز کیا تھا، اور وہ افق سے کتنے زاویے پر تھا، اس کی گولائی کا رخ کس سمت تھا۔ ان سوالات سے گواہی کی صداقت کا علم ہو جاتا ہے کیونکہ سائنسی محاسبات کی رو سے چاند کا افق، اس کی سمت اور اس کا زاویہ مشخّص ہوتا ہے۔ ان گواہیوں کو پرکھنے کے بعد مرکزی رویت ہلال کمیٹی فیصلہ کرتی ہے۔

دوسری طرف پاکستان کے صوبۂ پختونخواہ میں مسجد قاسم خان ہے جو ہمیشہ اس معاملے میں مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے برخلاف فیصلے صادر کرتا ہے جس کی سربراہی مفتی شہاب الدین پوپلزئی کرتے ہیں۔ رویت ہلال کے مسئلے پر مسجد قاسم خان کو کسی بھی وفاقی سائنسی ادارے کی معاونت و مشاورت حاصل نہیں، اور ان کے فیصلوں سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ یہ لوگ جدید فلکیات کا علم نہیں رکھتے۔ گواہیوں کو پرکھنے کا معیار جو مرکزی رویت ہلال کمیٹی اپناتی ہے، جن کا ذکر ہم نے اوپر کیا، مسجد قاسم علی خان کے کرتا دھرتا اس کو اپنانے سے قاصر ہیں۔ ان باتوں کی روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ مسجد قاسم علی خان کا طریقہ غیر علمی اور غیر سائنسی ہے۔ 3 جون کو شوال المکرّم کا ہلال سائنسی لحاظ سے پورے پاکستان میں قابل رویت نہیں تھا لیکن انہوں نے چاند کو ڈھونڈ نکالا اور 4 جون کو خیبر پختونخواہ کے اکثر علاقوں میں عید منائی گئی۔

راقم اپنے بزرگوں سے فیضیاب ہوتا رہتا ہے۔ ہمارے بزرگ بتاتے ہیں کہ پاکستان بننے سے قبل ہمارا گاؤں جو کوہ قراقرم کی کسی وادی میں واقع ہے، چاند دیکھنے کے لیے پورے گاؤں والے جمع ہوا کرتے تھے۔ اس علاقے میں نقل و حمل بہت محدود اور دشوار گزار ہوا کرتی تھی، اور چاند کی اطلاع زیادہ سے زیادہ چند وادیوں تک محدود ہوتی تھی۔ کسی سال عید کا چاند دیکھنے گاؤں والے ایک بلندی پر جمع تھے، سب عید دیکھنے کی کوششوں میں مگن تھے لیکن کسی کو بھی چاند نظر نہ آیا۔

اچانک ایک ضعیف و نحیف بوڑھے نے بلند آواز سے درود پڑھنا شروع کیا اور کہا کہ چاند نظر آ گیا۔ سب نے اس بزرگ کی نظروں کی سمت دیکھا لیکن کسی کو بھی چاند نظر نہ آیا۔ لوگوں نے پوچھا کہ چاند کدھر ہے؟ بزرگ نے اسی سمت اشارہ کیا جس سمت وہ دیکھ رہے تھے۔ لیکن سب نے دیدے پھاڑ پھاڑ کر اس سمت دیکھا لیکن چاند نظر نہ آئے۔ جب غور کیا تو پتہ چلا کہ بڑھاپے کی وجہ سے بزرگ کی بھنویں آنکھوں پر گر چکی تھیں جس میں سے کوئی سفید بال ان کی آنکھوں کے سامنے آیا ہوا تھا، بزرگ کی بصارت نے اس کو چاند کی طرح دیکھا اور یوں ان کو چاند نظر آ گیا۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ مسجد قاسم خان والی شہادتیں بھی شاید اس قسم کی ہوتی ہوں گی، اگر ہم ان کے بارے میں حسن ظن سے کام لیں، وگرنہ کسی صورت بھی 3 جون کی شب چاند کی رویت ممکن نہ تھی۔

اس سال فواد چودھری صاحب کی انٹری ہوتی ہے جو کچھ عرصہ قبل اتفاق سے وزیر سائنس و ٹیکنالوجی بن گئے تھے۔ انہوں نے رویت ہلال کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے کیلنڈر بنانے کی تجویز دے دی۔ ان کے کیلنڈر کے مطابق 5 جون کو عید الفطر ہونا قرار پایا جو سائنسی محاسبات کی رو سے بالکل درست ہے۔ لیکن ساتھ ہی مرکزی رویت ہلال کمیٹی پر انہوں نے اعتراضات کی بوچھاڑ کر دی کہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور مولوی پرانی دوربینوں سے رویت کی کوشش کر رہے ہیں۔

حالانکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ مسجد قاسم علی خان کے غیر علمی اور غیر سائنسی طریقۂ کار پر تنقید کی جاتی اور ان کو سرکاری فیصلوں کے برخلاف جانے سے روکا جاتا، میڈیا پر قدغن لگائی جاتی کہ وہ ان کو بالکل بھی کوریج نہ دیں تاکہ قوم یکسوئی سے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے فیصلوں پر عمل کرے۔ لیکن چودھری صاحب نے اپنے تمام تر توپوں کا رخ مفتی منیب الرّحمان کی طرف کیا حالانکہ رویت ہلال کمیٹی پہلے سے ہی سائنسی طریقے پر عمل کر رہی ہے۔ علماء کرام کی توہین و تضحیک اس پر مستزاد تھی جو قابل مذمّت ہے۔

یہ صورتحال ایسی تھی جیسے ایک سرکاری ادارہ دوسرے سرکاری ادارے سے تصادم اختیار کر رہا ہے۔ اس کی روک تھام کے بجائے امسال خیبر پختونخواہ کی حکومت نے مفتی پوپلزئی پر اعتماد کرتے ہوئے 4 جون کو عید کا اعلان کر دیا۔ اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ تحریک انصاف کے مختلف حکومتی ارکانوں کے درمیان ہم آھنگی کا فقدان ہے، اور ان کی دلچسپی ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے تک محدود ہے جس کا واضح ثبوت خیبر پختونخواہ کے وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی اور فواد چودھری کے درمیان لفظی جنگ ہے۔ شوکت یوسفزئی کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخواہ کی حکومت نے اس فیصلے سے قبل وزیر اعظم عمران خان کو اعتماد میں لیا تھا، اگر یہ بات درست ہے تو یہ انتہائی تشویشناک بات ہے کہ وزیر اعظم نے ایک صوبائی حکومت کو اس اہم مسئلے پر سرکاری حکومت کے برخلاف جانے کی اجازت کیسے دی۔

فواد چودھری صاحب چاند کے مسئلے کو غیر منصفانہ طریقے سے حل کرنے نکلے تھے لیکن انہوں نے بحران میں مزید اضافہ کر دیا۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ وہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے، ان کے فیصلوں کو سائنسی بنیادوں پر مزید استوار کرنے کے لیے سفارشات دیتے، اور مسجد قاسم خان جیسے عناصر کی حوصلہ شکنی کرتے۔ لیکن یہاں اس کے برعکس عمل کیا گیا جس کا خمیازہ خیبر پختونخواہ حکومت کی جانب سے مسجد قاسم خان کو سند بخشنے کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ وزیر اعظم عمران خان کو چاہیے کہ ریاست کے مختلف اداروں میں ہم آھنگی کو یقینی بنائیں اور ایسے عناصر کو لگام دیں جو فساد کا باعث ہیں۔

راقم سمجھتا ہے کہ پاکستان میں رویت ہلال کا کوئی مسئلہ نہیں تھا، تمام پاکستانی اپنی تمام تر سیاسی و مسلکی وابستگیوں کے باوجود مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے اعلانات پر عمل کرتے تھے۔ مفتی پوپلزئی جیسے چند عناصر کو نظر انداز کرنے کی ضرورت تھی لیکن فواد چودھری کی انٹری نے معاملے کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔

مکمل نام: سید جواد حسین رضوی

مختصر تعارف: بلاگر اسلامی بینکاری کے شعبے سے پچھلے تیرہ سال سے منسلک ہیں۔ دینی علوم کے لحاظ سے وفاق المدارس سے ”الشہادۃ العالمیہ“ اور عصری علوم کے لحاظ سے ایم بی اے ہیں۔ علاوہ ازیں ادیان و مذاہب، عالمی سیاست، تاریخ، سماجیات اور معیشت و بینکاری سے خصوصی شغف ہے اور اس حوالے سے کورسز بھی کر چکے ہیں۔ مختلف موضوعات پر بلاگز لکھتے ہیں اور بین المذاہب ہم آہنگی اور تحمّل و برداشت کے لیے کوشاں ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).