ہنسی اور پھنسی…


ہنسنا، دل کھول کے ہنسنا اور جی بھر کے ہنسنا !
بچپن سے ہی بہت مرغوب!

ابا ہنستے دیکھ کے مسکرا دیتے، اماں ہنس پڑتیں اور پھر بھی ہنسی قابو میں نہ آتی تو کہتیں
لڑکی ہے یا پیسے میں آپ ہی آپ!

ہنسنے کے لئے کچھ خاص ہونا ضروری نہ تھا، کوئی بھی لطیف بات، کچھ بھی دل گدگدا دینے والا خیال، کوئی بھی وقت جو ایک معصوم اور سادہ دل کو چھیڑ دے، مسحور کر دے۔

ذرا بڑے ہوے تو اس طرح کے الفاظ کانوں میں پڑے

“لڑکیاں اس طرح نہیں ہنسا کرتیں “

“ایسی لڑکیاں بہت بد تہذیب سمجھی جاتی ہیں “

“لڑکی کے ہنسنے سے لڑکے غلط مطلب نکالتے ہیں”

ہمارا چھوٹا سا دل اور دماغ اس صنفی فرق کو سمجھنے سے قاصرتھا سو ہنسی نہ چھوٹی، نہ چھوڑنے کی کوشش کی۔

کچھ اور بڑے ہوے تو پتہ چلا کہ کافی لوگ ہماری ہنسی کو پھنسنے کے خانے میں ڈال چکے ہیں، اور اب باری کے منتظر ہیں۔

تب بھی کمزور عقل کے پلے نہ پڑا کہ ہم تو اپنی روح و جاں کے تقاضے پورے کرتے ہیں اور آخر ہم کہاں پھنسنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں اور کون ہے جو ہماری ہنسی کو دعوت سمجھتے ہوئے اختیار اور جبر کی کنڈی ڈالے بیٹھا ہے۔

زندگی کا سفر آگے بڑھا، پدرسری معاشرے کی تلخ حقیقتیں دیکھیں، وہ معیار دیکھے جو صنف نازک کے لئے علیحدہ سے تخلیق کیے گئے ہیں۔ ارد گرد ہزاروں ہی کردار تھے۔ اور بے شمار فقرے سماعت تک پہنچے

‎”عورتیں منہ پھاڑ کے نہیں ہنسا کرتیں “

“مردانے تک عورت کے ہنسنے کی آواز نہیں آنی چاہیے “

” محفل میں منہ پھاڑ کے ہنسنے والی عورت بری عورتوں کے زمرے میں آتی ہے “

” مرد متوجہ ہوتے ہیں “

” زیادہ ہنسنے سے دل مردہ ہوتا ہے “

” اسلام میں قہقہہ لگانا منع ہے “

چونکہ ڈاکٹر تھے اور بہت سی سائنس پڑھ رکھی تھی سواب ہم یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ کھل کے ہنسنے سے تو بہت سی آکسیجن جسم میں جا کر دل و دماغ کو فرحت بخشتی ہے اس سے دل کیسے مردہ ہو گا؟

اور اسلام تو رہبانیت سے کوسوں دور رہنے کی تاکید کرتا ہے تو پھر قہقہے کو منع کرنے کے حکم کا معنی ؟

رہی مردوں کے کانوں تک عورت کی ہنسی پہنچنے کی بات تو اس کی حقیقت سمجھنے سے بھی عاری تھے کہ موسیقی بھری مترنم ہنسی تھی یا کلاشنکوف کی گولی جو مارے دیتی تھی اور آخر ہنسی جیسے بے ضرر جذبے سے مردانگی کے جذبے پہ کہاں ضرب پڑتی تھی۔

اب آج جب زندگی کی بہت منزلیں طے ہو چکیں، وقت بہت سے راز آشکار کر چکا، اب دل چاہتا ہے کہ ہنسی اور پھنسی کی تشریح کروں اور دریافت کروں کہ عورت کو اتنا ارزاں کیوں جانا جاتا ہے۔

ہنسی ایک فطری جذبہ ہے ویسے ہی جیسے کہ رونا،اداس ہونا، خوش ہونا، بے چین ہونا، مطمئن ہونا۔ اور یہ جذبات بغیر کسی صنفی فرق کے حضرت انسان کو عطا کیے گئے ہیں زندگی کی اونچ نیچ سے نبرد آزما ہونے کے ہتھیاروں کے طور پہ ۔

ان جذبوں کا اظہار انتہائی فطری ہے اور اپنی شخصیت اور ماحول کے مطابق مرد وعورت اس سے زندگی کا سفر آگے بڑھاتے ہیں ۔ پھر ایسا کیا کہ ایک فطری جذبے کو کسی پس پردہ بات کا اشارہ سمجھ لیا جاتا ہے۔ جو بات کہی نہیں گئی، سمجھی نہیں گئی، کس کی عقل سلیم پہلے بچی اور پھر عورت کی معصومیت اور فطری بے ساختگی تک پہ شکوک کے پہرے بٹھا دیتی ہے۔

اے ہمارے معاشرے کے عالی قدر جناب! آپ اس قدر نرگسیت کے ڈسے ہوئے کیوں ہیں کہ آپ کائنات کی ہر خوبصورت، زندہ اور توانائی سے بھرپور چیز پہ صرف اور صرف اپنا حق سمجھتے ہیں

آپ کی انا یہ کیوں نہیں تسلیم کر تی کہ زندگی کی خوبصورتی کو محسوس کرنے کے لئے کسی اور کے پاس بھی وہی احساسات، جذبات ، حسیات ، توانائی اور صلاحیت موجود ہے جو حضور والا آپ کے پاس ہے۔

آپ کو یہ کیوں محسوس ہوتا  ہے کہ زندگی راجہ اندر کا اکھاڑہ ہے اور ہر عورت داسی بننے کا ارمان لئے دل ہتھیلی پہ لئے گھوم رہی ہے۔ آپ کی توجہ حاصل کرنے کو سولہ سنگھار کیے ہوئے ہے۔ آپ کیوں اپنے آپ کو یقین دلا دیتے ہیں کہ اگر کوئی عورت مسکرائے گی یا ہنسے گی تو یہ ایک اشارہ ہے آپ کی وحشتوں کی تسکین کے لئے ۔

یقین کر لیجیے! عورت کے اندر بھی جہاں آباد ہے۔

ایک ایسا جہاں جو ہنستا ہے، کھلکھلاتا ہے، پر نہ پھنسنا چاہتا ہے نہ پھانسنا۔ عورت کو بھی زندگی کی لطافتیں، رعنائیاں اور دوستوں کی محفل ایسے ہی محظوظ کرتی ہے جیسے کہ آپ حضور کو۔ وہ بھی زندگی کی کھٹنائیوں اور اونچے نیچے راستوں میں بکھری ہوئی سانس کو ویسے ہی بحال کرنا چاہتی ہے جیسے کہ آپ اعلی حضرت۔

شکاری کا کنڈی ڈالے پھانسنے والا جال اگر اس کے اندر سے اُٹھنے والی آزاد ہنسی کو چارہ سمجھتا ہے تو ہم اس پہ سواے ہنسنے کے اور کچھ نہیں کر سکتے.
ہا ہا ہا ہا

لیکن دل اور روح پہ چھائی اداسی کیسے چھٹے گی !


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments