انڈیا کی پھول فیکٹری جہاں صرف پسماندہ طبقے کی خواتین کام کرتی ہیں


انڈین ریاست اتر پردیش کے علاقے بھونتی میں ایک فیکٹری ایسی ہے جہاں صرف خواتین کام کرتی ہیں۔ یہ وہ خواتین ہیں جو ماضی میں ہسپتالوں میں معمولی نوعیت کے کام اور لوگوں کے گھروں کی لیٹرینیں صاف کیا کرتی تھیں لیکن اب ان کے روزگار کی نوعیت بدل چکی ہے اور ان کا تعلق پھولوں کی نرم ونازک پتیوں سے استوار ہوچکا ہے۔

وہ نئی ملازمت سے خوش ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ باعزت کام ہے اور اب گھر کے اخراجات بھی پورے ہو جاتے ہیں۔

جس فیکٹری میں انھیں نیا روزگار ملا ہے وہاں پھولوں سے اگربتیاں بنائی جاتی ہیں۔

فیکٹری میں مندروں اور دیگر عبادت گاہوں سے کچرے کے طور پر نکلنے والے پھول لائے جاتے ہیں جنھیں عام طور پر دریاوں میں بہا دیا جاتا ہے۔ ان پھولوں کے ساتھ کیڑے مار ادویات بھی دریا میں گھل جاتی ہیں۔

مزید پڑھیے

انڈیا خواتین کے لیے ’سب سے خطرناک‘ ملک

انڈیا: کروڑوں خواتین کام کیوں چھوڑ رہی ہیں؟

دو خواتین کو ہراساں کرنے کے الزام میں تین گرفتار

د

فیکٹری میں مندروں اور دیگر عبادت گاہوں سے کچرے کے طور پر نکلنے والے پھول لائے جاتے ہیں جنھیں عام طور پر دریاوں میں بہا دیا جاتا ہے
ک

جس فیکٹری میں انھیں نیا روزگار ملا ہے اس فیکٹری میں پھولوں سے اگربتیاں بنائی جاتی ہیں

انڈیا میں ہر روز عبادت گاہوں سے تقریباً 80 لاکھ ٹن پھولوں کا کچرا نکلتا ہے۔ اتر پردیش کے مختلف مندروں سے ہر روز انکت کی پھول نامی برینڈ کے لیے فیکٹری میں تقریباً ساڑھے آٹھ ٹن پھول لائے جاتے ہیں جن سے یہاں کام کرنے والی خواتین اگربتیاں بناتی ہیں۔

پھولوں کو توڑنے، سکھانے، پیسنے، اگربتی کی شکل دینے اور پیکنگ تک ہر کام کو علاقے کے پسماندہ طبقے سے آنے والی خواتین انجام دیتی ہیں۔

اس منصوبے کے بانی انکت اگروال نے انڈیا میں ٹیکنالوجی کے مقبول ادارے سے تعلیم حاصل کی ہے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ کیڑے مارادویات پانی کے ذریعے زمین تک پہنچ جاتی ہیں اور ان کی وجہ سے کروڑوں کی آبادی کو دست، ہیضہ اور ہیپاٹائٹس جیسے امراض کا خطرہ رہتا ہے۔

پھول

پھولوں کو توڑنے، سکھانے، پیسنے، اگر بتی کی شکل دینے اور پیکنگ تک ہر کام کو علاقے کے پسماندہ طبقے سے آنے والی خواتین انجام دیتی ہیں

بھونتی نامی علاقے میں دو برس قبل جب انکت نے اس فیکٹری میں کام شروع کیا تو انھیں پتا نہیں تھا کہ پسماندہ طبقے سے آنے والی خواتین کے ساتھ کام کرنا ان کا مشن بن جائے گا۔

انھوں نے بتایا ’اس وقت ہم نے دس مقامی خواتین کے ساتھ کام کرنا شروع کیا تھا۔ وہ خواتین میرا بار بار شکریہ ادا کرتی تھیں۔ ایک دن میں نے ان سے پوچھا کہ کہ آخر اس میں اتنی خوشی کی کیا بات ہے؟ تو انھوں نے بتایا کہ اس سے قبل وہ لوگوں کے گھروں میں لیٹرینیں صاف کیا کرتی تھیں۔ وہ خوش ہیں کہ اب انھیں گندے کام میں ہاتھ نہیں ڈالنا پڑتا۔ بس وہیں سے یہ میرا مشن بن گیا کہ میں ان مقامی خواتین کے ساتھ کام کروں گا جنھیں کام کے دیگر مواقع میسر نہیں ہوتے۔‘

انکت نے بتایا کہ فیکٹڑی کے منتظمین کو چھوڑ کر اگربتی بنانے کے کام کرنے والی تمام ملازمین خواتین ہیں جن کی کل تعداد 78 ہے۔

د

انکت نے بتایا کہ فیکٹری کے منتظمین کو چھوڑ کر اگربتی بنانے کے کام کرنے والی تمام ملازمین خواتین ہیں جن کی تعداد 78 بنتی ہے

اس فیکٹری میں کام کرنے والی منی دیوی نے بی بی سی کو بتایا کہ نئی نوکری سے اب ان کے گھر میں ان کی عزت بڑھ گئی ہے۔ وہ اپنی تنخواہ میں سے اتنے پیسے بچا لیتی ہیں جس سے ضرورت پڑنے پر وہ اپنے رشتہ داروں کی بھی مدد کر سکیں۔

منی دیوی کہتی ہیں ’بچے بھی کہتے ہیں ممی بہت اچھی جگہ کام کرتی ہیں۔ ممی یہ کام نہ کریں تو گھر ہی نہ چلے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے مواقع ان کی برادری کی خواتین کے حصے میں نہیں آتے۔ کوئی انھیں کام نہیں دینا چاہتا۔

’مجھے اب کسی نئی جگہ کام کرنے جانے کا خیال بھی نہیں آتا۔‘

یہ بھی پڑھیے!

انڈین خواتین کے چہرے پر گائے کا ماسک کیوں؟

دہلی میٹرو پر خواتین کی نشستوں پر مرد

خواتین کے بارے میں نازیبا کلمات، انڈین کرکٹرز پر جرمانہ

ت

منی دیوی خوش ہیں کہ نئی نوکری سے اب ان کے گھر میں ان کی عزت بڑھ گئی ہے۔

اسی فیکٹری میں کام کرے والی شبانہ کے گھر میں پانچ افراد ہیں اور اخراجات سے نمٹنے کے لیے پورے خاندان کا انحصار انھی کی تنخواہ پر ہوتا ہے۔

دو برس قبل انھوں نے اسی وجہ سے تعلیم نامکمل چھوڑ دی تھی لیکن اب انھیں اتنا وقت مل جاتا ہے کہ وہ کام کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم پر بھی توجہ دے سکیں۔

شبانہ نے بتایا کہ اب انھوں نے اپنے چھوٹے بھائی کا داخلہ سکول میں کروا دیا ہے۔ چند روز میں ان کی چھوٹی بہن کی بھی شادی ہے جس کے تمام اخراجات وہی اٹھائیں گی۔

ی

شبانہ نے بی بی سی کو بتایا کہ اس فیکٹری میں انھیں چائے بھی پینے کو ملتی ہے اور ملازمین کو مفت ٹرانسپورٹ کی سہولت بھی حاصل ہے

اس فیکٹری میں نوکری کرنے سے قبل انھوں نے کئی جگہ نوکری تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہ مل سکی۔

انھوں نے بتایا ’ہم لوگوں کے لیے کام ڈھونڈنا آسان نہیں ہے۔ پہلی بات تو کہیں کام ملتا ہی نہیں ہے اگر ملتا بھی ہے تو تنخواہ اتنی کم ہوتی ہے کہ اس میں پورے خاندان کے اخراجات اٹھانا ممکن نہیں ہوتا۔ اور دس دس گھنٹے کام کرنے کے بعد آپ کہیں دوسری نوکری بھی نہیں کر سکتے۔‘

شبانہ نے بی بی سی کو بتایا کہ اس فیکٹری میں انھیں چائے بھی پینے کو ملتی ہے اور ملازمین کو مفت ٹرانسپورٹ کی سہولت بھی حاصل ہے۔

وہ کہتی ہیں ’میں پھول فیکٹری میں کام کرنا کبھی نہیں چھوڑوں گی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32496 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp