ایک کال گرل کی محبت


”ماما انکل کو کیا ہوا ہے؟ “ اس نے معصومیت سے سوال کیا۔

”کچھ نہیں بیٹا! ذرا سی چوٹ ہے، ٹھیک ہو جائیں گے۔ “ ہانیہ نے پیار سے کہا۔ تب اندازہ ہوا کہ وہ ایک بچے کی ماں ہے۔ ویسے دیکھنے میں شادی شدہ نہیں لگتی تھی۔ چند دن بیڈ پر پڑے پڑے بوریت میں گزرے۔ ایسے میں کبھی کبھی وہ بچہ جس کا نام تیمور تھا وہ آ جاتا تو اس کی پیاری پیاری باتوں سے دل بہل جاتا۔ مجھے وہ کافی اچھا لگنے لگا تھا۔ ہانیہ جب مجھے اس کے ساتھ گپ شپ کرتے دیکھتی تو مسکرا اٹھتی۔

اس گھر میں ایک ملازمہ بھی تھی۔ پروین نام کی ایک ادھیڑ عمر عورت۔ وہ کوئی بات نہیں کرتی تھی۔ چپ چاپ کام کرتی رہتی تھی۔ میں ہانیہ کے خاوند کے بارے میں جاننا چاہتا تھا لیکن اس سے کبھی پوچھ نہ سکا۔ ایک دن پروین کمرے میں جھاڑ پونچھ کر رہی تھی تب میں نے اسے آواز دی۔

پروین!
”جی صاحب۔ “ اس نے چونک کر کہا۔

”میں نے ہانیہ کے میاں کو کبھی نہیں دیکھا۔ وہ کہاں ہوتے ہیں۔ “
”ان کے میاں نہیں ہیں۔ “ پروین نے آہستہ سے کہا۔

”اوہ! یعنی اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ بہت افسوس ہوا۔ “ میں نے نتیجہ اخذ کرنے میں عجلت کی۔
”نہیں صاحب! نہیں ہیں مطلب انہوں نے شادی نہیں کی۔ “ پروین نے سپاٹ لہجے میں کہا۔
”کیا مطلب؟ تو پھر تیمور؟ “

میری حیرانی بجا تھی۔ پروین نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ ہانیہ آ گئی۔ گفتگو کا سلسلہ رک گیا۔ اس دن میں اس سے زیادہ نہ جان سکا لیکن مجھے ایک تجسس نے گھیر لیا تھا۔ اگر ہانیہ کی شادی نہیں ہوئی تو تیمور کون تھا؟ وہ اسے ماما کہتا تھا۔ کہیں وہ اس کی کسی ناتمام محبت کی نشانی تو نہیں؟ یہ بھی تو ہو سکتا ہے اس نے تیمور کو گود لیا ہو۔ کسی مجبوری کی بنا پر۔ اس کے والدین بھی نہیں تھے۔ شاید سہارے کے لیے یہ قدم اٹھایا ہو مگر اس نے شادی کیوں نہیں کی؟ بہت سے سوال میرے ذہن میں گونجتے تھے۔

شام کو میں انہی سوچوں میں گم تھا جب پروین آئی اور کھانے کا پوچھا۔ میں نے منع کر دیا۔ کچھ دیر بعد ہانیہ خود کھانا لے کر آ گئی۔
”کیا بات ہے؟ پروین بتا رہی تھی آپ نے دوپہر کو بھی بہت کم کھایا تھا۔ “ ہانیہ نے بڑے پیار سے پوچھا۔
”بھوک ہی نہیں ہے۔ “ میں نے کہا۔

”لیکن آپ دوائیں لے رہے ہیں تھوڑا سا تو کھا لیں۔ اچھا تھوڑا سا چکن پلاؤ تو کھا لیں۔ “ ہانیہ نے خود چمچ سے مجھے کھلانا چاہا۔

”اچھا میں کھا لیتا ہوں مگر تھوڑا سا۔ “ میں نے گویا ہار مان لی۔ ہانیہ مسکراتے ہوئے میرے سامنے بیٹھ گئی اور مجھے کھاتے ہوئے دیکھتی رہی جیسے اسے پتا تھا کہ وہ چلی گئی تو میں کھانا چھوڑ دوں گا۔ میں اس کا دلکش چہرہ دیکھ رہا تھا۔ حقیقت تو یہ تھی کہ وہ مجھے بہت اچھی لگنے لگی تھی۔ میرا جی چاہتا تھا کہ بس اسے ہی دیکھتا رہوں۔ وہ نظر نہیں آتی تھی تو میرے مزاج میں بگاڑ پیدا ہو جاتا تھا۔

میری طبیعت آہستہ آہستہ بہتر ہو رہی تھی۔ میں بستر پر لیٹے لیٹے طرح طرح کی باتیں سوچتا رہتا تھا۔ روز بہ روز ہانیہ سے میری محبت بڑھتی ہی جاتی تھی۔ میں سوچتا تھا کہ میں ہانیہ سے شادی کی بات کروں گا۔ تیمور کو اپنے بیٹے کی طرح پالوں گا۔ اگر ہانیہ مان جائے تو کتنا اچھا ہو۔ زندگی کتنی حسین ہو جائے گی۔ اور اگر اس نے منع کر دیا تو؟ نہیں یہ نہیں ہو سکتا پھر میرا کیا ہو گا۔ ایسا سوچتے ہوئے بھی دل ڈوبنے لگتا تھا۔

پھر وہ دن آ گیا جب مجھے ہانیہ کے گھر کو چھوڑنا تھا۔ ڈاکٹر نے چیک اپ کے بعد بتایا کہ میں بالکل ٹھیک ہوں۔ ہانیہ کے چہرے پر بہت اطمینان تھا۔ حجاب اوڑھے ہوئے شکر ادا کرتے ہوئے وہ بڑی پاکیزہ سی لگ رہی تھی۔ ڈاکٹر کو رخصت کرنے کے بعد وہ میرے پاس آئی اور مسکراتے ہوئے بولی۔

”کیوں جناب اب تو آپ بالکل ٹھیک ہیں۔ اب کیا ارادہ ہے؟ “
”اپنے گھر جاؤں گا۔ بہت دن آپ کے ہاں مہمان رہا لیکن اب واپسی کا ارادہ ہے۔ بس ایک خواہش ہے کہ آپ بھی میرے گھر میں رہیں۔ “ میں نے گول مول انداز میں اپنے دل کی بات کہہ دی۔

”ہوں۔ آپ کی یہ خواہش پوری بھی ہو سکتی ہے۔ اچھا کتنے دن کے لئے مہمان بنائیں گے مجھے۔ “ اس نے شوخی سے کہا۔
میرا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ کیا دونوں طرف آگ برابر لگی ہوئی ہے؟ میرا دل چاہ رہا تھا آج سب کچھ صاف صاف کہہ دوں۔
”ہانیہ دل تو چاہتا ہے آپ ہمیشہ میرے پاس رہیں۔ “ میں نے گویا تمہید باندھی۔

”ٹھیک ہے مگر دماغٖ سے سوچیے ایسا ہونا مشکل ہے البتہ میں تین دن کے لیے آپ کے ساتھ رہ سکتی ہوں۔ مجھے بھی آپ کافی اچھے لگتے ہیں۔ “ ہانیہ نے خوشدلی سے کہا۔

میں الجھ کر رہ گیا۔ یہ کس طرح کی باتیں کر رہی ہے۔ ”کیا آپ واقعی میرے ساتھ رہیں گی؟ “ میں نے کہا۔

”بالکل۔ مجھے پتہ ہے آپ افورڈ تو نہیں کر سکتے لیکن یقین مانیے مجھے واقعی اتنا افسوس ہے کہ میں نے آپ کا تقریباً مرڈر کر دیا تھا۔ شکر ہے آپ بچ گئے وگرنہ میں اپنے آپ کو کبھی معاف نہ کر پاتی۔ اس دن میں نے شراب بھی پی رکھی تھی۔ اب تو میں نے خود سے پکا وعدہ کیا ہے کہ شراب پی کر کبھی گاڑی نہیں چلاؤں گی۔ “ ہانیہ نے شرمندگی ظاہر کی۔

میرے دل کو ایک دھکا سا لگا۔ ”ہانیہ میں تم سے محبت کرتا ہوں، تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ “ میں نے بالآخر کہہ دیا۔
ہانیہ چند لمحے خاموش رہی پھر یکا یک ہنسنے لگی۔ میں حیرت سے اس کے منہ کی طرف دیکھ رہا تھا۔

”میں نے آپ کو کبھی بتایا نہیں، بتانے کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ خیر اب بتانے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ میں ایک ہائی کلاس کال گرل ہوں یعنی سیکس ورکر۔ تیمور میرا بیٹا نہیں ہے۔ ایک دن مجھے صبح سویرے فٹ پاتھ پر پڑا ملا تھا۔ میں کسی کے ساتھ شب بسری کے بعد واپس آ رہی تھی۔ میں نے اسے فٹ پاتھ سے اٹھایا اور اپنے پاس رکھ لیا۔ یہ کوٹھی میں نے اپنی کمائی سے خریدی ہے اور مجھے شادی کے نام سے بھی نفرت ہے۔ کیوں کہ جب میں گریجویشن کر رہی تھی تو ایک لڑکے نے شادی کا وعدہ کر کے مجھے پیار کے جال میں پھانسا تھا۔ میں اس کے ساتھ بھاگ کر اس شہر میں آ گئی۔ پھر اس نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر میرا گینگ ریپ کیا۔ اب یہی میری زندگی ہے اور میں اسے اپنی مرضی سے گزاروں گی۔ “

ہانیہ نے کچھ تفصیلات بھی بتائی تھیں جنہیں دہرانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ میرے دل و دماغ کی دنیا تہہ و بالا ہو گئی تھی۔ ایک ہما تھی جسے میں چھونا بھی نہیں چاہتا تھا اور ایک ہانیہ تھی جس پر میں کچھ دیر پہلے تک جان نچھاور کرنے کو تیار تھا لیکن وہ محض پیسہ کمانے کی مشین تھی۔ ہانیہ میری نہیں ہو سکتی تھی اور میں کبھی ہما کا نہیں ہو سکتا تھا۔ قسمت نے مجھے کیسے عجیب موڑ پر لا کھڑا کیا تھا۔ میں نے ہانیہ سے ایک لفظ بھی نہ کہا اور چپ چاپ اس کی کوٹھی سے نکل آیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2