ایک کال گرل کی محبت


میرے طنزیہ جملے سن کر بھی ہما نے مجھے کوئی تند و تیز جواب نہ دیا تھا۔ یہ ردِ عمل مجھے کچھ اور بھڑکا رہا تھا۔ شاید اس کی جگہ کوئی اور لڑکی ہوتی تو میں اس سے کسی اور طرح سے پیش آتا۔ میری نظر میں وہ ایک کال گرل کے سوا اور کچھ نہیں تھی۔ میں اپنے دوست آزاد کی وجہ سے اسے برداشت کرتا تھا۔ دراصل جن دنوں آزاد اپنے بریک اپ کے بعد اس کی رفاقت میں اپنا غم غلط کرنے کی کوششوں میں مصروف تھا انہی دنوں میرا بھی آزاد کے فلیٹ میں آنا جانا تھا۔ مجھے اکثر ہما بھی وہیں ملتی تھی۔

ہما اپنی اداؤں اور بات چیت سے مجھ پر جال پھینکتی تھی لیکن میرے بھی کچھ اصول اور نظریات تھے۔ میرے نزدیک اسے چھونا بھی گناہ تھا۔ میں نے آزاد سے ملنا بھی کم کر دیا۔ ایک دن جب ہم باہر ملے تو آزاد نے شکوہ کیا کہ میں اس کے گھر نہیں آتا۔ میں خاموش رہا لیکن آزاد سمجھ گیا۔

”یار وہ ہمیشہ میرے گھر پر نہیں ہوتی۔ “
”مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بس میں ان دنوں مصروف تھا۔ “ میں نے وضاحت کی۔

” اسے پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے۔ اپنا کام چھوڑ کر بیٹھی ہے۔ میں نے تو سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ ایسا کرے گی تو بھوکی مر جائے گی۔ مانتی ہی نہیں۔ بہت دنوں سے میں نے اسے ہنستے ہوئے نہیں دیکھا۔ بہت اداس رہتی ہے۔ “ آزاد نے کہا۔

”تو مجھے کیوں سنا رہے ہو۔ میرا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ “ میں نے منہ بنایا۔
”کوئی تو بات ہے۔ مجھے لگتا ہے اس کی اس حالت سے تمہارا کوئی واسطہ ضرور ہے۔ “ آزاد بولا۔

آزاد مجھے گھر لے گیا۔ ہما بھی وہاں آگئی۔ یقیناً آزاد نے اسے بلایا ہو گا۔ واقعی اس کے ناز و انداز سب ختم ہو چکے تھے۔ وہ میرے سامنے کسی بھکارن کی طرح کھڑی تھی۔ نگاہیں جھکائے ہوئے اور اپنی انگلیاں مروڑتے ہوئے اس نے التجا کی۔

”مجھے اپنے گھر میں نوکرانی بنا کر رکھ لو۔ میں تنخواہ بھی نہیں لوں گی۔ بس مجھے پہننے کے لئے کپڑے اور کھانے کے لئے روٹی دے دینا۔ میرے لیے بس اتنا کافی ہے۔ “

میرا دل نہ پگھلا اور میں نے کئی سخت باتیں کیں۔ شاید اس کی آنکھوں میں آنسو تھے لیکن میں اسے دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔ میں نے موٹر سائیکل کو کک لگائی اور وہاں سے نکل آیا۔ ذہن میں ایک کشمکش جاری تھی۔ شام کا وقت تھا۔ ایسے میں نہ جانے کیسے میں ایک تیز رفتار کار کے سامنے آ گیا۔ میں نے بچنے کی کوشش تو کی لیکن تیز رفتاری میں بریک کیا لگتی۔ ایک دھماکے سے میں کار سے ٹکرا گیا۔ ایک سیکنڈ کے لئے شدید درد کا احساس ہوا پھر ذہن پر تاریکی چھا گئی۔

میری بے ہوشی کا وقفہ نہ جانے کتنا طویل تھا جب ہوش آیا تو کئی منٹ تک میں ارد گرد کے ماحول کو سمجھنے کی کوشش کرتا رہا۔ پھر مجھے حادثہ یاد آ گیا۔ میں کسی اجنبی جگہ پر تھا۔ ایک خوبصورت بیڈ روم تھا جیسے کسی بڑی کوٹھی کا ہو۔ بائیں ٹانگ میں درد محسوس ہو رہا تھا۔ پھر کسی کی آہٹ سنائی دی۔ دروازے میں سے ایک لڑکی اندر آتی دکھائی دی۔ بڑی دلکش اور ڈیسینٹ سی لڑکی تھی۔ سر پر حجاب تھا۔ مجھے ہوش میں دیکھ کر اس کے چہرے پر خوشی دوڑ گئی۔

”شکر ہے آپ کو ہوش آ گیا۔ میں بہت پریشان تھی۔ “ اس نے جلدی سے کہا۔ ”محترمہ پہلے یہ بتائیے کہ میں کہاں ہوں اور آپ کون ہیں؟ “ میں نے پوچھا۔

”آپ میرے گھر پر ہیں اور میری گاڑی سے ٹکرا کر ہی آپ زخمی ہوئے ہیں۔ میں اپنے خیالوں میں مگن گاڑی چلا رہی تھی مجھے پتا ہی نہیں چلا اور آپ سامنے آ گئے میں نے بریک لگانے کی کوشش کی تھی پھر بھی گاڑی آپ کی موٹر سائیکل سے ٹکرا گئی۔ “ اس نے وضاحت کی۔

”اوہ! تو یہ بات ہے۔ میری حالت کے بارے میں کچھ بتائیں۔ “ میں نے کہا۔
”ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ آپ جلد ٹھیک ہو جائیں گے۔ سر میں چوٹ کی وجہ سے آپ بے ہوش ہو گئے تھے۔ بائیں ٹانگ میں معمولی سا فریکچر ہے اور باقی معمولی خراشیں ہیں۔ چند دن آپ میرے مہمان رہیں گے۔ بس اتنا بتا دیجئیے کہ آپ کی فیملی کو کیسے انفارم کرنا ہے۔ “ لڑکی نے کہا۔

”فیملی کی فکر نہ کریں کیونکہ والدین نہیں رہے اور میں اس بھری دنیا میں اکیلا ہوں۔ “
”اوہ۔ “ اس کے منہ سے نکلا۔
”مجھے اپنا سیل فون چاہیے تھا۔ “ میں نے کہا۔

”آپ کا فون موجود ہے میں ابھی آپ کو دیتی ہوں۔ وہ چلی گئی تو میں اپنے حالات کے بارے میں سوچنے لگا۔ فون ملا تو میں نے اپنے باس سے بات کی اور حادثے کا بتا کر ان سے رخصت لے لی۔ ڈاکٹر صاحب آئے تو تسلی ہو گئی کہ میں بڑے نقصان سے بچ گیا ہوں۔ حجاب والی لڑکی کا نام ہانیہ تھا۔ وہ حقیقت میں میرا بڑا خیال رکھتی تھی۔ شاید اسے اس بات کا شدید احساس تھا کہ میں اس کی وجہ سے زخمی ہوا ہوں۔ وہ کھانے کے وقت کھانا اور دوا کے وقت دوا لے کر آ جاتی تھی۔ دوسرے دن اس کے پیچھے پیچھے تین چار سال کا ایک بچہ بھی آ گیا۔
مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2