مغربی فکری روایت اور مذہب


مغربی فکری روایت کے معیارات یکساں نہیں ہے، اسی میں سے مغربی سرمایہ داری نے بھی جنم لیا ہے اور اسی میں سے سوشلزم نے بھی جنم لیا ہے، ہمیں دیکھنا ہو گا کہ مغرب کی کو ن سی فکری جہت ہے جو ہماری فکری روایت سے ہم آہنگ ہے اور اُسی معاشرے کو پروان چڑھانے کی بات کرتی ہے جس معاشرے کا خواب اسلامی فکری روایت دکھاتی ہے۔

ہمیں دیکھنا ہو گا کہ مغرب کی فکری روایت میں وہ کون سی جہتیں ہیں جن سے مغرب نے فکری جمود کو توڑا، مغربی فکری روایت کے درمیاں ایسے نظریات پروان چڑھ چُکے ہیں اور چڑھ رہے ہیں جن میں یہ صلاحیت ہے کہ مغربی دُنیا کو اپنے اندر پیدا شُدہ فساد سے نکال سکیں اور اُن نظریات کا تریاق نکال سکیں جن نظریات نے مغربی سرمایہ داری کو فکری بنیاد فراہم کی، مغربی سرمایہ داری نے مغربی تہذیب کو شدید نقصان پہنچایا، اسی کی وجہ سے مغرب بین الاقوامی رہنمائی کی صلاحیت سے تہی دامن ہے، ایسے نظریات میں سب سے اہم نظریہ سوشلزم ہے جو اپنی کلاسیکی شکل میں یا اُس کے اثر سے پیدا ہونے والے نئے نظریات کی بنیاد پرمغرب کو سرمایہ داری اور سامراجیت کے شر سے نکالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مُسلم فکری روایت بھی ظلم کے خاتمے اور نظامِ عدل کے قیام کے نظریے کی وجہ سے سوشلزم کے معاشی اور سماجی پروگرام سے مطابقت میں ہے اور تہذیبی زوال میں ظلم کے کردار پر دونوں متفق ہیں، دونوں میں پیدا شُدہ بُعد کی بنیاد میں کُچھ فکری مغالطے ہیں جن کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔

سائنسی ترقی نے کونیاتی نظریات میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کی ہیں، مسلمان مفکرین سائنسی ترقی کی وجہ سے دی گئی کونیاتی نظریات کی چنوتی سے بطریقِ احسن عہدہ برا نہیں ہو سکے اور اس ترقی کو عملی معاشی اور سماجی نظریات کے ساتھ گَڈ مَڈ کر دیا اور اِسی وجہ سے مغربی سرمایہ داری اور مغربی لبرلزم کی طرف سے دی گئی فکری چنوتی کا توڑ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے، اسلام جو اپنے اصل کے اعتبار سے ظلم کے خاتمے اور عدل کے قیام کا داعی ہونے کی بنیاد پر سوشلزم کے سماجی پروگرام سے قریب تر تھا بعض مطلق العنان حاکموں نے عملی طور پر دُنیا میں ظلم کے نظام کے قیام میں مغربی سرمایہ داری کے مددگار کے طور پر پیش کیا، پوری دُنیا میں مسلمان ممالک کو کمیونزم اور سوشلزم کے پھیلاؤ کے سامنے دیوار بنانے کے عمل میں شریک کر لیا گیا، مشرقِ وُسطیٰ، ایشیا اور افریقہ کے کئی اہم مُسلم ممالک اِس مغربی فکری اور عملی یلغار کے آگے بے بس ہو گئے اور اپنے معاشروں کو تباہی کے کنارے پر پہنچا دیا، پاکستان کی مثال اس حوالے سے بہت اہم ہے، اپنے قیام سے اب تک مغربی سرمایہ داری اور استعماریت کے مقاصد کی برتری کے لئے مستقل استعمال ہونے والا یہ ملک اپنے معاشرے کی تعمیر کے حوالے سے بہت سے مخمصوں اور مسئلوں کا شکار ہے، اپنے قیام کے اکہتر سالوں میں بھی اپنی ثقافتی پہچان پیدا کرنے میں ناکام ہونے کی وجہ سے معاشرتی خلجان کا شکار ہو کر اب اپنی ثقافتی سالمیت کو برقرار رکھنے میں واضح ناکامی کے خطرے سے دوچار ہے۔

اسلامی تہذیب کا ایک خاصہ ہے کہ اچھی چیز جہاں سے بھی ملے اختیار کر لو اور بُری چیز کو چھوڑ دو ”ھذ ما صفا ودع ما کدر“، آج بھی ہمیں دنیا میں موجود ترقی دادا رُجحانات کی پہچان پیدا کرنی پڑے گی تبھی ہم آج کے فکری چیلنجز سے نمٹنے کے قابل ہو سکیں گے، دُنیا میں موجود اُن اچھے نظریات جن کو اپنا کر ہم شیطانیت اور زوال کا مقابلہ کر سکتے ہیں سوشلزم اُن میں سے ایک ہے، سوشلزم کو اگر معاشی اور سماجی مساوات کی سائینس سمجھا جائے تو بھی ہماری فکری روایت اس سے ہم آہنگ نظر آتی ہے اور اس طرح دُنیا میں پائی جانے والی شیطانیت کی جڑ مغربی سرمایہ داری کی طرف سے دی گئی چنوتی کا سدِباب کر سکتے ہیں، اس مقصد کے حصول تک ہمیں جدید کونیاتی فکری رُجحانات کو بیچ میں گَڈ مڈ کرنے کے فکری مغالطے سے بچنا ہوگا، اسلام کا معاشی اور سماجی نظام اور سوشلزم کا معاشی اور سماجی نظام دُنیا کو مغربی سرمایہ داری کے شیطانی نظام سے نجات دلانے کے حوالے سے متفق ہیں، کونیاتی نظام کے حوالے سے دُنیا ہمیشہ سے نظریات پیش کرتی اور پرکھتی چلی آ رہی ہے، کونیاتی نظام کے حوالے سے بھی آخرکار اُسی نظریے کی جیت ہوگی جو دُنیا کو ظلم سے نکالے گا، ہمیں آج کے زندہ صالح نظریات کے ساتھ مطابقت پیدا کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے اور مغربی سرمایہ داری کے شیطان کی طرف سے پیدا شُدہ وسوسوں اور فکری مغالطوں کو خیرباد کہہ کر دُنیا کو خوشحالی، امن اور ترقی کی نوید سُنانی چاہیے

یہ سارا پس منظر بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اوپر بیان کیے گئے مخمصوں سے نکلنے کی کوئی سبیل نکالی جائے، حکمتِ عملی تو یہ ہونی چاہیے کہ بحیثیتِ ملت ہم اپنی فکری روایات اور اپنے نظریے کی روح سے رجوع کریں، دنیا میں مذہب کی بہت سی توجیہات میسر ہیں، ایک اور دوسری میں موت اور زندگی کا فرق ہے، اگر ایک موت کی طرف لے کر جاتی ہے تو دوسری زندگی کی نوید سناتی ہے، موت کی طرف لے جانے والی توجیہات کے ماننے والے زیادہ ہیں اور وہ اصل نظریہ نظر نہیں آ رہا جس نے چشمِ زدن میں دُنیا کو ہمیشہ کے لئے بدل دیا، وہ نظریہ جس نے تاریخ میں پہلی دفعہ دُنیا کو نہ صرف اِنصاف پر مبنی بین الاقوامی نظام سے متعارف کروایا بلکہ اُسے نجات کی بنیادی شرط قرار دیا۔

جن دو بڑی سلطنتوں کو اسلام نے شکست دی اُن کے ہاں سب سے بڑی خرابی یہی تھی کہ اُنھوں نے اپنے لوگوں پر ظلم اور زیادتی پر مبنی نظام قائم کیا ہُوا تھا اور بین الاقوامی سطح پر دوسری اقوام کو مغلوب اور غلام بنا رکھا تھا اور دُنیا کو کوئی بہتر نظام دینے کی اُن کے ہاں کوئی خواہش نہیں تھی، اسلام نے دُنیا کو ایک بہترین بین الاقوامی نظام دیا اور اُسے ایک بڑے عرصے تک دُنیا کے بڑے حصے پر لاگو کر کے دکھایا۔ آج جب کہ اسلامی دُنیا سے اپنے بین الاقوامی نظام کو سمجھنے اور سمجھانے کی صلاحیت چھن چکی ہے تو ایک بار پھر دُنیا مغربی سامراج کے بوجھ تلے کراہ رہی ہے، اب پھر ملتِ اسلامیہ کو وہی چنوتی درپیش ہے جو اپنے آغاز کے وقت تھی یعنی ایک طاقتور اور ظالم مغربی سامراج کے ہاتھوں پستی ہوئی انسانیت کو ظلم کے شکنجے سے نجات دلوانا، اگر ہماری طرف سے صحیح اور محکم فکری رہنمائی میسر ہو تو اس عمل میں دوسری مظلوم اور انصاف پر مبنی نظام کی حامل ملّتیں بھی ہمارے ساتھ کھڑی ہو سکتی ہیں۔ یہ فکری رہنمائی دینے کے لئے ہمیں فکری انتشار سے نکلنا ہو گا اور فی زمانہ مذہب کی مختلف توجیہات میں سے اس کی اصل روح سے مطابقت رکھنے والی توجیہہ کو پہچاننا ہو گا اور اسے معاصر زندہ اور قوی فکری رجحانات کے تناظر میں دُنیا کے سامنے رکھنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).