پھول کی کوئی قیمت نہیں


اب کسی ہفتے بکری کم ہوتی کسی ہفتے زیادہ۔ جو پتیاں بچ جاتیں۔ بابا مراد بیگم کی قبر پر رکھ آتا۔ اس دوران ریڑھے والے نور نے محسوس کیاکہ تاجا معذور ہوتے ہوئے بھی کام چور نہ تھا۔ کسی نہ کسی کام میں ہاتھ بٹا دیتا تھا۔ چھوٹی بچی کو پلنگڑی پر بٹھا دیا جاتا تو تاجا پنکھی ہلاتا رہتا۔ سلا دیا جاتا وہ مکھیاں اڑاتا رہتا۔ حقہ ہر وقت تیار۔ آیا گیا رک جاتا۔ نور بھی شام کو آتا تو بیری کے درخت کے نیچے تاجے کے پاس بیٹھ کر حقہ پیتا۔ ادھر ادھر کی باتیں کرتا۔ صبح انے لگتا تو گھوڑے کا مصالحہ بنانے کو دے جاتا۔ گھسیارا گزرتا تو تاجا اس سے بھاؤ کرکے نور کے گھوڑے کے لیے عام نرخ سے سستا گھاس خرید رکھتا۔ ایکا ایکی چھوٹی بچی تاجے سے مانوس ہوگئی۔ اس کی گود میں پڑی رہتی اور تاجا بان کی پیڑی پر بندھا جکڑا بیٹھا رہتا۔ تاجا رومال میں لپٹی ہوئی اپنی روٹی صبح صبح اپنے ساتھ لے آتا۔ شام کو اس کا بھائی بالا بائسیکل کے ڈنڈے پر بٹھا کر لے جاتا۔ مگر اب تو کبھی نور اسے روٹی کا بھی پوچھ لیتا اور بیوی اسے چائے کا گلاس بھی دے دیتی۔

ایک دن گاؤں سے نور کی ساس کی بیمار کی اطلاع آئی۔ اس کی بیوی بچوں کو لے کر گاؤں جانے کے لیے تیارہوگئی۔ نور نے کہا وہ اتنے دن روٹی بازار سے کھا لے گا۔ تاجا بولا ”بھائی نور تم کو پہلے ہی بہت کھانسی آتی ہے۔ تم بازار سے کیوں کھانے کو کہہ رہے ہو۔ میں روٹی پکالیا کروں گا سارا دن بیکار ہی تو بیٹھا رہتا ہوں۔ گھر نہیں جاؤں گا، یہیں پڑا رہوں گا۔

بالا لینے آیا تو تاجے نے بتا دیا کہ وہ یہیں رہے گا جب تک نور کی بیوی گاؤں سے نہیں آجاتی۔ یہ سن کر اگلے روز بابا مراد آگیا، بیری کے نیچے پھولوں کا چھابا کھوکھے پر رکھا تھا۔ تاجا چولہے کے سامنے بیٹھا دیگچی مانجھ رہا تھا۔ مراد نے دیکھا قبروں کے لیے کوئی پھول لینے آتا تو تاجا چولہے کے پاس سے ہی بیٹھا بولتا ”کتنے کے چاہییں۔ چار آنے کے آٹھ آنے کے؟ جی آپ ہی لے لیں، پیسے وہیں رکھ دیں بوری کے نیچے۔ میں کیا بتاؤں جتنے ہونے چاہییں مناسب۔ چار آنے کے لے لیں، پھول کی کوئی قیمت

نہیں ہوتی جی ”۔

یہ جملہ سن کر بابا مراد کے سینے میں تیر لگا۔ یہ جملہ کس نے کہاتھا۔ جس نے کہا تھا وہ منوں مٹی کے نیچے پڑی تھی۔ مرنے والی کی بے بسی کے ساتھ ہی اسے اپنے بیٹے کی بے بسی اور معذوری کا خیال آیا جس کی صورت اچھی تھی جس کا پہلوانی بدن تھا، مگر ٹانگیں ماری گئی تھیں۔ اب معذور اور ناکارہ ہو کر مٹی کے ساتھ چمٹا ہوا تھا۔ وہ سوچنے لگا یہ جملہ تاجے کے دماغ میں کس طرح محفوظ رہ گیا، کس کونے میں چھپا ہوا تھا کہ آج آپ ہی آپ زبان سے ادا ہوگیا۔ جب تک تاجا بیٹھا سبزی بناتا رہا۔ ہنڈیا پکاتارہا۔ آٹا گوندھتا رہا۔ مراد کھوکھے کے پاس بیٹھا سوچتا رہا، حقہ گڑگڑاتا رہا اور قبروں پر جانے والی بیبیوں کے پاس پھول بیچ کر پیسے بوری کے نیچے رکھتا رہا۔

جب اس کا اپنا وقت ہار بیچنے کا قریب آنے لگا تو وہ گلہ تاجے کے سپرد کر کے رخصت ہوا۔ اگلے روز آیا تو تاجا پھر اسی طرح چولہے کے سامنے بیٹھا وہیں سے ہدایات دے دے کر پھول بیچ رہا تھا۔ بابا مراد نے رومال کھول کر لپٹی ہوئی ایک تختی نکالی اور اسے چھابے میں رکھ دیا۔ لکڑی کی تختی پر لکھا ہوا تھا۔ پھول کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔

 ”لے بولتا جا اب بیشک وہیں سے۔ کوئی پڑھا ہوا بابو آگیا تو آپ ہی پڑھ لے گا“۔

 ”کل کی آمدن بھی اتنی رہی جتنی میرے وہاں گلے پر بیٹھنے سے تھی۔ آمدن میں کوئی فرق نہیں پڑا بابا“۔

 ”میراخیال تھا کہ کم پڑ جائے گی۔ جبھی میں یہ لکھوا لایا۔ تمہاری ماں پوچھتی تھی تمہیں کوئی تکلیف تو نہیں؟ “

تاجا بولا ”کونسی تکلیف۔ نورنے تو کھلاگھرمجھ پر چھوڑ رکھا ہے۔ میں معذور اپاہج کہاں بھاگ سکتا ہوں“۔

مراد نے کہا ”ایسا نہ کہہ بیٹا۔ تو تو کئیوں سے اچھا ہے۔ دوڈھائی کی کار کر لیتا ہے“۔

بابا مراد اور تاجا بیٹھے یہ باتیں کر رہے تھے کہ ایک ریڑھے والے نے سڑک پر ریڑھا کھڑا کیا اور انگنائی سے سیدھا چولہے کی طرف آکر بولا ”نو ر کی بیوی فیروزاں کہاں ہے؟ “

 ”گاؤں گئی ہوئی ہے۔ اس کی ماں بیمارتھی“۔

 ”اسے اطلاع کردو کہ نور کی ٹرک سے ٹکر ہو گئی ہے، گھوڑا مر گیا ہے۔ وہ ہسپتال میں بے ہوش پڑا ہے“۔

ہمیں ہسپتال لے چلو ”۔

وہ بابا مراد اور تاجے کو اپنے ریڑھے پر بیٹھا کر ہسپتال پہنچا۔ نور کے سر پر پٹیاں بندھی تھیں، وہ بالکل بے ہوش پڑا تھا۔ بابا مراد نے اس کے کسی ملنے والے کا پتہ کرکے نور کی بیوی کو حادثہ کی اطلاع پہنچائی۔ جب وہ واپس آئے تو ٹوکری کے پھول آدھے ختم ہو چکے تھے۔ تختی کے نیچے ملے جلے بارہ آنے پڑے تھے۔ بور اٹھائی تو اس کے نیچے سے ایک روپیہ ستر پیسے ملے۔

یہ دو روپے چھ آنے کے پھول ان کی غیر حاضری میں بکے تھے۔

بابا مراد نے رات ہسپتال میں نور کے سرہانے گزاری جو بالکل بے ہوش پڑا رہا۔ صبح روتی چلاتی اس کی بیوی ہسپتال پہنچی

اور شام کو نور نے دم دے دیا۔ وہ بھی اسی قبرستان میں دفن ہوا۔

جب نور کی بیوی کو اس کی ماسی چند روز کے لیے اپنے ساتھ لے گئی تو تاجا گھر کی نگہداشت کرتارہا۔ دن کے وقت بابا مراد اس کے پاس آ بیٹھتا، سہ پہر کو چلاجاتا۔ نور کی بیوی آئی تو تاجا دھاڑیں مار مار کر رو دیا۔ بولا ”نور بنا میں سخت اداس ہو گیا ہوں“۔

فیروزاں زار زار رونے لگی اور بولی ”کیا مجھ سے زیادہ اداس ہوگئے ہو۔ ان بچوں سے بھی زیادہ اداس ہوگئے ہو“۔ تاجے نے چھوٹی کو اپنی گود میں بٹھا کر پیار کیا اور اپنی صدری سے بیس روپے نکال کر فیروزاں کو دیتے بولا ”یہ اپنے پاس رکھو“۔ پھر دھاڑیں مار مار کر رونے لگا اور بولا:

 ”مرنے والا میرا دوست تھا۔ میں معذور ہوں مگر پھول بیچ کر ان بچوں کا گزارہ چلاؤں گا“۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7