گُزرے زمانے کی عید اور میٹھی لسی


ملتانی مٹی ہمارے گھر سے بیس کلو میٹر دور پہاڑیوں سے نکلتی تھی۔ اور اکثر اونٹ پر مٹی بیچنے والے آتے تھے گندم دے مٹی لینا گویا بارٹر نظام تھا اسی ملتانی مٹی سے اماں پورا سال ہم سب سر کے بال دھوتی تھی اور جب سکول جانے لگے اسی مٹی سے تختی کو لیپ کرتے تھے۔ چاچا پیرن کی ہٹی سے مرونڈے چاولی اور چنے کی روایتی میٹھی ”گجی“ لے کے کھانا اور ساتھ ہی میٹھے پانی کے لگے ہتھی نلکے سے ٹھنڈا پانی پیتے تھے۔ عیدالفطر آنے سے پہلے اماں سویّاں بنانے کے لئے گندم کے دانے بھونتی تھی اور ہم بہن بھائی سب ان بُھنے ہوئے دانوں کو کرنچی سمجھ کے اماں سے چوری چُپھے چٹ کر جاتے تھے۔

پُرانے کپڑوں میں سے کُچھ بہتر اور اچھی حالت والے سوٹ کو کوئی بہن دھو کر تہہ کر کے رکھ دیتی تھی۔ غالباً ہمارے والدین نئے کپڑا دلوانا افورڈ نہیں کرسکتے تھے یا پھر اس وقت عید پر نئے کپڑے پہننا لازمی نہیں تھا جیسا کہ آج ہے۔ میرے خیال اس وقت افورڈ نہیں کر سکتے تھے جیسے آج لاکھوں والدین نہیں کرسکتے۔ عید کی نماز کے بعد اگر کبھی عیدی ملتی بھی تھی تو صرف دادی اماں اپنے چادر کے پلو سے مُڑے تُڑے نوٹ نکالتی تھی اور لازمی نہیں تھا کہ سب کو پیسے ملیں بس ایک آدھ کو دو چار روپے مل جاتے تھے۔

میں گھر میں دادی کا بڑا اور لاڈلا پوتا تھا لہذا اور کسی کو ملے نہ ملے ہماری عیدی پکی ہوتی تھی۔ نماز پڑھنے ابا ہمیں اپنی سائیکل پے لے جاتے تھے۔ یقین مانیں کوئی شیعہ سُنی کا مسئلہ نہیں تھا۔ مولوی صاحب غالباً ہاتھ باندھ کر اور ہم ہاتھ کھول کر پڑھتے تھے۔ دلچسپ بات ہے نماز ہو جاتی تھی۔ ساتھ والے نمازی نہ گھورتے تھے نہ نفرت کرتے تھے نہ خود ساختہ تبلیغ کرتے تھے۔ واپسی پے اماں فوراً ہاتھ کی بنی سویّاں بنا کے گُڑ (جو کوٹ کوٹ کے ریزہ ریزہ ہو چکا ہوتا) اوپر چھڑک دیتی۔

آپ سوچ رہے ہوں گے گُڑ کے بجائے شکر کیوں ڈالتی تھیں وہ اس لئے جس طرح آج کے اکثر لوگ نہیں ڈالتے (مہنگی جو ہے ) پھر دیسی گھی جو بکرے کے چمڑے جس کو ”زِک“ بولتے ہیں ( بلوچ اسی سوکھے چمڑے جو پانی کے مشک جیسا ہوتا ہے میں گھی رکھتے ہیں جو سالہا سال خراب نہیں ہوتا ) اس کو کھولا جاتا پھر اس گھی کی سوندھی سوندھی خوشبو پھیل جاتی جو آج کے نسل کو شاید بُو محسوس ہو۔ سویّاں گھی سے تر بتر کرکے کھائی جاتی تھیں۔

اس دن ہم بچوں کو والدین کی طرف سے پوری چُھٹی تھی گھر کا معمولی کام بھی ہم سے نہیں کرایا جاتا تھا۔ بڑی تفریح بس درختوں پے چڑھنا چُھپن چُھپائی کھیلنا ہوتا تھا۔ شام تک ایک یا دو بہن بھائی کو ابا کی طرف سے ٹھیک ٹھاک مار پڑتی تھی وجہ ہمیشہ شرارت سے کسی کو کانٹوں میں دھکا دینا یا پھر پُرانے میں سے سب سے خاص کپڑے کے جوڑے کو گندہ کرنا تھا۔ دادی کی مھربانی سے اور ابا کو روکنے سے مار میں خاطر خواہ کمی کا چانس ہو جاتا تھا۔

اماں نے کبھی نہیں مارا تھا۔ لیکن جب ابا مار رہے ہوتے تھے اماں ہمارے بچاؤ کے لئے کُچھ نہیں کرتی تھیں۔ کیونکہ ہم نے جب سے ہوش سنبھالا اماں کو ابا سے ڈرتے دیکھا اور ابھی بھی ڈرتی ہیں (پتہ نہیں کیوں آج کل خاوند ڈرتے ہیں ) بس پھر کیا صبح سے شروع ہونے والی خوشیوں بھری عید ہوتے ہوتے شام کو پھر شام غریباں بن چکی ہوتی۔ دوسرے دن پھر وہی روٹین کی زندگی کون سی ٹرو کون سی مرو۔ چھٹی کلاس میں شہر میں میرا داخلہ ہوگیا تو اسی دوران عید کے کُچھ دنوں بعد ابا نے مُجھے میچور سمجھ کے (جو کہ میں ابھی تک بھی نہیں ہوا ) چھوٹے بھائیوں کی عیدی کے پیسے اور شاید یقین سے نہیں کہہ سکتا کُچھ پیسے خود انہوں نے بھی دیے ہوں کہ شہر جا کے چھوٹے بھائیوں کو جو جو وہ پسند کریں لے دو اور ان کو کھلاؤ پلاؤ۔

شہر پُہنچ کر پہلے تو گھومتے پھرتے رہے ظاہر ہے سارا پیدل مارچ تھا۔ جب گرمی نے شدت پکڑی تھک بھی گئے پیاس بھی زوروں پے تھی۔ سب سے باری باری پوچھا کیا لینا ہے کیا کھانا ہے۔ سب نے یک زبان کہا ادا پیاس لگی ہے۔ پانی ڈھونڈتے ڈھونڈتے مزید پیاس آخر ایک لسی والے کی دُکان پر پُہنچے۔ لسی چونکہ دیہات میں مفت ملتی ہے۔ ہم سمجھے یہاں بھی شاید مفت ہو۔ لیکن یہاں۔ یہ نہ تھی ہماری قسمت۔ اس ظالم میٹھی لسی کے بل کی مد میں سمجھو ہمارے سب بھائیوں کے ریزرو (جو با مشکل بیس پچیس روپے تھے ) کو سُمجھو اُڑا کے رکھ دیا۔

ہم نے فوراً گھر کی راہ لی۔ تپتی دوپہر میں گھر پہنچ کر سب نے سب سے پہلے نلکے کا پانی پیا اور جو ظالم میٹھی لسی کا ذائقہ زبان پرتھوڑا سا تھا وہ ختم ہوگیا۔ چھوٹے بھائیوں کے دل کے حال کا خدا کو پتہ۔ میں واپسی پے صرف ایک دعُا مانگتے آیا کہ۔ اللہ کرے کہ ابا یہ نہ پوچھے پیسے کیسے خرچ کیے لیکن شومئی قسمت پہلا سوال تھا۔ وہ یہ تھا حساب دو۔ جب بتایا کہ سارے پیسوں کی لسی پی گئے۔ وہ خاموش ہوگئے ہمیں لگا آج کی ابا کی عطا کردہ لتریشن اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ دے گی۔

لیکن ابا نے پہلا جملہ بولا ”اگر لسی ہی پینی تھی تو صبح گھر سے لے جاتے (دیہات میں تو تب لسی وافر مقدار میں ہوتی تھی اور غالباً اب بھی) خلاف توقع اس دن ابا نے مارا نہیں تھا بلکہ پھر کبھی مار نہیں پڑی۔ لیکن اس دن ابا نے لفظوں کی مار دی اور پھر آنسو تھے کہہ رُکتے نہیں تھے۔ اس دن دادی پے بڑا ناراض ہوا۔ کیونکہ جسمانی مار سے تو بچا لیتے تھے۔ اس دن ابا کے لفظی مار سے نہیں بچایا۔ اس دن کے بعد ابا کے ہاتھ میری کمزوری آگئی کہ کسی بھی غلطی کوتاہی پر بس دو چار“ جملے ”بول دیتے ہیں اور ہم ہیں کہ زخمی ہو جاتے ہیں۔ اب بھی شہر کے اس لسی والی دُکان کے سامنے سے گزرتا ہوں۔ پہلے تھوڑی ہنسی آتی ہے پھر غالباً کان لال ہوتے ہیں۔ آنکھوں میں تھوڑی سی نمی آتی ہے اور لگتا ہے۔ ابا کان میں کہہ رہے ہوں۔ سب پیسوں کی لسی پی گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).