آپ کی زندگی کا کیا مقصد ہے؟


وقت کے ساتھ ساتھ میرے ، ہم سب، کے دوستوں کا حلقہ بڑھتا جا رہا ہے اور ان کے مجھ سے سوالوں کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے۔ وہ اکثر اوقات مجھ سے نفسیاتی سوال اور کبھی کبھار فلسفیانہ سوال پوچھتے ہیں۔ اس ہفتے دو اہم سوال موصول ہوئے۔ میں نے سوچا انہیں انفرادی طور پر جواب دینے کی بجائے کیوں نہ میں ان کا ایک کالم میں جواب دوں۔ ہوسکتا ہے اس سے ، ہم سب، کے دیگر قارئین کو بھی ان سوالوں کے بارے میں سوچنے کا موقع ملے۔ میں سوالوں کی جوابوں سے زیادہ عزت کرتا ہوں۔ ہم زندگی میں اپنے بزرگوں اور دوستوں سے سوال نہیں پوچھیں گے تو ان کے جواب کیسے پائیں گے۔ نجانے کتنے بچے جوان ہوتے ہوتے اپنے ماحول کے جبر اور خوف کی وجہ سے بہت سے سوال راستے میں کھو آتے ہیں۔ میرا ایک شعر ہے

؎ ہمارے بچوں کی سوچوں پہ کب سے پہرے ہیں
کہاں سے آئے گا آزاد نوجواں کوئی

ایک دوست نے مجھے سے پوچھا ہے۔ انسانی شخصیت اور نفسیاتی مسائل میں NATURE زیادہ اہمیت کی حامل ہے یا NURTURE؟

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ انسان اپنی فطرت لے کر پیدا ہوتا ہے اور اس پر ماحول کے اثرات بہت کم ہوتے ہیں اور بعض کا خیال ہے کہ انسانی بچہ ایک کورے کاغذ کی طرح ہوتا ہے اس کا ماحول اس کی شخصیت بناتا ہے اور اس کے نفسیاتی مسائل کا ذمہ دار ہوتا ہے۔

پچھلی ایک صدی میں انسانی نفسیات کے بارے میں بہت سے محققین نے بہت سے نظریات پیش کیے ہیں۔ لیکن میں یہاں صرف ایک ایسا نظریہ پیش کرنا چاہتا ہوں جس پر اکثر ماہرینِ نفسیات کا اتفاق الرائے ہے۔ میری نگاہ میں یہ نظریہ کافی متوازن نظریہ ہے۔ یہ نظریہ

BIO-PSYCHO-SOCIAL MODEL کہلاتا ہے۔ اس نظریے کے مطابق انسان کی شخصیت اور نفسیاتی مسائل میں تین طرح کے محرکات اہم ہیں۔

پہلی قسم کے محرکات BIOLOGICAL FACTORS کہلاتے ہیں۔ ان عوامل میں انسان کی جینز ، جو وہ اپنے والدین سے وراثت میں پاتا ہے اور وہ کیمیائی مادے جو اس کے دماغ کو متاثر کرتے ہیں اہم ہیں۔ بعض جسمانی بیماریوں کی طرح بعض ذہنی بیماریاں بھی موروثی ہیں۔ ایسی موروثی ذہنی بیماریوں میں سکزوفرینیا اور بائی پولر ڈس آرڈر سرِ فہرست ہیں۔ ایسے مریضوں کو سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ ماں باپ بنیں یا نہ بنیں۔

دوسری قسم کے محرکات PSYCHOLOGICAL FACTORS کہلاتے ہیں۔ ان عوامل کا تعلق انسان کی شخصیت سے ہے۔ بعض لوگ اندروں بیں ، انٹرورٹ اور تنہائی پسند ہوتے ہیں اور بعض بیروں بیں اور ایکسٹرورٹ ہوتے ہیں اور بہت سے دوست بنا کر اور محفلوں میں شریک ہو کر خوش ہوتے ہیں۔ جو لوگ نفسیاتی طور پر حد سے زیادہ حساس ہوتے ہیں وہ اکثر اوقات کڑھتے رہتے ہیں اورآسانی سے نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔

تیسری قسم کے محرکات SOCIAL FACTORS کہلاتے ہیں۔ بعض لوگوں کی زندگی سماجی عوامل سے بہت زیادہ متاثر ہوتی ہے اس کی ایک مثال مہاجر ہیں۔ بعض لوگ اپنے گاؤں یا شہر میں خوشی خوشی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں لیکن جب وہ گاؤں سے شہر یا ایک چھوٹے شہر سے دوسرے بڑے شہر یا مشرق کے ایک ملک سے مغرب کے کسی ملک ہجرت کرتے ہیں تو اپنے رشتہ داروں ، ہمسایوں اور دوستوں سے دوری کی وجہ سے نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان کے لیے نئے کلچر میں ایڈجسٹ ہونا مشکل ہوتا ہے اور انہیں نفسیاتی مدد کی ضرورت پیش آتی ہے۔

جب ہم کسی انسان کی شخصیت اور نفسیاتی مسائل کا تجزیہ کرتے ہیں تو یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کی زندگی میں کون سے عوامل زیادہ اہم ہیں۔ ماہرینِ نفسیات اسی تجزیے کی بنیاد پر علاج تجویز کرتے ہیں

حیاتیاتی عوامل کا علاج ادویہ سے
نفسیاتی مسائل کا علاج انفرادی تھیریپی سے
سماجی مسائل کا علاج فیملی اور گروپ تھیریپی سے کیا جاتا ہے۔

ہم اپنے کلینک میں اپنے مریضوں کو COMBINATION THERAPY پیش کرتے ہیں۔ جو ان کی نفسیاتی ضروریات کے مطابق بدلتا رہتا ہے۔

اس لیے NATURE AND NURTURE کا رشتہ کافی پیچیدہ اور گنجلک ہے۔ ہمیں ہر انسان کا تجزیہ کر کے دریافت کرنا پڑتا ہے کہ اس شخص کی شخصیت اور طرزِ زندگی مین کون سے عوامل زیادہ اہم ہیں اور کون سے کم۔

ہم اپنے مریضوں کو امید دلاتے ہیں کہ وہ گرین زون تھیریپی سے اپنی مدد آپ کرنا سیکھ سکتے ہیں اور اپنی زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں۔

ایک اور دوست نے مجھ سے فلسفیانہ سوال پوچھا ہے کہ
زندگی کا مقصد کیا ہے؟ ہم اپنی زندگی کو کیسے بامقصد بنا سکتے ہیں؟

میری نگاہ میں زندگی بذاتِ خود بے مقصد ہے لیکن ہر انسان کو یہ اختیار ہے کہ وہ اپنی زندگی کو کیسے بامقصد بنا سکتا ہے۔

میں اپنے دوستوں اور مریضوں کو اپنی مثال دیتا ہوں کہ میں خود گرین زون فلسفے پر عمل کرتا ہوں اور اپنے ہر دن کو بامقصد بنانے کی کوشش کرتا ہوں۔ میری زندگی کو بامقصد بنانے میں تین عوامل اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

CREATIVE THERAPY میں اپنے مریضوں اور ان کے خاندانوں کی خدمت کر کے بہت خوشی محسوس کرتا ہوں۔ میں انسان دوست ہونے کے ناطے انسانیت کی خدمت کو اپنی سیکولر عبادت سمجھتا ہوں

CREATIVE WRITING میں جب کوئی نظم ، کوئی افسانہ یا ہم سب کے لیے کالم لکھتا ہوں تو بہت مسرت اور انبساط محسوس کرتا ہوں۔ یہ میرا اپنی قوم کے لیے ایک بے لوث وولنٹیر ورک ہے۔

کریایٹیو تھیریپی سے میں کنیڈینز کی اور کریایٹیو تحریروں سے میں پاکستانیوں کی خدمت کرتا ہوں۔

CREATIVE FRIENDS بھی میری زندگی کو خوشگوار ، بامقصد اور بامعنی بناتے ہیں۔ ان دوستوں کے ساتھ مل کر ہم نے کینیڈا میں فیملی آف دی ہارٹ بنائی ہے جو ہر ماہ ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کو جمع کرتی ہے اور ان کے ساتھ ایک ادبی مکالمہ کرتی ہے تا کہ ہم سب ایک دوسرے سے دانائی کی باتیں سیکھ سکیں اور ادبِ عالیہ سے مستفید اور محظوظ ہو سکیں۔
یہ تمام عوامل میری زندگی کو بامقصد بناتے ہیں۔

میں آخر میں آپ کی خدمت میں اپنی ایک نثری نظم۔ خالی صراحیاں۔ پیش کرنا چاہتا ہوں جو اس موضوع پر میرے موقف کی ترجمانی کرتی ہے۔

خالی صراحیاں
ہماری زندگیاں
خالی صراحیاں ہیں
جنہیں ہم
عمر بھر
اپنی خواہشوں
اپنی آرزوؤں
اپنی تمناؤں
اپنی رقابتوں
اپنی رفاقتوں
اور
اپنی محبتوں
کی رنگیں شرابوں سے
سے بھرتے رہتے ہیں
لیکن اکثر اوقات
بھول جاتے ہیں کہ
در حقیقت
ہماری زندگیاں
بے رنگ خالی صراحیاں ہیں

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail