چاند کی رویت کا مسئلہ اور قمری کیلنڈر


ہر سال کی طرح امسال بھی خیبر پختونخوا کے مفتی پوپلزئی نے اپنی اور اپنے شاہدین بلکہ مشاہدین کی بصری قوت کا بھر پور اظہار کیا اور چاند کو آسمان کی گود میں دیکھنے کا اعلان کر دیا۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ پشاور کی مسجد قاسم خان سے مفتی پوپلزئی ہر سال رمضان المبارک میں اپنی ”بصری“ قوت کا اظہار کرتے ہیں۔ ایک ملک دو عیدیں، یہ سرخی ہر سال اخبارات میں جمتی ہے۔ لیکن اس مسئلے کا ابھی تک کو ئی ایسا حل تلاش نہیں کیا گیا جو ہمیں جگ ہنسائی سے بچا سکے۔

یہ سوال اپنی جگہ بڑا اہم ہے کہ ہر سال مفتی پوپلزئی اور ان کے ”مشاہدین“ کو ہی فوری طور پر چاند کیوں نظر آ جاتا ہے؟ اس سال وفاقی وزیر سائنس وٹیکنالوجی چودھری فواد نے کہا تھا کہ عید سے پہلے پہلے قمری کیلنڈر کا اجرا کر دیا جائے۔ انھوں نے وعدے کے مطابق قمری کیلنڈر کا اجرا کر دیا لیکن علما کو بہر حال اس کیلنڈر پر اعتراض ہے۔ علمائے کرام کا کہنا ہے کہ چاند کو ”کھلی“ آنکھ سے دیکھنا سنت ہے۔ حیرت مگر ان علما پر ہے جن کا کہنا ہے کہ چاند کو کھلی آنکھ سے دیکھنا سنت ہے، وہی علما دوربین سے چاند کو تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔

کیا دوربین ایک سائنسی آلہ نہیں؟ وقت کا تعین کرتے ہوئے سارے علمائے کرام گھڑیوں کا استعمال کرتے ہیں کیا گھڑی سائنس کی ایجاد نہیں؟ کیا اب مساجد میں اذان کے اوقات کار سورج کے سائے کے ساتھ طے کیے جاتے ہیں؟ یا گھڑی کی سوئیوں کے ساتھ؟ کیا سواری کے لیے اے سی والی جدید گاڑیوں میں علمائے کرام سفر نہیں کرتے؟ یہ سب سائنس کی بدولت ہی تو ہوا ہے۔

پھر کیا وجہ ہے کہ چاند دیکھنے کے سلسلے میں علما اس قدر حساس ہو جاتے ہیں؟ کیا نبی اکرمﷺ کے عہدِ مبارک میں کوئی چاند دیکھنے والی کمیٹی تھی؟ یہ تو ریاستی سطح پر ایک کمیٹی بنائی گئی ہے تا کہ جدید ریاستی نظام میں تمام علمائے کرام کی متفقہ رائے سے اسلامی مہینے کی رؤیت کا اعلان کیا جائے۔ آج کل 1950 کے ایک اخباری تراشے کی گردش معاملے کو سمجھنے میں مدد دے رہی ہے۔ اس تراشے کی سرخی یہ ہے کہ ”پشاور کے سواسارے پاکستان میں کل پیر کو عید منائی جائے گی“ آگے چل کر خبر کی تفصیل میں اس بات کا اظہار ہے کہ ”صوبہ سرحدکے بیشتر علاقوں میں گزشتہ روز اتوار کو عید منائی گئی ہے“ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ خیبر پختونخوا قیام پاکستان سے وفاق اور دیگر صوبوں سے الگ اپنے چاند کی رویت کا اظہار کرتا آرہا ہے۔

مجھے حیرت ہوتی ہے کہ دنیا چاند کو تسخیر کر چکی ہے اور ہم ہیں کہ ہمیں ابھی تک چاند نظر ہی نہیں آتا۔ وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ ”پانچ رکنی کمیٹی قائم کی ہے جس میں سپارکو، محکمہ موسمیات اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے ماہرین شامل ہوں گے یہ کمیٹی اگلے دس سال کے چاند، عیدین، محرم اور رمضان سمیت دیگر اہم کیلنڈر کی تاریخ کا کیلنڈر جاری کرے گی۔ اس سے ہر سال پیدا ہونیوالا تنازعہ ختم ہو گا۔ “ لیکن جو ہوا وہ بالکل اس سب کے بر عکس ہوا۔ بلکہ وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوھدری پر صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسف زئی نے طنز کے نشتر بھی چلائے۔

یاد رہے کہ خیبر پختونخوا کی حکومت نے 4 جون کو سرکاری طور پر عید منانے کا اعلان کیا تھا ”وزیر اطلاعات خیبر پختونخوا شوکت یوسف زئی نے بیان میں کہا تھا کہ مسجد قاسم علی خان میں مفتی شہاب الدین پوپلزئی کی سربراہی میں کمیٹی کو چاند کی 110 سے زائد شہادتیں موصول ہوئیں جبکہ صوبائی حکومت کو بھی صوبے کے مختلف حصوں سے چاند نظر آنے کی شہادتیں ملیں، اس لیے پورے صوبے میں عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے خیبر پختونخوا میں منگل کو عیدالفطر منائی جائے گی۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ منگل کو سرکاری سطح پر عیدالفطر منانے کا فیصلہ وزیر اعلی محمود خان نے خود کیا ہے، وہ اور گورنر شاہ فرمان بھی 4 جون کو عید منائیں گے اور گورنر ہاوس میں عید کی نماز ادا کریں گے۔ ”لیکن بعد میں جو ہوا وہ بالکل ہی اس کے بر عکس تھا۔ جس سے ابہام اور غلط شہادتوں کو سرکاری طور پر تسلیم کر لیا گیا۔ اگلے روز ان ہی صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسف زئی نے کہا کہ“ ایک روزے کا کفارہ ادا کریں گے اور روزہ دوبارہ رکھیں گے۔

” اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے سیاسی مفادات کی خاطر مفتی پوپلزئی کی سرکاری طور پر تائید کی اور بعد میں سرکاری سطح پر اس غلطی کو تسلیم بھی کیا۔ صوبائی وزیر اطلاعات کا یہ کہنا بھی تھا کہ مفتی پوپلزئی کو مرکزی رویت ہلال کمیٹی میں شامل کیا جائے، جبکہ مفتی منیب الرحمان سے انھوں نے استعفے کا مطالبہ بھی کیا۔ یہ بیانات ظاہر کرتے ہیں کہ اصل مسئلہ چاند کی رویت سے بڑھ کر“ انا ”اور ضد کا ہے۔ اب جبکہ خیبر پختونخوا کی حکومت نے سرکاری سطح پر تسلیم کر لیا کہ وہ ایک روزے کا کفارہ ادا کریں گے اور روزہ بھی رکھیں گے، تو کیا صوبائی حکومت مفتی پوپلزئی اور ان کو شہادتیں دینے والوں کے خلاف کوئی کارروائی بھی کرے گی؟ مجھے سو فی صد یقین ہے کہ بالکل نہیں۔

مجھے وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی کے جارحانہ رویے اور ان کے طرز سیاست سے لاکھ اختلاف ہو سکتا ہے لیکن ان کی اس بات کی تائید ہر ذی فہم ضرور کرے گا کہ جدید ترین عہد میں اب چاند کی رویت کا کام چند مولویوں کے ذمہ نہیں چھوڑا جا سکتا۔ وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی نے عیدِ قربان اور ماہ محرم کی تاریخوں کا بھی اعلان کر دیا ہے، جس پر ایک بار پھر صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسف زئی نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عیدالاضحی اور محرم الحرام کی تاریخ نہیں بتانی چاہیے تھی کیونکہ اِن کی تاریخوں پر کبھی اختلاف رہا ہی نہیں ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ اس معاملے کے لیے میری تجویز ہے اور میں خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے پیشکش کرتا ہوں کہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی اور ان کی ٹیم، وزیر سائنس اور ٹیکنالوجی فواد چوہدری اور ان کی ٹیم پشاور آئے اور ہمارے علما کرام کے ساتھ بیٹھ کر مسئلے کا حل نکالے۔ سوال یہ ہے کہ مسئلہ صرف عید الفطر پر ہی کیوں ہوتا ہے؟ اس مسئلے کا ایک سیاسی اور مسلکی پہلو بھی ہے، جس سے ہم صرفِ نظر نہیں کر سکتے۔ جو علما متفقہ طور پر ملک میں ایک عید کا اعلان نہیں کر سکتے، کیا ان میں اتنی اجتہادی بصیرت ہے کہ وہ امہ نامی ہجوم کے بڑے بڑے مسائل کا حل پیش کر سکیں؟ یہ تاویلات پیش کریں گے، اگر مگر، کریں گے، رویت کے معانی پر بحث کریں گے، لیکن حل کوئی نہیں دیں گے۔

اس لیے کہ اپنے عہد کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کو یہ لوگ ذہنی طور پر تیار ہی نہیں۔ مجھے ان تمام علمائے حق کا احترام ہے، لیکن میں یہ سوال کیے بنا نہیں رہ سکتا کہ مولوی حضرات آخر چاند کے مسئلے کو اپنی انا کا مسئلہ کیوں بنائے ہوئے ہیں؟ میری رائے میں یہ کام ریاست کے ذمہ ہونا چاہیے۔ باقی سارے کام جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے کیے جا رہے ہیں، ایک چاند کی رویت کا معاملہ مولویوں پر کیوں چھوڑ دیا گیا؟ ہم ہر سال تماشا بنتے ہیں۔

ایک ملک میں، دو دو، تین تین عیدیں منائی جاتی ہیں۔ میری رائے میں اس حوالے سے علمائے کرام کو اجتہادی نقطہ نظر سے رویت کے معاملے کو حل کرنے کی طرف عادلانہ پیش قدمی کرنی چاہیے۔ آج نہیں توکل ہمیں سائنس ہی کی مدد سے یہ مسئلہ حل کرنا ہو گا۔ اس کے سوا ہمارے پاس کوئی چارہ کار نہیں۔ جو قومیں اپنے عہد کے تقاضوں اور اپنے عہد کے علمِ نافع سے کتراتی ہیں انھیں ذلت اور رسوائی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا اور وہ باہم دست و گریبان رہتی ہیں۔ علمِ نافع یہی تو ہے کہ جدید سائنسی علوم سے استفادہ کیا جائے۔ خلقِ خدا کے خوف سے کئی باتیں کالم میں نہیں سمیٹ سکتا، اسی لیے شیفتہ کو پکارا۔

افسوس بے شمار سخن ہائے گفتی
خوفِ فسادِ خلق سے نا گفتہ رہ گئے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).