صحافی اور ادیب نسیم شاد مرحوم کی چند باتیں


‎ آج بارہ جون ہے اور آج سینئر صحافی و ادیب نسیم شاد مرحوم کی برسی ہے۔ جو میرے والد بھی تھے۔ ان کو ہم سے بچھڑے آج انیس برس ہو گئے۔ نسیم شاد مرحوم 20 جنوری 1942 کو بھارت کے شہر انبالہ میں پیدا ہوئے۔ بچپن وہ ایک ذہین اور زیرک شخص تھے۔ ان کی ذہانت کا اندازہ آپ اس طرح لگاسکتے ہیں کہ تقسیم ہند سے قبل ہندوستان میں کچھ تنگ نظر ہندوں کا مسلمانوں کے ساتھ تعصب اس قدر تھا کہ وہ ان کو اچھوت سمجھتے تھے۔ اور ان کے ساتھ کھانا پینا بھی نہیں کرتے تھے۔

اس وقت میرے والد کی عمر کوئی چار پانچ سال ہوگی جب وہ ہمارے دادا کی گود میں ان کے ساتھ سودا سلف لینے جاتے تھے۔ اور دادا مرحوم ان کو مٹھائی کی دوکان پر لے جاتے تھے جس کا مالک مسلمانوں گاہکوں کے ساتھ نسلی تعصب روا رکھتا تھا۔ دادا جان میرے والد سے ان کی پسند کی مٹھائی کا پوچھتے تو وہ پہلے ایک مٹھائی پر انگلی رکھ کر اپنی پسند بتاتے اور پھر دوسری پر اور اس ہی طرح وہ تین چار مٹھائیوں پر انگلی لگا دیتے۔ وہ ایسا اس لئے کرتے تھے کہ وہ ،تعص ہندو بنیا مسلمانوں کی ہاتھ لگائی ہوئی مٹھائی کو الگ کرکے رکھ دیتا تھا۔ اور وہ اس بنیے کہ نقصان سے محظوظ ہوتے تھے جو مسلمانوں سے نفرت کرتا تھا۔

میرے والد نے تقسیم کے بعد اپنے والدین کے ہمراہ پاکستان ہجرت فرمائی۔ اور کراچی میں سکونت اختیار کر لی۔ ابتدائی تعلیم ویلجی بھائی اللہ رکھا اسکول جہانگیر روڈ پر حاصل کری۔ اعلی تعلیم وفاقی اردو کالج سے حاصل کری اور زمانہ طالب علمی سے ہی این ایس ایف کے پلیٹ فارم سے ملک کے کچلے ہوئے مظلوم طبقے کے حقوق کے لئے طویل جدوجہد کری۔

میرے والد نے اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز سینئر صحافی و ادیب ابراہیم جلیس مرحوم کی سرپرستی میں روزنامہ انجام سے کیا۔ اور پھر روزنامہ مشرق سے آخر تک وابستہ رہے۔ ان کا شمار ملک کے سینئر اخبار نویسوں میں ہوتا تھا۔ جنرل ضیاء کے مارشل لاء کے دور میں مشرق اور امروز سمیت دیگر کئی اخبارات و جرائد کو نیشنل پریس ٹرسٹ میں دے دیا گیا۔ مگر اس کے باوجود انھوں نے اپنے قلم کی حرمت کو پامال نہیں ہونے دیا۔ وہ ہر آنے جانے والی حکومت کو اپنے قلم کی نوک سے اچھتے رہے۔ کے یو جے۔ پے۔ یو۔ جے اور کراچی پریس کلب کے پلیٹ فارم سے انھوں نے صحافی طبقے کی حقوق کی ایک طویل جنگ لڑی۔

کراچی میں اردو یونیورسٹی کے قیام کے لئے بھی انھوں نے انتھک جدوجہد کری۔ وہ ایک بہت بڑے انسان تھے۔ ان کی نیک نامی اور ہر دلعزیزی ایک مثال تھی۔ ان کی سرپرستی میں تربیت پانے والے کئی اشخاص کا شمار آج ملک کے جید صحافیوں میں ہوتا۔ وہ ایک زندہ دل اور مثبت سوچ رکھنے والے انسان تھے۔ انھوں نے ہمیشہ ہمیں تاکید کری کہ زندگی میں کسی بھی معاملے میں کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے تصویر کے دونوں رخ دیکھو۔ ان کا بے داغ صحافتی کیئریر ایک مثال ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).